سال 2011ء : پاکستان کرکٹ کی ہنگامہ خیز ترین شخصیات

1 1,049

2011ء کرکٹ کی تاریخ کے ہنگامہ خیز ترین سالوں میں سے ایک رہا۔ اس سال کرکٹ کی تاریخ کے بدترین تنازع 'اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل' کے منطقی انجام نے دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا اور بدقسمتی سے سال کے بیشتر بڑے تنازعات میں ماضی کی طرح پاکستانی کھلاڑی ہی ملوث رہے۔ چاہے معاملہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ملوث سابق کپتان سلمان بٹ اور تیز گیند بازوں محمد آصف اور محمد عامر پر پابندیوں اور بعد ازاں قید کی سزائیں ملنے کا ہو یا شعیب اختر کی آپ بیتی کا دنیائے کرکٹ میں نیا ہنگامہ برپا کرنے کا، ہر طرح سے پاکستانی کھلاڑی اور عہدیدار اس حقیقت کو ٹھوس بنیاد دیتے رہے کہ پاکستان کرکٹ اور تنازعات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

گزشتہ سال یعنی 2010ء میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد تاریخ کے بدترین بحران سے گزرنے والی پاکستان کرکٹ میں رواں سال کئی شخصیات ایسی رہیں جنہوں نے عالمی و ملکی سطح پر بڑے تنازعات جنم دیے۔ ان میں جارح مزاج بلے باز اور سابق کپتان شاہد آفریدی، سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ اعجاز بٹ، سابق تیز گیند باز شعیب اختر اور اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے مرکزی کردار سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر قابل ذکر ہیں۔

شاہد آفریدی

تنازعات کی دلدل میں 'اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے' کے مصداق سال بھر کسی نہ کسی تنازع میں پڑے ہی رہے۔ حتیٰ کہ درمیان میں معاملہ اس حد تک گمبھیر ہو گیا کہ انہوں نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان تک کر دیا۔ لیکن شو مئی قسمت بورڈ اور ٹیم انتظامیہ کی رخصتی کے بعد اُنہیں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا اور جس میں اپنی کارکردگی کے ذریعے انہوں نے ناقدین کے منہ بند کر دیے۔ شاہد آفریدی، جن کے بلے کے ساتھ ساتھ اب زبان بھی بہت زیادہ پھسلنے لگی ہے، سال میں متعدد بار مسائل سے دوچار ہوئے۔ پہلا ہنگامہ دورۂ نیوزی لینڈ میں کھڑا ہوا جس کے دوران پاکستان کرکٹ بورڈ نے عالمی کپ 2011ء کے لیے ٹیم کا اعلان تو کر دیا لیکن اس اہم ٹورنامنٹ میں ٹیم کے قائد کے معاملے کو لٹکا دیا۔ بورڈ کے اس عاقبت نا اندیشانہ فیصلے نے پاکستان کرکٹ میں ایک بہت بڑی بحث کو جنم دے دیا۔ عوامی سطح پر اور چند سابق کرکٹرز کی نظر میں شاہد آفریدی عالمی کپ میں پاکستان کے لیے موزوں تھے جبکہ کچھ ماہرین ٹیسٹ کپتان مصباح الحق کو قیادت سونپنے کے حق میں دکھائی دیتے تھے۔ تاہم نیوزی لینڈ کے خلاف ایک روزہ سیریز میں فتح کے بعد ان کے مخالفین کے بعد اس حقیقت کو قبول کرنے کے علاوہ اور کوئی امکان نہ بچا کہ قیادت کے لیے سب سے موزوں امیدوار شاہد آفریدی ہی ہیں اور بعد ازاں انہیں سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان کی قیادت بخشی گئی۔

