اور میں نے بال ٹمپرنگ کی

3 1,113

مجھے یاد ہے کہ دمبولا میں موسم بہت گرم اور نمی سے بھرپور تھا اور برصغیر کی پچوں کی روایات کے عین مطابق یہاں بھی ایک انتہائی سست پچ تھی۔ ہم نیوزی لینڈ کے خلاف کھیل رہے تھے اور ہمیں وکٹوں کی ضرورت تھی۔ انتہائی مایوسی کے بعد میں نے گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔ جی ہاں، جاننے کے خواہشمند افراد کے لیے، کہ میں نے میچ کے دوران گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ (بال ٹمپرنگ) کی۔ اور ہاں، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ قاعدے قانون کے خلاف ہے اور کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس پر فخر کیا جائے – اس لیے میں معذرت خواہ ہوں۔ دمبولا ہی ایک مثال تھا۔ مجھے ایک میچ کے لیے معطل کر دیا گیا اور میچ فیس کا 75 فیصد جرمانہ عائد کیا گیا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ بڑا ہنگامہ برپا کر دے گا لیکن، میں اس بارے میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔

تقریباً تمام ہی پاکستانی باؤلرز گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر چکے ہیں۔ البتہ ہو سکتا ہے کہ میں اس کا اعتراف کرنے والا پہلا فرد ہوں، لیکن کرتا ہر کوئی ہے۔ میں نام نہیں لوں گا، لیکن ایک پاکستانی کرکٹر نے امپائر کی جیب سے گیند نکال کر اُس کی جگہ ایسی گیند رکھ دی جو دیوانہ وار سوئنگ ہوئی! امپائر عموماً گیند اپنے کوٹ کی جیب میں رکھتے تھے اور کھانے کے وقفے کے دوران اُسے لٹکادیتے تھے۔ یہ کارروائی ممکنہ طور پر وہیں ہوئی تھی۔ اس واقعے کے بعد امپائرز اپنے کوٹ مقفل کمرے میں رکھنے لگے۔ اگر ایمانداری سے کہوں تو دنیا کی ہر ٹیم گیند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی ہے۔ ممکنہ طور پر شروعات ہم نے کی، لیکن آج کوئی ٹیم دودھ کی دھلی نہیں ہے۔ کوئی ٹیم معصوم نہیں ہے، اور تقریباً ہر تیز باؤلر یہ حرکتیں کرتا ہے۔ سست وکٹوں پر بچاؤ کا واحد راستہ یہی ہے۔ سالوں تک باؤنسر پھینکنے کی اجازت نہ ہونے کے بعد 2001ء میں آئی سی سی نے اوور میں صرف ایک باؤنسر پھینکنے کی اجازت دی۔ پچیں مردہ اور سست ہوتی ہیں اور انہیں بیٹنگ کے لحاظ ہی سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ باؤلرز ہوتے ہیں جنہیں جھکایا جاتا ہے۔ یہ بلے بازوں کو میچ پریکٹس کرانے جیسا معاملہ ہے: ہماری گیندوں کو میدان کے چاروں طرف اٹھا اٹھا کر پھینکا جاتا ہے۔

ادھر پاکستان میں، باؤلرز کے پاس بہت کم آپشنز ہوتے ہیں سوائے اس کے کہ 'گیند کا خیال رکھنا' کیسے سیکھا جائے۔ اگر، اتفاقاً، کوئی وکٹ ایسی بن جائے جو تیز باؤلرز کی مدد کرتی ہو، تو سب احتجاج کرتے ہیں۔ جب ایسی پچیں آتی ہیں تب آپ کو بیٹنگ کا فن نہیں آتا کیا؟ اس رونے دھونے اور بلے بازوں کی شکایتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تیار ہونے والی بیشتر پچیں انہی کے لیے بنائی جاتی ہیں، اور باؤلرزکے لیے مصیبت! ہم نے کبھی شکایت نہیں کی۔ کیا ہم نے بلے بازوں کے حق میں بنائی گئی پچوں پر اپنی بہترین کارکردگی نہیں دکھائی؟ یہی وجہ ہے کہ میں 1970ء کی دہائی میں کھیلنے والے بلے بازوں کو قدرت و منزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، جنہوں نے بغیر ڈھکی پچوں پر کھیلا۔

کرکٹ شائقین تیز گیند بازوں سے محبت کرتے ہیں، لیکن ان کے ہیروز کو اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرکے آزادی کے ساتھ کارکردگی پیش نہیں کرنے دیا جاتا۔ جب ایک بلے باز رنز بنا کر ریکارڈ قائم کرتا ہے، تو گیند باز کو وکٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ٹیم کو جیتنے کے لیے بھی وکٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے گیند بازوں کو اپنے معاملے کو سیدھا کرنے کے لیے گیند کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

گیند کے ساتھ کھیلنے کے بہت سارے طریقے ہوتے ہیں؛ معاملہ صرف اسے کھرچنے تک محدود نہیں۔ میں نے اپنے جوتوں کی کیلوں اور اپنی پچھلی جیب کی زپ کا استعمال کیا۔ کئی باؤلرز گیند پر ویزلین یا گم ملتے ہیں۔ آئی سی سی کے لیے اسے روکنے کا واحد طریقہ اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ کم از کم کچھ پچوں کو گیند بازوں کے لیے مددگار بنایا جائے۔ یہ اقدام کھیل کو کم یکطرفہ اور زیادہ متوازن بنائے گی۔ کھیل، خصوصاً اِس وقت، بہت زیادہ غیر متوازن ہو چکا ہے اور صرف بلے بازوں کی مدد کر رہا ہے – اگر آپ نے نو بال کی، تو بلے باز کو ایک فری ہٹ ملتی ہے؛ باؤنسر کو مختصر کر دیا گیا ہے؛ اور باؤلر بیچارہ تو گیند اٹھانے سے قبل اپنے بالوں کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ انہوں نے ہمیں انتہائی بے رحمانہ انداز سے محدود کیا ہے حتیٰ کہ میرے لیے بال ٹمپرنگ کے ضمن میں خود کو مجرم سمجھنا اور محسوس کرنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ ہم بال ٹمپرنگ کو ہونے سے نہیں روک سکتے، اس لیے اسے قانونی حیثیت دینا اور اس کے لیے قاعدے قوانین مرتب کرنا کوئی برا خیال نہیں ہوگا۔ آخر کار، گیند کا استعمال بھی ایک آرٹ تو ہے نا۔ آپ کو رفتار اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہر کوئی ایسا نہیں کر سکتا۔ شاید گیند کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ جیسا کہ اپنے ناخنوں سے کھرچنے کی قانونی طور پر اجازت دی جا سکتی ہے ۔۔ ویسے مجھے معلوم ہے کہ یہ سب کچھ کہنے پر میں کس قدر مردود ٹھیرایا جاؤں گا۔

(یہ اقتباس شعیب اختر کی سوانحِ عمری 'کنٹروورشلی یورز' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دیگر ترجمہ شدہ اقتباسات یہاں سے پڑھے جا سکتے ہیں۔)