عبد الرحمن نے پاکستان کو کامیابی دلا دی، سیریز میں کلین سویپ

2 1,120

بنگلہ دیش پوری ہوم سیریز میں مستقل دباؤ میں رہنے کے بعد بالآخر حتمی ٹیسٹ میں نسبتاً اچھی کارکردگی دکھانے میں تو کامیاب رہا تاہم اس کے باوجود وہ پاکستان کو جیتنے اور 'وائٹ واش' کرنے سے نہ روک پایا. مہمان ٹیم نے ایک زبردست مقابلے کے بعد 7 وکٹوں سے فتح اپنے نام کی اور سیریز 2-0 سے جیت کر عالمی درجہ بندی میں ترقی پا کر پانچواں مقام بھی حاصل کر لیا۔

میر پور، ڈھاکہ کے شیربنگلہ نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے سیریز کا دوسرا مقابلہ ریکارڈز اور اعداد و شمار کے لحاظ سے چند کھلاڑیوں کے لیے بہت نمایاں رہا۔ توفیق عمر ایک اور سنچری داغ کر رواں سال پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بن گئے جبکہ سعید اجمل نے کلینڈر ایئر میں 50 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا، اور وہ اس وقت بدستور سال میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے گیند باز ہیں. دوسری طرف بنگلہ دیش کی جانب سے شکیب الحسن نے ایک ہی ٹیسٹ میں سنچری بنائی اور پانچ وکٹیں بھی حاصل کر کے ریکارڈ بک میں اپنا نام لکھوایا۔ وہ زبردست آل راؤنڈ کارکردگی کا یہ عظیم مظاہرہ کرنے والے پہلے بنگلہ دیشی کھلاڑی بنے جس پر انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا لیکن اُن کی یہ کارکردگی بھی بنگلہ دیش کو فتح سے ہمکنار نہ کر سکی حتیٰ کہ بنگلہ دیش مقابلہ ڈرا بھی نہیں کر پایا۔

دونوں ٹیموں کے درمیان فیلڈنگ نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ بنگلہ دیش نے پاکستان کی پہلی اننگز میں 6 آسان کیچ ڈراپ کیے اور پاکستان کو پہلی اننگز میں 132 رنز کی برتری حاصل کرنے میں مدد دی جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان نے کوئی آسان چانس نہیں چھوڑا۔ اکا دکا مشکل کیچ پکڑنے میں ناکام ضرور رہے لیکن اس کی کسر آخری روز یونس خان نے پوری کر دی جنہوں نے آخری روز عبد الرحمن کی گیند پر شہادت حسین کا ایک بہت ہی شاندار کیچ لیا جسے بلاشبہ سال کے بہترین کیچز میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اگر بنگلہ دیش پاکستان کو پہلی اننگز میں اتنے مواقع نہ دیتا تو میچ کا نتیجہ لازماً کچھ اور ہوتا۔

توفیق عمر نے سال کی تیسری سنچری داغی اور پہلی اننگز میں ٹاپ اسکورر رہے (تصویر: AFP)
توفیق عمر نے سال کی تیسری سنچری داغی اور پہلی اننگز میں ٹاپ اسکورر رہے (تصویر: AFP)