لیکن یہ معاملہ شاہد آفریدی اور ٹیم وبورڈ انتظامیہ کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو ظاہر کرنے کے لیے کافی تھا۔ عالمی کپ میں عمدہ کارکردگی اور سیمی فائنل میں فتوحات کا سفر ختم ہونے کے بعد پاکستانی ٹیم وطن واپس آئی تو اُن کا زبردست استقبال کیا گیا۔ پاکستان نے عالمی کپ کے بعد ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنا تھا جہاں ٹیسٹ کی قیادت بدستور مصباح الحق نے کی اور محدود اوورز کے دستے کی قیادت شاہد آفریدی کی سپرد رہی۔ پاکستان نے ایک روزہ سیریز کے ابتدائی تینوں مقابلے جیت کر فتح حاصل کر لی لیکن چوتھے مقابلے میں بارش نے اور پانچویں میں پاکستان کی ناقص کارکردگی نے ویسٹ انڈیز کو فائٹ بیک کا موقع دیا اور پاکستان سیریز 3-2 کے مارجن ہی سے جیت پایا۔ لیکن ہنگامہ ابھی باقی تھا، شاہد آفریدی سیریز کے بعد وطن واپس لوٹے اور آتے ہی ہوائی اڈے پر کوچ وقار یونس اور ٹیم انتظامیہ پر پھٹ پڑے۔ بورڈ نے 'کچے دھاگے میں بندھے اس رشتے' کو توڑتے ہوئے زبردست جوابی کارروائی کی اور بعد ازاں ٹیم مینیجر کی رپورٹ کو بنیاد بناتے ہوئے شاہد آفریدی کو قیادت سے ہٹا دیا گیا جس پر انہوں نے احتجاجاً کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ بورڈ نے بازی میں اپنا اگلا پتہ پھینکا اور شاہد کا مرکزی معاہدہ (سینٹرل کانٹریکٹ) اور کرکٹ کھیلنے کا اجازت نامہ (این او سی) دونوں منسوخ کر دیے۔ یعنی اب وہ کسی بھی سطح پر کرکٹ کھیلنے کے اہل نہیں رہے۔ اس ہنگامے کے دوران پی سی بی کے اُس وقت کے چیئرمین اعجاز بٹ اور کوچ وقار یونس کی جانب سے شاہد کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے گئے اور جواب میں شاہد نے بھی انتظامیہ کے خلاف گرما گرم بیانات دیے۔ اس ہنگامہ خیزی میں سیاسی رہنما بھی کود پڑے جنہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بالآخر شاہد کو کرکٹ کھیلنے کا اجازت نامہ تو دلوا دیا لیکن شاہد آفریدی اُس وقت تک دوبارہ ٹیم میں واپس نہیں آ پائے جب تک کہ وقار یونس نے اپنے صحت کے مسائل کے باعث کوچ کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا اور اعجاز بٹ کو عہدے کی میعاد مکمل ہونے کے بعد باہر کا راستہ نہیں دکھایا گیا۔

شاہد آفریدی کرکٹ ٹیم میں واپسی کے بعد بہت عمدہ فارم میں نظر آئے اور انہوں نے پہلے سری لنکا اور بعد ازاں بنگلہ دیش کے خلاف ایک روزہ و ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شاندار کارکردگی دکھائی اور ٹیم کی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اس تسلسل کو انگلستان کے خلاف بھی جاری رکھ پائیں گے؟ جو اگلے ماہ متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں پاکستان کے مدمقابل ہوگا۔

اعجاز بٹ

سال کی دوسری سب سے بڑی متنازع شخصیت بلاشبہ اعجاز بٹ کی تھی، جن کے بطور چیئرمین دور میں پاکستان کرکٹ نے اپنے بدترین ایام گزارے۔ پاکستان بین الاقوامی کرکٹ سے محروم ہوا، ٹیم مسلسل بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی، من پسند کھلاڑیوں کو جن کی ٹیم میں جگہ بھی بمشکل بنتی تھی قیادت سونپی جاتی رہی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بورڈ کی نا اہلی کی وجہ سے پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے تنازع اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ملوث ہوا اور بورڈ نے اپنے کھلاڑیوں کو بچانے کے لیے رتّی برابر بھی کوشش نہیں اور تینوں کھلاڑی پہلے بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی 5،5 سال کی پابندیوں اور بعد ازاں برطانیہ کی عدالت کی جانب سے قید کی سزاؤں کا نشانہ بنے۔ اعجاز بٹ کے دور میں 'تقسیم کرو اور حکومت کرو' کی پالیسی بھی اپنے عروج پر دکھائی دی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ پاکستان کرکٹ کو آگے بڑھتے دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ کامیابیوں کے سفر پر گامزن ہونے کی خواہشمند ٹیم کی راہ میں روڑے اٹکانا اعجاز بٹ اور ان کے چیلوں کا شیوہ رہا اور بالآخر اکتوبر میں ان کے عہدے کی توسیع شدہ میعاد بھی مکمل ہونے پر ہی پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے اس سیاہ ترین دور کا اختتام ہوا۔

لیکن اعجاز بٹ اپنے تین سالہ سیاہ دور میں پاکستان کرکٹ کو جتنے گھاؤ لگا چکے ہیں، ان کو مندمل ہونے میں بھی سالوں کا عرصہ لگے گا اور وہ بھی اس صورت میں کہ آنے والی بورڈ قیادت اہل اور پاکستان کرکٹ کے مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی خواہاں ہو۔

