آج کا دن: شکور-گیٹنگ تنازع، پاک-انگلستان تعلقات کی خرابی کا آغاز

11 1,228

پاکستان اور انگلستان کے درمیان بدقسمتی سے کرکٹ تعلقات بہت زیادہ خوشگوار نہیں ہیں، اس کی انتہا تو پاکستان کے گزشتہ دورۂ انگلستان یعنی 2010ء میں دیکھی جا چکی ہے جب انگلستان کے اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' نے پاکستان کے کپتان سلمان بٹ اور دو اہم گیند بازوں محمد آصف اور محمد عامر پر اسپاٹ فکسنگ کا الزام عائد کیا۔ بعد ازاں تحقیقات سے تینوں کھلاڑیوں پر الزام ثابت ہوا اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے کم از کم 5،5 سال کی پابندی کے علاوہ وہ برطانیہ میں قید کی سزائیں بھی بھگت رہے ہیں۔

لیکن پاک-انگلستان کرکٹ تعلقات کی خرابی کا تخم 1987ء میں فیصل آباد میں بویا گیا جب اُس وقت کے انگلش کپتان مائیک گیٹنگ اور ٹیسٹ میچ میں امپائرنگ کا فریضہ انجام دینے والے شکور رانا کے درمیان جھگڑے نے دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس واقعے کو اپنے وقت میں نہ صرف پاک-انگلستان کرکٹ تعلقات بلکہ کھیل کے انتہائی زوال کا عکاس سمجھا گیا تھا۔ گو کہ پاک-انگلستان دو طرفہ کرکٹ میں 2006ء کا اوول تنازع بھی کسی طرح سے کم نہ تھا، جب بال ٹمپرنگ کے الزامات لگنے کے بعد انضمام الحق کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم نے میدان میں دوبارہ آنے سے انکار کر دیا اور امپائروں نے میچ میں انگلستان کو فاتح قرار دیا تھا لیکن جتنا بدنام زمانہ 87ء کا مذکورہ فیصل آباد ٹیسٹ ہوا، اتنا شاید کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔ امپائر اور ایک ٹیم کے کپتان کے درمیان حد درجہ گری ہوئی زبان کے استعمال نے کرکٹ کے حسن کو گہنا دیا۔ دراصل یہ آج یعنی 8 دسمبر ہی کا دن تھا جب مائیک گیٹنگ اور شکور رانا کے درمیان وہ تاریخی جھگڑا ہوا جسے آج بھی پاک-انگلستان کرکٹ تعلقات کی خرابی کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔

دوسرے روز کے اختتامی لمحات میں امپائر شکور رانا اور مائیک گیٹنگ کے درمیان جھگڑے کی یادگار تصویر (تصویر: Graham Morris)
دوسرے روز کے اختتامی لمحات میں امپائر شکور رانا اور مائیک گیٹنگ کے درمیان جھگڑے کی یادگار تصویر (تصویر: Graham Morris)

1987-88ء کی پاک انگلستان ٹیسٹ سیریز کا آغاز لاہور کے تاریخی قذافی اسٹیڈیم سے ہوا جہاں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں اسپن جادوگر عبد القادر کی شاندار گیند بازی کی بدولت پاکستان نے پہلا ٹیسٹ اننگز اور 87 رنز سے جیتا۔ لیکن عبد القادر کے علاوہ جس چیز نے انگلش بلے بازوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں وہ امپائرنگ کا انتہائی ناقص معیار تھا۔ کیونکہ اس زمانے میں 'نیوٹرل امپائروں' کا کوئی تصور نہ تھا اس لیے امپائروں کی تقرری میزبان ملک کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ لاہور ٹیسٹ میں خاص طور پر امپائر شکیل خان نے جس ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ مہمان ٹیم کو گھاؤ لگانے کے لیے کافی تھا۔

