میچ فکسنگ کی تاریخ - خصوصی تحریر

4 1,190

میچ فکسنگ، گیم فکسنگ، ریس فکسنگ، اسپورٹس فکسنگ، اسپاٹ فکسنگ سے مراد کسی بھی کھیل کا ایسا مقابلہ ہے جس کے مکمل یا جزوی نتائج کھیل کے اُصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پہلے ہی سے طے کرلیے گئے ہوں۔ ایسے مقابلوں میں کسی ایک یا دونوں مخالف ٹیموں کے سارے یا چند کھلاڑی پہلے سے طے کیے گئے نتائج کے حصول کے لیے کھیلتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں کوئی ایک فریق کسی فائدے کے پیشِ نظر شکست کھاجاتا ہے اور غیر متوقع طور پر معمولی مجموعے کے ساتھ آؤٹ ہوجاتا ہے۔ ایسا کوئی بھی عمل کھیل کی روح کے خلاف تصور کیا جاتا ہے۔

میچ فکسنگ کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ مختلف کھیلوں کے مقابلے عرصہ دراز سے طے شدہ نتائج کے مطابق کھیلے جانے کا ثبوت ملتا ہے۔ قدیم زمانے کے اولپمکس مقابلوں پر بھی رشوت لینے کے الزامات عائد ہوتے رہے۔ 19ویں صدی میں باکسنگ اور بیس بال کے مقابلوں میں فکسنگ کے ثبوت ملے۔

فکسنگ کا سب سے بڑا تنازع جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے کو لے ڈوبا (تصویر: AFP)
فکسنگ کا سب سے بڑا تنازع جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے کو لے ڈوبا (تصویر: AFP)

کسی مقابلے کو فکس کرنے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں، مثلاً؛ کسی ایک فریق کے تمام یا چند کھلاڑیوں نے جواریوں سے بھاری رقوم یا دیگر منافع کے عوض معاہدہ ہونا، مقابلے کو سنسنی خیز بنانا، انفرادی کارکردگی دکھانا، غصے یا انتقام کا نتیجہ وغیرہ۔

اگر میچ فکسنگ کی تلاش میں کرکٹ کے تاریخی اوراق پلٹے جائیں تو اس سلسلے کی پہلی مثال تقریباً 2سو سال پہلے1817ء میں دو انگلستانی ٹیموں کے درمیان کھیلے جانے والےایک مقابلے کو قرار دیا جاتا ہے جو مشہورِ زمانہ میدان، لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر منعقد ہوا تھا۔ بعد ازاں جس ایک کھلاڑی کو اس معاملے میں ملوث پاکر اُس پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی تھی، اُس کا نام ولیم لیمبرٹ تھا جو 19ویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں 1801ء تا 1817ء فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتا رہا تھا۔ ولیم ایک بہترین آل راؤنڈر تھا جو سیدھے ہاتھ سے بلّے بازی کیا کرتا تھا۔ اُس نے زیادہ تر مقابلے ’سرے‘ کلب کی طرف سے کھیلے۔ وہ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا کھلاڑی تھا جس نے لاڈز گراؤنڈ پر ایک میچ میں دو سنچریاں بنائی تھیں۔ [حوالہ]

اس بھولے بسرے میچ فکسنگ واقعے کے علاوہ کرکٹ میں میچ فکسنگ کی مختصراً تاریخ یوں بیان کی جاسکتی ہے:
1۔ آسٹریلوی کھلاڑیوں مارک واہ اور شین وارن نے مبینہ طور پر ستمبر 1994ء میں سری لنکا میں جاری سنگر ورلڈ سیریز ٹورنامنٹ میں ایک بھارتی سٹے باز سے پچ اور موسم کی معلومات کے بدلے رقم حاصل کی۔ اس ٹورنامنٹ میں بھارت، سری لنکا، پاکستان اور آسٹریلیا شریک تھے۔ بعد ازاں دونوں کھلاڑی 1994-95ء میں اس وقت بھی سٹے باز سے رابطے میں رہے جب انگلستان نے پانچ ٹیسٹ میچز کھیلنے کے لیے آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا۔ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے اس معاملے کو پسِ پردہ رکھنے کی کوشش کی۔ شین وارن پر دس ہزار ڈالر اور مارک واہ پر آٹھ ہزار ڈالر جرمانہ عائد کرتے ہوئے اُنھیں تنبیہ دے کر چھوڑ دیا، لیکن 1998ء کے اواخر میں یہ واقعہ میڈیا کی زینت بن گیا اور خاصا ہنگامہ کھڑا ہوا۔

