مصباح الحق کی جانب سے دفاعی حکمت عملی کا دفاع

0 1,001

سال کے آغاز کے ساتھ ہی عالمی نمبر ایک انگلستان اور بہتری کی جانب گامزن پاکستان کی کڑی آزمائش کا آغاز ہونے جا رہا ہے اور پہلے ہی ماہ کے وسط میں دونوں ٹیمیں متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں مدمقابل ہوں گی جہاں تین ٹیسٹ، چار ایک روزہ اور تین ٹی ٹوئنٹی کھیلے جائیں گے۔ انگلستان بھارت اور جنوبی افریقہ میں تربیتی مراحل سے گزرنے کے بعد پہلے ہی متحدہ عرب امارات پہنچ چکا ہے اور اس وقت آئی سی سی کی کمبائن الیون کے خلاف ٹور میچ کھیل رہا ہے جبکہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا تربیتی کیمپ لاہور میں مکمل ہو چکا ہے جہاں خاص طور پر گیند بازوں اور فیلڈرز پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔ کیمپ کا سب سے مثبت پہلو نوجوان تیز گیند باز جنید خان کا اپنی فٹنس ثابت کرنا رہا تاہم معاملات کی مثبت سمت میں پیشقدمی کے باوجود یہ سیریز پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہوگی خصوصاً مصباح الحق کی زیر قیادت پاکستان کو مستقل دفاعی حکمت عملی کے انگلستان کے خلاف سیریز میں جاری رہنے کی پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔

فیلڈنگ میں کمزوریاں ہیں لیکن ٹیم کی مجموعی کارکردگی اچھی ہے: مصباح (تصویر:AFP)
فیلڈنگ میں کمزوریاں ہیں لیکن ٹیم کی مجموعی کارکردگی اچھی ہے: مصباح (تصویر:AFP)

لیکن پاکستان کے کپتان مصباح الحق قومی کرکٹ ٹیم کی دفاعی حکمت عملیوں کا دفاع کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ جارحانہ کھیل پیش کر کے شکست کھانے سے بہتر ہے کہ دفاع کرتے ہوئے میچ جیتا جائے۔ گزشتہ سال میں پاکستان کو 10 میں سے 6 ٹیسٹ مقابلوں میں فتوحات سے ہمکنار کرنے والے مصباح الحق کی دفاعی حکمت عملی کو مختلف حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کی اسی حد درجہ دفاعی حکمت عملی کی وجہ سے کئی مقابلوں میں قومی کرکٹ ٹیم نے فتح کی جانب پیشقدمی کو مقدم جانے بغیر محض ڈرا پر اکتفا کیا تھا۔

سیریز سے قبل قذافی اسٹیڈیم، لاہور میں چار روزہ کیمپ کے اختتام پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مصباح الحق نے کہا ہے کہ آجکل جس قسم کی کرکٹ کھیلی جا رہی ہے اسے متوازن انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں جارحانہ انداز اپنا کر میچ ہارنے سے بہتر ہے کہ دفاعی حکمت عملی اپنا کر مقابلہ جیتا جائے۔ یہ سب صورتحال پر منحصر ہے، کہ آپ کو کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا طریقہ بالکل سادہ ہے کہ جب آپ میدان میں جائیں تو 100 فیصد کارکردگی دکھائیں اور اپنی تمام تر توجہ اسی پر مرکوز رکھیں۔ اس امر کو بھول جائیں کہ حریف کون ہے، صرف وہ کریں جو آپ بہتر سمجھتے ہیں، اس کے لیے سخت محنت کریں اور پھر نتائج دیکھیں۔ جب آپ سب کچھ درست کریں گے تو آپ کو نتائج بھی اپنے حق میں ملیں گے۔

انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں اپنے تجربے کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہاں گیند بازوں کے لیے وکٹیں حاصل کرنا مشکل ہے، بالکل اسی طرح وکٹیں سست ہونے کی وجہ سے بلے بازی بھی دشوار ہے۔ یہ دونوں ٹیموں کے لیے یکساں طور پر مشکل دورہ ہوگا اور ہمیں کھیل کے ان دونوں شعبوں میں سخت محنت کرنا ہوگی۔ مصباح نے کہا کہ انگلستان ایک انتہائی زبردست ٹیم ہے اور ان کے خلاف رنز بنانے کے لیے ہمیں سخت جدوجہد کرنا ہوگی اور پھر گیند بازی میں بھی جان لڑانا پڑے گی۔

2011ء میں پاکستان نے کسی ٹیسٹ سیریز میں شکست نہیں کھائی جبکہ پورے سال میں اسے صرف ایک ٹیسٹ مقابلے میں ہار کا ذائقہ چکھنا پڑا۔ علاوہ ازیں ایک روزہ میں عالمی کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے علاوہ سال میں تمام ٹیموں سے زیادہ فتوحات بھی حاصل کیں۔ اس لیے شائقین کرکٹ کو انگلستان کے خلاف ایک بھرپور سیریز کی توقع ہے۔

امپائرز کے فیصلوں پر نظر ثانی کے نظام (ڈی آر ایس) کے بارے میں مصباح الحق نے کہا کہ میں ہمیشہ ڈی آر ایس کا حامی رہا ہے کیونکہ اس سے دونوں ٹیموں کو موقع ملتا ہے۔ امپائرز بھی انسان ہیں اور وہ کبھی کبھار غلطیاں کر سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بلے بازوں اور باؤلرز دونوں کے لیے موقع ہے کہ وہ امپائرز کی غلطیوں کی اصلاح کروا سکیں۔ میں ہمیشہ اس زبردست ایجاد کی حمایت میں رہا ہے۔ بلاشبہ اس میں بہتری کی گنجائش ہے لیکن پھر بھی میں میرا ماننا ہے کہ یہ ٹیموں کے لیے بہت مددگار ٹیکنالوجی ہے۔

ٹیم کی مستقل بہتر کارکردگی کے بارے میں قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان نے کہا کہ اگر آپ ٹیم کی موجودگی کارکردگی کو دیکھیں تو پاکستان ہر شعبے میں بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے۔ البتہ فیلڈنگ میں کمزوریاں موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی تمام کھلاڑی بہت محنت کر رہے ہیں۔ اعلی ٹیموں کے خلاف ہم کسی مخصوص شعبے پر انحصار نہیں کر سکتے ہیں اس لیے ہمیں باؤلنگ، بیٹنگ اور فیلڈنگ تینوں میں کارکردگی دکھانا ہوگی۔

قومی کرکٹ ٹیم 9 جنوری کو دبئی روانہ ہوگی جہاں 17 جنوری کو دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹیسٹ کھیلا جائے گا۔