بنگلہ دیش پریمیئر لیگ: شاہد آفریدی کا جرات مندانہ قدم لائقِ تقلید

7 1,069

شاہد آفریدی کے بنگلہ دیش پریمیئر لیگ میں حصہ نہ لینے کے فیصلے پر ہندوستان سے ہمارے لکھاری سلمان غنی کا تبصرہ

ایک ایسے وقت میں جب اسپاٹ فکسنگ سانحے نے پوری پاکستانی قوم کو دنیا کے سامنے شرمندہ ہونے پر مجبور کردیا تھا، پاکستانی کرکٹ ٹیم نے گزشتہ سال اپنے بہترین فارم کے ذریعہ نہ صرف ان ناقدین کی زبانیں گنگ کردیں جو مسلسل پاکستانی کرکٹ کے مستقبل پر سوال کھڑے رہے تھے بلکہ دنیا کو یہ باور بھی کرا دیا کہ ایسے سنگین اور پر فتن ماحول میں بھی ان کی ٹیم حوصلہ شکن نہیں ہوئی اور چند کھلاڑیوں کی بد اعمالیوں کا اثر پاکستانی کرکٹ پر قطعی نہیں پڑا۔ انگلستان کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں ملی حیرت انگیز کامیابی کے بعد تو یہ ثابت ہو گیا کہ پاکستانی کرکٹ میں ابھی بھی عمران خان اور وسیم اکرم کے زمانے والا دم خم موجود ہے۔ سال 2012ء کے اس شاندار آغاز نے پاکستانی کرکٹ شائقین کی امنگوں کو پھر سے جوان کر دیااور اسپاٹ فکسنگ کے زخم مندمل ہوتے نظر آنے لگے ہیں۔ لیکن پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ان شاندار کامیابیوں پر تن تنہا سبقت لے جاتے ہوئے سابق کپتان شاہد آفریدی نے بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ میں اپنی عدم شمولیت کا جو جواز پیش کیا ہے وہ نہ صرف قابل رشک بلکہ لائق تقلید بھی ہے۔ شاہد آفریدی نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ میری ترجیح ہمیشہ قومی ٹیم رہی ہے اور میں انگلستان کے خلاف اپنی عمدہ کارکردگی پیش کرنے کے لئے کوشاں ہوں اور میں اسی وقت بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ میں کھیلنے پر غور کر سکتا ہوں جب پاکستان کا کوئی مقابلہ طے نہ ہو۔

شاہد آفریدی کا یہ قدم نہ صرف لائق تحسین بلکہ لائق تقلید بھی ہے (تصویر: Reuters)
شاہد آفریدی کا یہ قدم نہ صرف لائق تحسین بلکہ لائق تقلید بھی ہے (تصویر: Reuters)

آفریدی گزشتہ دنوں بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ کے لیے منعقدہ نیلامی میں فروخت ہونے والے مہنگے ترین کھلاڑی رہے تھے۔ انہیں ڈھاکہ گلیڈیٹرز نے700,000 ڈالرز یعنی6کروڑ 30لاکھ پاکستانی روپے سے زائد رقم میں خریدا تھا۔ لیکن شاہد آفریدی کے لیگ میں نہ کھیلنے کے فیصلے نے دنیائے کرکٹ کو حیران کر دیا ہے۔ ایک ایسا ملک جو عرصہ ٔدراز سے اس قسم کے منافع بخش ٹورنامنٹس سے محروم رکھا گیا ہو اور جہاں چند کھلاڑی پیسوں کے لئے غیر قانونی ذرائع تک استعمال کرنے کے لئے آمادہ ہو جائیں، اسی سرزمین کے اس کھلاڑی نے چند ایک روزہ میچوں کی خاطر کروڑوں روپوں پر لات مار دی۔شاہد آفریدی کے اس جرات مندانہ اور بے غرض قدم نے دنیائے کرکٹ کے سامنے ایک مثال قائم کر دی ہے۔

انڈین پریمیئر لیگ اور پھر بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ کے آغاز کے بعد قومی کرکٹ کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ عالمی کپ کے عین بعدآئی پی ایل میں بھارتی کرکٹ ٹیم اور ویسٹ انڈیز کے سرکردہ کھلاڑیوں نے حصہ لے کر اپنی صلاحیتیں ضائع کیں۔ جس کا خمیازہ دونوں ٹیموں کی قومی کرکٹ کو بھگتنا پڑھا۔ ویسٹ انڈیز اپنے ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کے خلاف کوئی قابل دید کارنامہ انجام دینے میں کامیاب نہ ہوسکا اور بھارتی کرکٹ ٹیم کو انگلستان میں زبردست ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ اس بھیانک انجام پر سنجیدگی سے غور کرنے والوں کو اس امر کو قبول کرنا پڑا کہ آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹس قومی کرکٹ کے مستقبل کے لئے شدید خطرات کے ساتھ ساتھ نوجوان کھلاڑیوں میں پیسوں کی ہوس اور قومی مفاد کو قربان کر نے کا رجحان پیدا کر رہے ہیں۔جس کی سب سے تازہ اور عمدہ مثال طویل طرز کی کرکٹ میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی رسوائی ہے۔

قومی کرکٹ پر منڈلانے والے اس خطرے کے سد باب کی دو ہی صورتیں تھیں۔ یا تو متعلقہ بورڈ اپنی اپنی ٹیموں کے لئے سخت اصول و ضوابط مقرر کرتے جس پر عملدرآمد ہر کھلاڑی کے لئے لازم و ملزم قرار پاتا،یا خود کھلاڑیوں کے اندر اتنا شعور پیدا کر دیا جاتا کہ وہ خود ہی پیسوں کے آگے قومی مفاد کو قربان نہ کریں۔اول الذکر صورت اس لئے ناقبل عمل ہوگئی تھی کہ بورڈ خود ہی آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹس سے دولت جمع کرنے میں پیش پیش ہو گیا تھا، تاہم سرکردہ اور مایہ ناز کھلاڑیوں نے ہی پیسوں کے آگے جب قومی مفاد کو بالائے طاق رکھنا شروع کیا توآخر الذکر صورت بھی ناقابل عمل محسوس ہونے لگی۔

لیکن شاہد آفریدی نے جس حوصلہ مندی کے ساتھ بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ میں کھیلنے کی پیش کش ٹھکرائی ہے اس سے دنیا بھر میں کرکٹ کے چاہنے والوں میں پاکستان کی عزت افزائی ہوگی۔ ان کی پیش رفت کے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں دیگر کھلاڑی بھی شاہد آفریدی کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے قومی مفاد کو قربان نہیں کریں گے۔ خصوصاً بھارتی کرکٹ ٹیم کے ان کھلاڑیوں کو شاہد آفریدی کے اس فیصلے سے سبق لینے کی ضرورت ہے جنہوں نے آئی پی ایل سے اس قدر دولت سمیٹی کہ ان کے حواس باختہ ہو گئے ہیں اور اب ان کے پاس قومی کرکٹ کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں بچا۔