ابتدائی چار روز تک تقریباً برابری کی سطح پر ہونے والے مقابلے کے بعد آخری روز بنگلہ دیش نے 114 رنز 5 کھلاڑی آؤٹ پر اننگز کا آغاز کیا اور ابتدائی سیشن میں زبردست کارکردگی دکھاتے ہوئے کھانے کے وقفے تک کوئی وکٹ بھی نہ گرنے دی اور رنز کو 200 تک بھی پہنچا دیا۔ یہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی کیونکہ وہ عالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف اہم سیریز سے قبل بنگلہ دیش جیسے کمزور حریف کے مقابلے میں کسی اپ سیٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ کھانے کے وقفے کے بعد عبد الرحمن نجات دہندہ بن کر سامنے آئے اور انہوں نے پہلے 79 رنز بنانے والے ناصر حسین، پھر 53 رنز بنانے والے کپتان مشفق الرحیم اور پھر شہادت حسین کو 1 رنز پر پویلین کا راستہ دکھا دیا. دوسرے اینڈ سے سعید اجمل نے الیاس سنی اور ربیع الاسلام کو چلتا کر کے بنگلہ دیش کی دوسری اننگز کی بساط 234 رنز پر لپیٹ دی۔ قبل ازیں عمر گل کی ابتدائی تباہ کن گیند بازی کی بدولت دو مسلسل گیندوں پر تمیم اقبال اور شہریار نفیس کی وکٹیں گنوانے والا بنگلہ دیش شدید مشکلات کا شکار دکھائی دیا جس کی ابتدائی 5 وکٹیں محض 95 رنز پر گر چکی تھیں اور ایسا لگتا تھا کہ اگر وکٹیں گرنے کا سلسلہ نہ رکا تو وہ اننگز کی شکست سے بھی دوچار ہو سکتا ہے لیکن ناصر حسین اور مشفق الرحیم نے چھٹی وکٹ پر 117 رنز کی زبردست شراکت داری قائم کی۔ بنگلہ دیش کو قائدانہ کمزوریوں نے بھی بہت نقصان پہنچایا خصوصاً چوتھے روز کم ہوتی ہوئی روشنی میں 'نائٹ واچ مین' کے بجائے شکیب کو بھیجنے کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر تھا۔ شکیب دن بھر پاکستان کے خلاف اوورز کراتے رہے جس میں مسلسل 23 اوورز کا ایک اسپیل بھی شامل تھا اور تھکے ماندے کھلاڑی کو شام کے وقت کھیلنے کے بھیجنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ محض 6 رنز بنانے کے بعد اعزاز چیمہ کا شکار بن گئے۔ اس کے علاوہ محمود اللہ جیسے سینئر کھلاڑی نے آؤٹ ہونے کے لیے جس گیند کا انتخاب کیا، وہ اگر سیدھا وکٹ کیپر کے دستانوں میں جاتی تو بہتر تھا، لیکن انہوں نے ایک باہر جاتی ہوئی گیند کو میدان بدر کرنے کی ٹھانی اور نتیجتاً کیچ تھما کر پویلین سدھار گئے۔

صرف 22 رنز پر بنگلہ دیش کی آخری 5 وکٹیں گرانے میں اہم کردار ادا کرنے والے اننگز کے ہیرو عبد الرحمن نے سب سے زیادہ یعنی 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ عمر گل، اعزاز چیمہ اور سعید اجمل کو 2، 2 وکٹیں ملیں۔

پاکستان کو فتح کے لیے 103 رنز کا ہدف ملا جبکہ دن میں ابھی 30 اوورز سے زائد کا کھیل باقی تھا لیکن شدید دھند اور کم ہوتی ہوئی روشنی کے باعث پاکستان کے وقت محدود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا ہی سے بلے بازوں نے جارحانہ رویہ اپنایا۔ گو کہ گزشتہ اننگز کے سنچورین توفیق عمر کی وکٹ جلد گر گئی لیکن محمد حفیظ اور اظہر علی نے برق رفتاری سے اسکور کو آگے بڑھایا اور توفیق کے جانے کے بعد محض 9 اوورز میں اسکور میں 63 رنز کا اضافہ کیا۔ محمد حفیظ بدقسمتی سے اپنی نصف سنچری مکمل نہ کر پائے اور 52 گیندوں پر 5 چوکوں کی مدد سے 47 رنز بنا کر شکیب الحسن کا شکار بن گئے۔ جب پاکستان فتح سے محض 2 قدم کے فاصلے پر تھا تو اظہر علی بھی الیاس سنی کی گیند پر بولڈ ہو گئے بعد ازاں کپتان مصباح الحق نے آتے ہی فاتحانہ چھکا رسید کر کے میچ کا شاندار اختتام کیا۔ پاکستان نے 103 رنز کا ہدف 21 ویں اوور میں پورا کر لیا اور سال کا اختتام ایک اور سیریز فتح کے ساتھ کیا۔

عبد الرحمن نے 51 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کر کے کیریئر کی بہترین کارکردگی دکھائی (تصویر: AFP)
عبد الرحمن نے 51 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کر کے کیریئر کی بہترین کارکردگی دکھائی (تصویر: AFP)