شعیب اختر


سال کی تیسری متنازع ترین شخصیت شعیب اختر کی رہی جنہوں نے کرکٹ کی تاریخ میں اپنے ہنگامہ خیز دور کے اختتام کے بعد اپنی آپ بیتی 'Controversially Yours' کے ذریعے اک نئی بحث کو جنم دے دیا۔ بال ٹمپرنگ کے اقرار، پاکستان کرکٹ کے کرتا دھرتا حلقوں کے کارناموں، حریف کھلاڑیوں خصوصاً سچن ٹنڈولکر کے حوالے سے دعووؤں، سابق کپتان وسیم اکرم، سابق چیئرمین بورڈ نسیم اشرف غنی اور سابق کپتان شعیب ملک کے خلاف بیانات اور دیگر کئی متنازع معاملات کی حامل اِس کتاب نے پاکستان اور بھارت میں فروخت کے ریکارڈ قائم کیے۔

کیریئر کے دوران متنازع باؤلنگ ایکشن، منشیات اور غیر قانونی دواؤں کے استعمال اور نظم و ضبط کے مسائل سے دوچار رہنے والے شعیب اختر کی کتاب نے بلاشبہ دنیائے کرکٹ میں ایک نئی ہلچل اور نیا طوفان برپا کیا جس نے کئی ماہ تک دنیائے کرکٹ خصوصاً پاکستان و ہندوستان کے حلقوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔

اسپاٹ فکسنگ مثلث: سلمان، آصف، عامر

سال کی بقیہ تین شخصیات ایک معاملے میں ملوث رہی یعنی کہ کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے تنازع'اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل' میں۔ پاکستان کے سابق کپتان سلمان بٹ اور تیز گیند باز محمد آصف اور محمد عامر۔ گزشتہ سال اگست میں لارڈز ٹیسٹ کے دوران جان بوجھ کو 'نو بالز' پھینکنے کا معاملہ دونوں گیند بازوں اور سابق کپتان کے گلے میں پڑ گیا اور برطانیہ مصالحہ اخبار 'نیوز آف دی ورلڈ' نے کرکٹ کی تاریخ کے سب سے بڑے تنازع کو طشت از بام کیا۔ بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے پہلے تینوں کھلاڑیوں پر عارضی اور بعد ازاں ایک خصوصی کمیشن کے تحت سماعت کے بعد کم از کم 5، 5 سال کی پابندیاں عائد کر دیں۔

بعد ازاں برطانیہ کی عدالت نے دھوکہ دہی و بد عنوانی کے مقدمے میں محمد عامر کو 6 ماہ، محمد آصف کو ایک سال اور سلمان بٹ کو ڈھائی سال کی قید کی سزائیں سنانے کا اعلان کیا۔ یہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی کھلاڑی پر فوجداری قانون کے تحت مقدمہ چلا کر اسے قید کی سزائیں دی گئی ہوں اور بلاشبہ یہ دنیا بھر کے اور خصوصاً پاکستان کے کھلاڑیوں کے لیے بہت بڑا سبق تھا۔ یہ تینوں کھلاڑی اس وقت برطانیہ میں اپنی قید کی سزائیں بھگت رہے ہیں اور کم از کم نصف سزا کاٹے بغیر ان کی رہائی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ان تینوں کھلاڑیوں کا فوجداری مقدمات میں سزا پانا پاکستانی کرکٹ کے لیے سیاہ ترین دن تھا۔

اعجاز بٹ کی رخصتی، وقار یونس کا استعفیٰ اور اسپاٹ فکسنگ مقدمے میں تینوں کھلاڑیوں کے سزائیں پانے کا عمل پاکستان کرکٹ کے لیے نیک شگون ثابت ہوا اور پاکستان نے سال کی مشکل ترین سیریز میں سری لنکا کو پہلے ٹیسٹ اور پھر ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی زیر کیا اور ٹیسٹ و ایک روزہ دونوں کی عالمی درجہ بندی میں ترقی پائی ہے۔ امکان ہے کہ پاکستان فتوحات کے اس تسلسل کو برقرار رکھے گا اور عالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف مشکل ترین سیریز میں عمدہ کارکردگی دکھائے گا۔

(یہ اقتباس شعیب اختر کی سوانحِ عمری 'کنٹروورشلی یورز' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دیگر ترجمہ شدہ اقتباسات یہاں سے پڑھے جا سکتے ہیں۔)