قذافی اسٹیڈیم، لاہور

1 1,419

قذافی اسٹیڈیم، پاکستان میں کرکٹ کا سب سے بڑا میدان ہے جو پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں واقع ہے۔ مینارِ پاکستان ڈیزائن کرنے والے داغستانی نژاد ماہرِ تعمیرات نصر الدین مراد خان نے ہی قذافی اسٹیڈیم کا بھی ڈیزائن تیار کیا اور 1959ء میں اس کی تعمیر ہوئی۔ 1996ء کے کرکٹ ورلڈکپ کے موقع پر ماہرِ تعمیرات نیّر علی دادا نے اس میدان کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کی اور سرخ اینٹوں اور گنبدوں کے استعمال سے اسے مغلیہ طرز میں ڈھالا، ساتھ ہی سیمنٹ کے بجائے پلاسٹک کی کرسیاں لگائی گئیں۔ میدان 60 ہزار تماشائیوں کی گنجائش رکھتا ہے۔

قذافی اسٹیڈیم پہلے لاہور اسٹیڈیم کے نام سے جانا جاتا تھا، تاہم 1974ء کی یادگار تاریخی اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر لیبیا کے راہ نما کرنل معمر قذافی (مرحوم) کی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے حق میں کی جانے والی تقریر کے بعد اس میدان کا نام اُن سے منسوب کرکے قذافی اسٹیڈیم رکھ دیا گیا۔ تاہم 23 اگست 2011ء کو کرنل قذافی کی موت کے بعد یہ بازگشت سنائی دی گئی کہ اب اس میدان کا نام تبدیل ہوجانا چاہیے۔

قذافی اسٹیڈیم (تصویر: AFP)

قذافی اسٹیڈیم پاکستان کا پہلا کرکٹ میدان ہے جو اپنے اسٹینڈ بائے جنریٹرز سے چلنے والی جدید فلڈ لائٹس سے آراستہ ہے۔ مصنوعی روشنی میں یہاں کھیلا گیا پہلا میچ عالمی کپ 1996ء کا فائنل تھا جس میں سری لنکا اور آسٹریلیا مدمقابل تھے اور میدان سری لنکا نے مارا اور عالمی اعزاز اپنے نام کیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر دفاتر بھی قذافی اسٹیڈیم میں واقع ہیں۔ اس میدان کے دو کنارے پویلین اینڈ اور کالج اینڈ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

قذافی اسٹیڈیم پر پہلا کرکٹ ٹیسٹ مقابلہ 21 نومبر تا 26 نومبر 1959ء پاکستان اور آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہوا جس میں آسٹریلیا کو سات وکٹوں سے فتح یابی ہوئی جب کہ 13 جنوری 1978ء کو اس میدان پر کھیلے جانے والے پہلے ایک روزہ مقابلے میں پاکستان نے انگلستان کو 36 رنز سے شکست دی تھی۔ قذافی اسٹیڈیم نے 1990ء میں ہاکی ورلڈکپ کے فائنل مقابلے کی میزبانی بھی کی تھی جس میں میزبان پاکستان کو نیدرلینڈ کے ہاتھوں 3۔1 سے شکست ہوئی تھی۔

قذافی اسٹیڈیم دنیائے کرکٹ کے کئی یادگار لمحات کا شاہد ہے۔ جن میں سب سے 'ہائی پروفائل' مقابلہ بلاشبہ 1996ء کے عالمی کپ کا فائنل تھا۔ اس زمانے میں ہدف کا تعاقب کرنے میں کوئی سری لنکا کا ثانی نہیں تھا اس لیے اُس نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو بیٹنگ کی دعوت دی جس نے اسکور بورڈ پر 241 رنز کا مجموعہ اکٹھا کیا۔ کپتان مارک ٹیلر 74 اور رکی پونٹنگ 45 رنز کے ساتھ نمایاں ترین بلے باز رہے۔ جواب میں محض 23 رنز پر اپنے بہترین فارم کے حامل ابتدائی دونوں بلے بازوں کو کھونے کے بعد سری لنکا نے تجربہ کار اسانکا گروسنہا، ارونڈا ڈی سلوا اور کپتان ارجنا راناٹنگا کی شاندار بلے بازی کی بدولت ہدف 47 ویں اوور ہی میں حاصل کر لیا اور دنیائے کرکٹ کے سب سے بڑے اعزاز کا حقدار قرار پایا۔ یہ تاریخی مقابلہ قذافی اسٹیڈیم میں مصنوعی روشنیوں میں کھیلا گیا پہلا میچ تھا۔