قبل ازیں میچ کے پہلے روز پاکستان نے دھند زدہ اور ابر آلود صورتحال میں ٹاس جیت کر بنگلہ دیش کو پہلے بیٹنگ کرنے کی دعوت دی اور پاکستان کے تیز گیند بازوں نے محض 43 پر اس کی ابتدائی چار وکٹیں ٹھکانے لگا کر کپتان کے فیصلے کو درست ثابت کر دکھایا۔ اس موقع پر میزبان ٹیم کے شہریار نفیس اور شکیب الحسن پاکستانی گیند بازی کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے پانچویں وکٹ پر 180 اہم رنز جوڑے۔ شکیب نے اپنے کیریئر کی دوسری سنچری 159 گیندوں پر 14 چوکوں کی مدد سے بنائی لیکن بدقسمتی سے دوسرے اینڈ پر کھڑے شہریار نفیس تہرے ہندسے میں داخل نہ ہو سکے۔ وہ 97 رنز بنانے کے بعد عمر گل کی ایک خوبصورت گیند پر وکٹوں کے پیچھے جکڑے گئے۔ انہوں نے 177 گیندوں کا سامنا کیا اور 12 مرتبہ گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھائی۔ آنے والے کھلاڑیوں میں مشفق الرحیم نے شکیب کا اچھا ساتھ دیا اور دونوں نے چھٹی وکٹ پر مزید 82 رنز جوڑے اور سیریز میں پہلی بار بنگلہ دیش کو 300 کا ہندسہ عبور کروایا لیکن 144 رنز کے انفرادی اسکور پر شکیب کے لوٹتے ہی اننگز لڑکھڑا گئی اور 338 تک تمام کھلاڑی آؤٹ پویلین لوٹ چکے تھے۔

338 رنز کے جواب میں پاکستان کی جانب سے محمد حفیظ کے علاوہ تمام ہی بلے بازوں نے اپنی مہارت دکھائی۔ توفیق عمر نے ایک اور سنچری جڑ کر 2011ء کو کیریئر کا یادگار ترین سال بنایا جبکہ اظہر علی نے 57، یونس خان نے 49، مصباح الحق نے 70، اسد شفیق نے 42، عدنان اکمل نے 53 اور عبد الرحمن نے قیمتی 24 رنز بنائے۔ انہی کی بدولت پاکستان بنگلہ دیش کے پہلی اننگز کے اسکور پر 132 رنز کی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور اس اضافی برتری کا سہرا بلاشبہ عدنان اکمل کے سر جاتا ہے جنہوں نے آخری لمحات میں کیریئر کی پہلی نصف سنچری داغ کر پاکستان کو ایک بہت اچھے مجموعے یعنی 470 تک پہنچایا۔ تاہم اب وقت بہت کم بچا تھا۔ پاکستان کی دوسری اننگز کا اختتام چوتھے روز چائے کے وقفے سے کچھ دیر قبل ہوا لیکن پاکستان نے وقفے سے قبل کے پانچ اوورز میں ہی عمر گل کی بدولت دو قیمتی وکٹیں حاصل کر لیں اور بعد ازاں حریف ٹیم کو زبردست مشکلات میں ڈال دیا جس کا احوال اوپر بنگلہ دیش کی دوسری اننگز کے ذکر میں ہے۔

پاکستان کے یونس خان کو ڈبل سنچری سمیت سیریز میں سب سے زیادہ بنانے پر سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ میچ میں عمدہ کارکردگی پر بنگلہ دیش کے شکیب الحسن کو میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا۔

سیریز میں فتح سے محروم رہنے اور ملی جلی کارکردگی پیش کرنے کے باوجود بنگلہ دیش کے لیے کچھ مثبت پہلو بھی رہے خصوصاً ناصر حسین کی صورت میں ایک اچھے کھلاڑی کی دریافت مستقبل میں بنگلہ دیش کے مستقبل کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ وہ بنگلہ کرکٹ کے لیے ایک حقیقی اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ شکیب الحسن کی عمدہ فارم بھی آئندہ بنگلہ دیش کے لیے اہم ثابت ہوگی۔

(اسکور کارڈ کچھ دیر میں ملاحظہ کریں)