اور لاہور میں لگے انہی زخموں پر نمک چھڑکنے کا اہتمام فیصل آباد میں امپائر شکور رانا نے کیا۔ جہاں کے اقبال اسٹیڈیم میں دونوں ٹیموں نے سیریز کا دوسرا ٹیسٹ کھیلا۔ پہلے روز ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے والے انگلستان نے اوپنر کراس براڈ کی سنچری اور بعد ازاں مائیک گیٹنگ کے 79 رنز کی بدولت 292 رنز کا اچھا مجموعہ اکٹھا کیا۔ پاکستان کے اسپنر ایک مرتبہ پھر چھائے رہے اور عبد القادر اور اقبال قاسم نے مجموعی طور پر 9 وکٹیں حاصل کیں۔ جواب میں دوسرے روز کے اختتام تک پاکستان 106 رنز پر اپنی پانچ وکٹیں گنوا چکا تھا لیکن دن کے اختتامی اوور میں وہ لمحہ آیا جو تاریخ میں امر ہے۔ انگلش ٹیم جو گزشتہ میچ کی امپائرنگ سے انتہائی ناخوش تھی اور بلاشبہ سیریز میں 1-0 کا خسارہ بھی اُن کو کھٹک رہا تھا اس لیے اس کے کھلاڑی بہت زیادہ تناؤ کے شکار تھے حالانکہ میچ میں اُن کی پوزیشن انتہائی مضبوط تھی۔ بہرحال، ایڈی ہمنگز کی جانب سے کرائے گئے آخری اوور کے دوران اسکوائر لیگ پر کھڑے امپائر شکور رانا نے دیکھا کہ انگلش کپتان مائیک گیٹنگ اس وقت اپنے فیلڈر کو سلیم ملک کے قریب لا کر کھڑا کرتے جب بلے باز گیند پھینکے جانے کا انتظار کرتا۔ اس موقع پر امپائر شکور رانا نے کھیل کو روکتے ہوئے گیٹنگ کو متنبہ کیا کہ یہ حرکت خلافِ قانون ہے اور بال پھینکے جاتے ہوئے فیلڈنگ میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔

امپائر کا یہ کہنا تھا کہ مائیک گیٹنگ پھٹ پڑے، انہوں نے انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ دونوں کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا جس کے ساتھ ہی تیسرے روز کا کھیل انتہائی تناؤ کی حالت میں اختتام کو پہنچا۔

اگلے روز امپائر شکور رانا نے میدان میں آنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک انگلش کپتان معافی نہیں مانگیں گے، وہ میچ میں امپائرنگ نہیں کریں گے۔ دوسری جانب مائیک گیٹنگ نے بھی مطالبہ کیا کہ شکور رانا نے اُن کے خلاف جس طرح کے الفاظ ادا کیے ہیں اس پر ان کو بھی معافی مانگنی چاہیے۔ اسی ہنگامے میں تیسرے روز کا پورا کھیل ضایع ہو گیا۔

یہ کرکٹ کی تاریخ کا واحد موقع ہوگا کہ میچ آفیشل اور ایک ٹیم کے کپتان کے درمیان جھگڑے کے باعث ٹیسٹ میچ منعقد نہ ہو سکا ۔ انگلش ٹیم کے مینیجر، کپتان اور تمام کھلاڑیوں نے دورۂ پاکستان ختم کرنے کی دھمکی دی۔ جس پر بورڈ آف کرکٹ کنٹرول اِن پاکستان (بی سی سی پی) کے صدر جنرل صفدر بٹ نےانگلش ٹیم کے مینیجر سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مائیک گیٹنگ نے انتہائی گھٹیا زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ گیٹنگ کے ادا کردہ کم گھٹیا الفاظ 'حرامی' اور 'کتے کے بچے' تھے۔ انہوں نے کہا کہ امپائروں کے خلاف اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے کی بھی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ پاکستان کے مینیجر فہیم الدین نے تو یہ تک کہہ ڈالا کہ وہ اسی صورت میں کھیلیں گے جب بقیہ میچ میں مائیگ گیٹنگ نہ کھیلیں، اور وہ ان کے ہوتے ہوئے میچ میں شرکت نہیں کر سکتے۔