قذافی اسٹیڈیم، لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا میچ یعنی عالمی کپ 1996ء کا فائنل۔ سری لنکا کے کپتان ارجنا راناٹنگا پاکستان کی اُس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے عالمی اعزاز حاصل کرتے ہوئے (تصویر: Getty Images)
قذافی اسٹیڈیم، لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا میچ یعنی عالمی کپ 1996ء کا فائنل۔ سری لنکا کے کپتان ارجنا راناٹنگا پاکستان کی اُس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے عالمی اعزاز حاصل کرتے ہوئے (تصویر: Getty Images)

یکم تا 6 دسمبر 1989ء کھیلے جانے والے ٹیسٹ مقابلے میں بھارت کے خلاف پاکستان کے پانچ کھلاڑیوں کے نقصان پر 699 رنز اس میدان پر بننے والا سب سے زیادہ مجموعہ ہے۔ جاوید میاں داد، شعیب محمد، عمران خان، عبد القادر، محمد اظہر الدین، سچن ٹنڈولکر، کپیل دیو، روی شاستری جیسے معروف کھلاڑیوں پر مشتمل دونوں ٹیموں کا یہ مقابلہ برابر رہا تھا۔ اس میچ میں بھارت کی جانب سے سنجے منجریکر نے 218 اور محمد اظہر الدین نے 77 رنز جب کہ پاکستان کی جانب سے عامر ملک نے 113، جاوید میاں داد نے 145 اور شعیب محمد نے ناقابلِ شکست رہتے ہوئے 203 رنز کی اننگز کھیلی۔ ان طویل اننگز کے باعث اس میچ میں دونوں ٹیموں کی پہلی اننگز بھی مکمل نہ ہوسکی اور بھارت کی پہلی اننگز (509 رنز) کے جواب میں پاکستان اپنی پہلی اننگز صرف پانچ کھلاڑیوں تک ہی کھیل سکا تھا کہ میچ ختم ہوگیا۔

اس میدان پر بننے والا دوسرا بڑا مجموعہ بھی پہلے ریکارڈ کی یاد دلاتا ہے۔ 13 تا 17 جنوری 2006ء کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں بھارت کے خلاف پاکستان نے پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے 679رنز کا پہاڑ جیسا مجموعہ کھڑا کردیا جس میں یونس خان کے 199، محمد یوسف کے 173، شاہد آفریدی کے 103 اور کامران اکمل کے 102 رنز شامل تھے۔ جواب میں بھارت کے اوپنر بلّے باز وریندر سہواگ نے 245 رنز بناڈالے جب کہ اُن کے ساتھی راہول ڈریوڈ نے ناقابلِ شکست رہتے ہوئے 128 رنز اسکور کیے۔ بھارت کا مجموعہ ایک وکٹ کے نقصان پر 403 رنز تھا کہ ٹیسٹ میچ کے پانچ دن پورے ہوگئے اور مقابلہ برابر رہا۔

اسے قذافی اسٹیڈیم پر پاکستان کی بہترین کارکردگی کا ثبوت کہا جاسکتا ہے کہ اس میدان پر بننے والا تیسرا بڑا مجموعہ بھی پاکستان ہی کا ہے جب یکم تا 3مئی2002ء میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو 643 رنز کا ہدف دیا جس میں عمران نذیر کے 127 اور انضمام الحق کے 329 رنز شامل تھے۔ جواب میں نیوزی لینڈ کے سارے کھلاڑی پوری اننگز میں صرف 73 رنز بناکر پویلین لوٹ گئے اور نیوزی لینڈ کو فالوآن کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اس میدان پر کسی بھی کرکٹ ٹیم کی جانب سے سب سے کم مجموعہ ہے۔ راول پنڈی ایکسپریس شعیب اختر نے 8.2 اوورز میں صرف 11 رنز کے عوض چھ وکٹیں لے کر نیوزی لینڈ کی ناؤ ڈبو دی تھی۔ یہ شعیب اختر کے کیریر کی سب سے بہترین گیند بازی تھی۔ دوسری اننگز میں شعیب اختر کا ساتھ نہ ہونے کے باوجود کیوی بلّے باز اپنی اننگز 246 رنز ہی تک کھینچ سکے۔ یوں اس میچ میں پاکستان کو ایک اننگز اور 324 رنز سے فتح حاصل ہوئی۔ یہ اس میدان پر ٹیسٹ مقابلوں میں حاصل ہونے والی سب سے بڑی فتح ہے۔

