سفرِ لاہور اور عزیز خان تانگے والا

8 1,078

ایک روز میرے دوست اعجاز ارشد نے بتایا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) اپنی کراچی ڈویژن کی ٹیم کے لیے لاہور میں ٹرائلز کرا رہی ہے۔ یہ میرے مسائل کا ایک زبردست حل تھا– ملازمت وہ بھی ایسے کام کے ساتھ جو میں کرنا چاہتا ہوں – میں نے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ تھیلا پکڑا، اعجاز کو ساتھ چلنے پر راضی کیا، اور دونوں بذریعہ بس لاہور کے لیے نکل پڑے۔ ہم ٹکٹ خرید کر نہیں جا رہے تھے، کیونکہ ہم دونوں کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ اس لیے بس کے اسٹارٹ ہونے کا انتظار کیا، پیچھے سے بھاگتے ہوئے آئے اور چھت پر چڑھ گئے۔ بس کا کنڈکٹر اِن حرکتوں سے اچھی طرح واقف تھا اور بار بار چھت پر نظریں دوڑاتا رہا کہ کوئی اس کی 'کمپنی کے خرچے' پر تو سفر نہیں کر رہا۔ سات گھنٹے کا یہ پورا سفر اُس کو دھوکے دینے میں گزرا، وہ ایک طرف سے اپنا سر اوپر کرتا تو ہم دوسری طرف لٹک جاتے۔ ہم ہر اسٹاپ پر چھلانگ مار کر اتر جاتے اور جب بس چلنے لگتی تو اُس کے رفتار پکڑنے سے قبل بھاگتے ہوئے پیچھے سے سوار ہوتے اور دوبارہ چھت پر۔ مجھے یہ سفر اچھی طرح یاد ہے کیونکہ یہ کنڈیکٹر کے کرایہ وصول کرنے اور ہمارے کرایہ نہ دینے کے عزم کا مقابلہ تھا۔

شعیب اختر کی کتاب کا سرورق
شعیب اختر کی کتاب کا سرورق

اس چوری، اور اگر میں کہوں تو مہم جویانہ سفر، کے بعد ہم شام کو لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ ہماری تاخیر سے آمد نے ایک اور مسئلہ کھڑا کر دیا۔ ٹرائلز اگلی صبح منعقد ہونا تھے، اس لیے ہمیں رات کو رہنے کا انتظام کرنا تھا۔ میری جیب میں 12 اور اعجاز کی جیب میں 13 روپے کی 'بڑی رقم' تھی، جو کل ملا کر کسی سستے ہوٹل میں رات کے قیام کے برابر رقم بنتی تھی۔ لیکن ہم اگر یہ پیسے رہائش کے لیے دے دیتے، تو ہمیں رات کے کھانے سے ہاتھ دھونا پڑتے، جو ہم دونوں کے لیے کہیں زیادہ پریشان کن بات تھی۔ اعجاز کچھ پریشان تھا لیکن میں ہر گز نہیں۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ہمیں رات بسر کرنے کے لیے ایک محفوظ مقام مل جائے گا – یعنی تانگے والا۔ میں نے ایک نئے اور چمچماتے تانگے کا انتخاب کیا، اس کے مالک کے پاس گیا اور بولا 'سلام! میں آج رات کو آپ کو اچھا کھانا کھلاؤں گا۔'

اس نے میری طرف دیکھا اور بولا، 'تو ہے کون؟'

میں نے جواب دیا کہ میں پنڈی کا ایک کرکٹر ہوں۔

اس نے فوراً کہا 'کیا تو پاکستان کے لیے کھیلتا ہے؟'

میں نے جواب دیا 'اللہ کرے، یہ بھی ہوگا، لیکن اس وقت تو میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔'

مجھے اس کی مسکراہٹ اور یہ سوال آج تک یاد ہے کہ وہ مجھ پر احسان کیوں کرے۔ میں نے کہا کیونکہ جب میں پاکستانی ٹیم میں چلا جاؤں گا تو میں اُس سے ملنے کے لیے واپس آؤں گا۔

اس نے پوچھا 'کیا تمہیں یقین ہے کہ تم قومی ٹیم میں پہنچ جاؤ گے؟'

اور میں بولا 'ہاں، میری آنکھوں میں دیکھو، تمہیں اُس میں نظر آئے گا۔'

'چلو پھر بات پکی'، وہ بولا۔

اس طرح میں نے عزیز خان، تانگے والے، کو قائل کیا کہ وہ اپنے بستر اور آرام کی جگہ میں ہمیں حصہ دے اور اس رات ہم نے لاہور کے ایک فٹ پاتھ پر ایک پر سکون نیند لی۔ اگلی صبح عزیز خان نے کمال فیاضی سے ہمیں ماڈل ٹاؤن کے گراؤنڈ تک چھوڑا جہاں ٹرائلز منعقد ہونا تھے۔ تانگوں کو صرف مال روڈ تک جانے کی اجازت تھی اور جب میں اترا، تو میں نے اپنا وعدہ یاد دلایا کہ میں پاکستانی ٹیم میں شامل ہونے کے بعد اُس سے ملنے واپس آؤں گا، اور اگر اسے کبھی بھی یہ سننے کو ملے کہ ایک کرکٹر اسے ڈھونڈ رہا تھا، تو سمجھ جائے کہ وہ میں تھا۔

'نام یاد رکھنا'، میں نے کہا۔

(یہ اقتباس شعیب اختر کی سوانحِ عمری 'کنٹروورشلی یورز' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دیگر ترجمہ شدہ اقتباسات یہاں سے پڑھے جا سکتے ہیں۔)