دوسری جانب مائیک گیٹنگ کا کہنا تھا کہ یہ امپائر کا کام نہیں ہے کہ وہ بلے باز کو بتائے کہ حریف کپتان کیا کر رہا ہے، میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس پر مجھے معافی مانگنی پڑے۔ امپائر شکور رانا نے کہا کہ پاکستان میں اِس طرح کی مغلظات بکنے پر تو لوگ قتل کر دیے جاتے ہیں، گیٹنگ خوش قسمت رہے کہ میں نے ان کی دھنائی نہیں لگائی اور اس پر بھی شکر ادا کریں کہ میدان میں موجود تماشائیوں نے ان پر چڑھائی نہیں کی۔

حیران کن امر یہ ہے کہ برطانیہ کے بیشتر اخبارات نے مائیک گیٹنگ کو تنازع کا ذمہ دار ٹھیرایا اور امپائرنگ کے معیار کو ناقص قرار دینے کے ساتھ ساتھ برطانوی کپتان کے طرزِ عمل کو انتہائی ناقص اور ناقابل قبول قرار دیا۔ جبکہ دوسری جانب انگلش اور آسٹریلوی کھلاڑیوں نے مائیک گیٹنگ کی کھل کر حمایت کی اور پاکستان کے خوب لتے لیے۔

اس ہنگامہ خیز دن کے بعد لندن میں انگلش کرکٹ بورڈ کی جانب سے جاری کردہ خصوصی احکامات کے تحت مائیک گیٹنگ نے شکور رانا سے معافی مانگ لی لیکن اس کھینچا تانی میں جو ایک دن کا کھیل ضایع ہوا، اُس کی وجہ سے فیصل آباد ٹیسٹ فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکا اور بے نتیجہ ہی ختم ہوا۔

تاہم پاکستان نے ایک آخری کوشش یہ کی کہ پہلے ٹیسٹ میں انتہائی ناقص امپائرنگ کا مظاہرہ کرنے والے شکیل خان ہی کو کراچی میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میں امپائرنگ کا فریضہ سونپ دیا جس پر ایک اور ہنگامہ برپا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ انگلستان کے شدید احتجاج کے بعد امپائرنگ کے فرائض خضر حیات اور محبوب شاہ کو سونپ دیے گئے اور تیسرا ٹیسٹ بھی بے نتیجہ ختم ہونے کے باعث پاکستان نے سیریز 1-0 سے جیت لی لیکن ٹیسٹ سیریز انتہائی خراب ماحول میں ختم ہوئی اور اس کے بعد انگلستان نے 13 سال تک پاکستان کا رُخ نہیں کیا۔ سیریز میں امپائرنگ کے ناقص معیار نے 'نیوٹرل امپائروں' کی تقرری کی اہمیت پر زور دیا اور بعد ازاں پاکستان کے مطالبے پر ٹیسٹ مقابلوں میں دونوں اینڈز پر نیوٹرل امپائروں کو مقرر کیا گیا۔

شاید اس تنازع کا ہی نتیجہ ہو کہ اس کے بعد سے آج تک پاکستان اور انگلستان کے درمیان کوئی دو طرفہ سیریز کسی تنازع سے محفوظ نہیں رہی۔ 1992ء میں پاکستانی گیند بازوں پر بال ٹمپرنگ کا الزام ہو یا 2006ء کا اوول ٹیسٹ تنازع یا پھر کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے اسکینڈل اسپاٹ فکسنگ کا معاملہ، پاکستان و انگلستان کے درمیان سیریز ہر مرتبہ ایک نیا گل کھلاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلے ماہ جب دونوں ٹیمیں متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں مدمقابل ہوں گی تو کیا ایک مرتبہ پھر کوئی تنازع جنم لے گا؟