اس میدان پر سب سے بڑی فتح کا ذکر ہوا ہے تو کیوں نہ سرِ دست ایک اور بڑی فتح کا ذکر کیا جائے۔ 22 تا 27 مارچ 1982ء پاکستان اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ سری لنکا نے پہلی اننگز میں 240 رنزبنائے اور پاکستان کی جانب سے عمران خان نے گیند بازی کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے آٹھ وکٹیں لیں۔ ہدف کے تعاقب میں ظہیر عباس کے 134، محسن خان کے 129 اور ماجد خان کے 63 رنز کی بہ دولت پاکستان نے 7 کھلاڑیوں کے نقصان پر 500 رنز بناکر اننگز ڈکلیئر کردی۔ جواب میں سری لنکا صرف 158 رنز بناسکا اور عمران خان نے ایک بار پھر عمدہ گیند بازی کا جادو دکھاتے ہوئے 6 کھلاڑی جب کہ توصیف احمد نے بقیہ 4 کھلاڑیوں کی وکٹیں سمیٹیں۔ یوں سری لنکا کو ایک اننگز اور 102 رنز کی شکست کا سامنا کرنا پڑا جو اس میدان پر دوسری بڑی شکست ہے۔

ٹیسٹ مقابلوں کے بعد ایک روزہ مقابلوں کی طرف رُخ کیا جائے تو اس میدان پر سب سے زیادہ مجموعہ سری لنکا کے 357 رنز ہیں جو اُس نے 25جون 2008ء کو بنگلہ دیش کے خلاف بنائے تھے۔ جواب میں بنگلہ دیشی بلّے باز 226 رنز بناسکے اور اُنھیں 131 رنز سے شکست ہوئی۔ 24 جنوری 2009ء کو ایک میچ میں سری لنکا کے 309 رنز کے جواب میں پاکستان کی پوری ٹیم 22.5 اوورز میں صرف 75 رنز بناکر پویلین سدھار گئی تھی۔ یہ اس میدان پر بننے والا سب سے کم ترین اسکور ہے۔ 2 اکتوبر 1997ء کو بھارت کے 216 رنز کے تعاقب میں پاکستانی اوپنر بلّے باز اعجاز احمد نے ناقابلِ شکست رہتے ہوئے 84 گیندوں پر 139 رنز کی شان دار اننگز کھیلی جس میں 10 چوکے اور 9 چھکے شامل تھے۔ شاہد آفریدی نے اُن کا ساتھ دیتے ہوئے 47 رنز بنائے۔ یوں پاکستان نے یہ مقابلہ 9 وکٹوں سے جیت لیا۔ اعجاز احمد کا یہ اسکور مذکورہ اسٹیڈیم پر بننے والا سب سے زیادہ انفرادی مجموعہ ہے۔

قذافی اسٹیڈیم پر تاحال تین گیند بازوں کو ہیٹ ٹرک کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ پہلی ہیٹ ٹرک نیوزی لینڈ کے پیٹر پیٹرک نے 9 اکتوبر 1976ء کو پاکستان کے خلاف ایک روزہ میچ میں کی تھی، جب کہ پاکستان کے وسیم اکرم اور محمد سمیع نے سری لنکا کے خلاف ہیٹ ٹرک کی۔

2009ء میں قذافی اسٹیڈیم نے اپنی تعمیر کے 50 سال مکمل کیے لیکن اس سال ہونے والے ایک افسوس ناک واقعے کے باعث اسٹیڈیم کی گولڈن جوبلی کا حسن گہنا گیا۔ وہ 3 مارچ 2009ء کی صبح تھی۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کے کھیل کے لیے قذافی اسٹیڈیم جارہی تھی کہ دہشت گردوں نے کرکٹ ٹیم کے کاروان پر شدید حملہ کیا۔ کھلاڑیوں کے بس ڈرائیور مہر محمد خلیل نے پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو سبک رفتاری سے قذافی اسٹیڈیم منتقل کیا جہاں پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے اُنھیں محفوظ مقام پر منتقل کیا اور بعد ازاں فوری طور پر کھلاڑیوں کو اُن کے وطن سری لنکا واپس روانہ کردیا۔ اس حملے میں سری لنکا کے چند کھلاڑی معمولی زخمی ہوئے جب کہ پاکستانی پولیس کے چھ سپاہی شہید ہوئے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان میں عالمی کرکٹ مقابلوں کا باب ایک طویل عرصے کے لیے بند ہوگیا۔ سیکیورٹی خدشات کی جو بازگشت مختلف ممالک کی طرف سے سنائی دی جاتی تھی، دنیا نے اس کا عملی مظاہرہ یوں دیکھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہی نہیں، تمام پاکستانی شائقینِ کرکٹ گنگ ہوکر رہ گئے۔