عزیز خان تانگے والے سے دوسری ملاقات

5 1,023

پھر میں نے ریلوے اسٹیشن کا رُخ کیا تاکہ عزیز خان کو ڈھونڈ سکوں، وہ تانگے والا جس نے مجھے اُس وقت رہنے کی جگہ دی تھی جب میں پی آئی اے کی ٹیم میں شامل ہونا چاہ رہا تھا۔ اُسے ڈھونڈنے میں مجھے کچھ وقت ضرور لگا لیکن بالآخر محنت رنگ لائی۔ میں نے اُسے سڑک کے کنارے ایک جگہ سوتے ہوئے پا لیا۔ وہ چونکتے ہوئے اٹھا اور چندھیائی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ میں بولا 'میں کیا سی کہ میں آواں گا (میں نے کہا تھا کہ میں آؤں گا)۔'

شعیب اختر کی کتاب Controversially Yours کا سرورق

اُس نے فوراً مجھے گلے لگا لیا اور اُس کے لبوں پر دعائیں جاری ہو گئیں۔ کافی دیر تک وہ یہی دہراتا رہا کہ اُسے یقین نہیں آ رہا کہ یہ میں ہوں۔ کچھ دیر بعد ہم ایک قریبی چائے والے کے پاس گئے اور چائے پی۔ اس پورے وقت وہ اللہ کی مہربانیوں پر حیران ہوتا رہا۔ 'مجھے یقین نہیں کہ یہ سب ہو چکا ہے۔ معجزات اب بھی رونما ہوتے ہیں اور تم میرے لیے اُنہی معجزوں میں سے ایک ہو۔' اس نے کہا کہ میرے لیے یہ بات بہت حیرتناک ہے کہ ایک شخص جو میرے ساتھ فٹ پاتھ پر سویا تھا اب ایک شخصیت بن چکا ہے جو ہر دلعزیز ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر ہم نے خوب گپیں لگائیں۔

اس وقت تک ارد گرد کے ہجوم کو معلوم ہونے لگا تھا کہ میں یہاں موجود ہوں اور پورا اسٹیشن مجھے دیکھنے کے لیے امنڈ آیا۔ عزیز خان نے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 'دیکھو کتنے لوگ تمہیں جانتے ہیں اور تمہیں اپنے گھر لے جانے کے لیے بے تاب ہیں۔'

میں نے کہا 'ہاں، لیکن تم نے مجھے اُس وقت جگہ دی جب مجھے کوئی نہیں جانتا تھا، اس لیے اب میں صرف تمہیں پہچانتا ہوں اور تمہی سے ملنے آیا ہوں۔'

میں کافی دیر تک اس کی جیب میں کچھ رقم ڈالنے کی کوشش کرتا رہا لیکن اس نے میری کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ عزیز خان دنیا کی نظروں میں ایک غریب آدمی تھا ، لیکن میرے لیے وہ عزت نفس اور وقار میں امیر تھا۔ بعد ازاں رات کو ہم نے ایک مرتبہ پھر کھانا کھایا اور اس نے کھانے کے پیسے لینے سے بھی انکار کر دیا۔ بولا کہ 'اُس دن بھی میں نے تجھے کھانا کھلایا تھا، آج بھی میں ہی کھلاؤں گا۔ اُس دن بھی تُو میرے لیے شعیب تھا، اور میں چاہتا ہوں کہ تُو ہمیشہ شعیب ہی رہے، یاد رکھو کبھی نہ بدلنا۔'

اُس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں تانگے کی سواری کرنا چاہوں گا؟ میں نے کہا 'ضرور!۔' تو ہم نے چھ سال قبل ہی کے سفر کو تازہ کیا جب میں پی آئی اے میں ملازمت کی کوشش کر رہا تھا۔ سفر کے اختتام پر میں نے اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھے۔ عزیز خان اور میں اس کے بعد بھی کافی عرصہ رابطے میں رہے حتیٰ کہ چار سال قبل اس کا انتقال ہو گیا۔

(یہ اقتباس شعیب اختر کی سوانحِ عمری 'کنٹروورشلی یورز' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دیگر ترجمہ شدہ اقتباسات یہاں سے پڑھے جا سکتے ہیں۔)