شعیب اختر کی آئی پی ایل کہانی

0 1,029

آئی سی ایل ایک باغی لیگ تھی جسے آئی سی سی کی تائید حاصل نہ تھی اور ہمارے چیئرمین کھلاڑیوں کو اِس لیگ سے دور رہنے کی تاکید کر رہے تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آئی سی ایل میں کھیلنے کو ترجیح دینے والے کھلاڑی دوبارہ پاکستان کے لیے نہیں کھیل پائیں گے۔ میں ایسا ہر گز نہیں چاہتا تھا، اس لیے میرا جھکاؤ آئی پی ایل کی طرف ہو گیا۔

کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے مالک بھارتی اداکار شاہ رخ خان نے اپنی ٹیم کی جانب سے کھیلنے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا۔ میں مذاکرات کے لیے ایک مرتبہ پھر بھارت گیا اور مجھے بات چیت کے لیے شاہ رخ کے گھر پر مدعو کیا گیا۔ ملاقات کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ مجھے ٹیم میں شامل کرنے کے خواہشمند شاہ رخ نہیں بلکہ سارو گنگولی ہے۔ شاہ رخ میرے حوالے سے پراعتماد نہیں تھا، جبکہ گنگولی جانتا تھا کہ میں کس پائے کا باؤلر ہوں۔ بعد ازاں میں للت مودی سے ملا، جس نے آئی پی ایل میں شمولیت کے لیے میرا اچھا خاصا دماغ کھایا؛ اس نے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ لیکن جب نیلامی ہوئی، تو مجھے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ نیلامی کی بنیاد صلاحیتوں پر ہونی چاہیے تھی، اور مجھے ایسا لگا، بلکہ میرا یہ اندازہ درست بھی تھا، کہ جیسے میں نوجوان کھلاڑیوں کے کسی گروہ کا حصہ ہوں، جس سے نیلامی میں ایسا سلوک کیا گیا۔

شاہ رخ خان، مالک کولکتہ نائٹ رائیڈرز (تصویر: AFP)

دوسری جانب آئی سی ایل مجھے اس سے کہیں زیادہ رقم کی پیشکش کر رہی تھی۔ سبھاش چندر اور ہمانشو مودی، جو آئی سی ایل اجلاسوں کا حصہ رہتے تھے، نے مجھ سے رابطہ کیا، میری شرائط طلب کیں اور کہا کہ وہ دلی طور پر خواہشمند ہیں کہ میں آئی سی ایل میں شمولیت اختیار کروں۔ میں حقیقت پسند رہنا چاہتا تھا اور اِس انتخاب اور اس کے نتیجے میں مستقبل پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں اپنے ملک کے لیے کھیلنے سے بھی محروم ہو سکتا ہوں، اس لیے میں نے آئی سی ایل سے پوچھا کہ وہ اِس قدم کو اٹھانے پر مجھے کتنا زر تلافی ادا کر سکتے ہیں، اور وہ مجھے میری خواہش کے مطابق سب کچھ دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ ٹونی گریگ اُن کے مرکزی آدمی تھے اور معین خان وہاں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ لیکن میں اپنے ملک کی دوبارہ کبھی نمائندگی نہ کر پانے کا سوچ کر مطمئن نہيں تھا، اس لیے بالآخر آئی پی ایل کے حق میں فیصلہ کیا۔

شاہ رخ اور میرے درمیان گفتگو ہوئی کیونکہ جتنے پیسوں پر معاملہ طے پایا تھا میں اُس سے خوش و مطمئن نہیں تھا۔ میں نے اسے کہا کہ بات صرف پیسے کی نہیں، بلکہ دوسرے کی اہمیت و صلاحیت کو تسلیم کرنے کی ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ دیکھو، مجھ سے تم بہت پیسہ بناؤ گے، تو میرا بھی حق ہے کہ میں اچھی رقم حاصل کروں، یا پھر مجھے جانے دو۔ اُس نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی، اور کہا، دیکھو یہ ہماری نیلامی میں حصہ لینے کا پہلا موقع تھا، حتیٰ کہ میں بھی نیلامی کے نتائج سے مطمئن نہیں ہوں، اس طرح شاہ رخ اور مودی نے مجھے رضامند کر لیا۔ مجھے یاد ہے کہ للت مودی نے مجھے کہا تھا کہ آئی سی ایل میں شامل مت ہو؛ ہم بالآخر تمہیں اور پیسے دیں گے۔ براہ مہربانی آئی پی ایل کے لیے کھیلو۔

مجھے بہلا پھسلا کرانہوں نے مجھے سے ہاں کروالی۔ للت مودی نے کہا کہ مجھے اپنے فیصلے پر افسوس نہیں کرنا چاہیے اور یقین دلایا کہ میں معاہدوں وغیرہ کے ذریعے مزید پیسہ کماؤں گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مجھے للت مودی اور شاہ رخ کی بات کبھی نہیں سننی چاہیے تھے۔ وہ تمام کھلاڑی جنہوں نے آئی سی ایل میں شمولیت اختیار کی بالآخر واپس آئے اور پاکستان کی جانب سے بھی کھیلے۔ ان کی پانچویں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں رہا۔

اب یہاں سے کہانی ڈرامائی انداز لیتی ہے۔ میں نے کم پیسوں پر اِس لیے رضامندی ظاہر کی تھی کیونکہ میں اپنے ملک کی جانب سے کھیلنا چاہتا تھا؛ لیکن ہوا یہ کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے مجھ پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی۔ میں نے اپنے کانٹریکٹ کی تجدید نہ ہونے، مردہ پچیں بنانے اور دیگر معاملات پر پی سی بی کے سامنے کھل کر اظہارِ ناپسندیدگی کیا تھا جس پر (نسیم) اشرف ناخوش اور برہم ہو گیا۔ پھر اُس نے مجھ پر کاری ضرب لگائی کہ اب مجھے کہيں بھی جانے اور کرکٹ کھیلنے کے لیے بورڈ کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑے گا۔ یہ ٹھیک نہیں تھا، میں نے کہا نہیں، میں ہر گز دستخط نہیں کروں گا۔ میرا اپنا ایجنٹ ہے۔ میں واپس ممبئی گیا اور کولکتہ نائٹ رائیڈرز کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔

(یہ اقتباس شعیب اختر کی سوانحِ عمری 'کنٹروورشلی یورز' سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے دیگر ترجمہ شدہ اقتباسات یہاں سے پڑھے جا سکتے ہیں۔)