2۔ مئی 2000ء میں جسٹس قیوم کمیشن نے اپنی انکوائری میں سلیم ملک کو میچ فکسنگ کا مجرم قرار دیا اور یوں سلیم ملک جدید کرکٹ کے پہلے کھلاڑی ٹھیرے جن پر تاحیات پابندی عائد کی گئی۔ اُن پر الزام تھا کہ اُن کا سٹے بازوں سے رابطہ رہا ہے۔ شین وارن اور مارک واہ نے بھی کمیشن کو بیان دیا کہ 1994-95ء میں کراچی ٹیسٹ کے دوران بحیثیت پاکستانی کپتان سلیم ملک نے اُنھیں رقم کی پیشکش کی تھی اگر وہ ناقص کارکردگی دکھا کر پاکستان کے خلاف میچ ہار جائیں (جو کہ آسٹریلیا ایک وکٹ سے ہار بھی گیا تھا)۔ سلیم ملک نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ میں فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل کی تاہم اُسے مسترد کردیا گیا۔ سات سال انتظار کے بعد پاکستان سپریم کورٹ نے اُن پر عائد پابندی اُٹھالی۔

3۔ جسٹس قیوم کمیشن نے (جس کی تحقیقات ستمبر 1998ء سے اکتوبر 1999ء تک جاری رہیں) وسیم اکرم کے خلاف کافی ثبوت کی عدم موجودگی کے باعث اُن پر پابندی تو عائد نہیں کی لیکن شکوک و شبہات کی بِنا پر اُنھیں کبھی کپتانی نہ دینے کی سفارش کی۔ پاکستانی گیند باز عطاء الرحمان پر تاحیات پابندی اور مشتاق احمد کو کرکٹ ٹیم میں کوئی عہدہ یا ذمہ داری نہ دینے کی بھی سفارش کی گئی؛ جب کہ سلیم ملک پر دس لاکھ روپے، وسیم اکرم اور مشتاق احمد پر تین تین لاکھ روپے، عطاء الرحمان پر ایک لاکھ روپے اور عدم تعاون پر انضمام الحق، وقار یونس، سعید انور اور اکرم رضا پر ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔

4۔ مارچ 2000ء میں جنوبی افریقہ کی دورۂ بھارت میں میزبان ٹیم کے خلاف شاندار کام یابی کے بعد نئی دہلی کی پولیس نے ہنسی کرونیے پر سٹے بازوں کو معلومات فراہم کرنے کرنے کا الزام عائد کیا۔ جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ نے تحقیقات کے لیے ’’کنگ کمیشن‘‘ تشکیل دیا جس کے روبرو ہنسی کرونیے نے فکسنگ کے کئی اعتراف کیے جن میں جنوری 2000ء میں سنچورین میں انگلستان کے خلاف کھیلا گیا تاریخی ٹیسٹ بھی شامل تھا۔ کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی اور دو سال بعد وہ ایک فضائی حادثے میں انتقال کرگئے۔ [مزید معلومات کے لیے کرک نامہ پر خصوصی تحریر ’’سنچورین کا تاریخی و ’بدنام زمانہ‘ ٹیسٹ اور ہنسی کرونیے‘‘ ملاحظہ کریں]

5۔ ہنسی کرونیے نے انکوائری کے دوران سٹے بازی کے سیاہ پہلوؤں سے پردہ اُٹھایا۔ اُنھوں نے پاکستان کے سلیم ملک اور بھارت کے محمد اظہر الدین اور اجے جدیجا کا نام بھی لیا۔ بعد ازاں محمد اظہر الدین، اجے شرما، منوج پربھاکر اور اجے جدیجا کے خلاف الزامات ثابت ہوگئے۔ اظہر الدین اور اجے شرما کو تاحیات پابندی جب کہ اجے جدیجا کو پانچ سال کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ کرونیے نے اپنے ساتھی کھلاڑیوں ہرشل گبز اور ہنری ولیمز کا نام بھی لیا جن پر چھ، چھ ماہ کی پابندی عائد کی گئی۔

6۔ سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن، انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سٹے باز مکیش گپتا نے اعتراف کیا کہ وہ 1993ء میں انگلستان کے خلاف ایک روزہ ٹیسٹ سیریز کے دوران پچ کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک بھارتی امپائر سے رابطے میں رہا تھا۔

7۔ 2008ء میں ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی مارلن سیموئلز پر دو سال کی پابندی عائد کی گئی۔ سیموئلز نے 2007ء میں دورۂ بھارت میں ایک بھارتی سٹے باز کو کچھ معلومات فراہم کی تھیں۔

اسپاٹ فکسنگ تنازع میں سزا پانے والے تینوں پاکستانی کھلاڑی اور سٹے باز، جنہوں نے اپنے ساتھ تمام پاکستانیوں کے سر بھی شرم سے جھکا دیے
اسپاٹ فکسنگ تنازع میں سزا پانے والے تینوں پاکستانی کھلاڑی اور سٹے باز، جنہوں نے اپنے ساتھ تمام پاکستانیوں کے سر بھی شرم سے جھکا دیے

8۔ حال ہی میں عالمی کرکٹ اور خاص کر پاکستانی کرکٹ کا سب سے افسوس ناک واقعہ پیش آیا جب 2010ء میں پاکستان کے دورۂ انگلستان میں چوتھے ٹیسٹ میچ کے دوران ایک انگریزی اخبار ’’نیوز آف دی ورلڈ‘‘ نے پاکستانی کھلاڑیوں کی جانب سے اسپاٹ فکسنگ کا انکشاف کیا۔ اخبار کی خفیہ تحقیقات کے مطابق پاکستانی کپتان سلمان بٹ، گیند باز محمد آصف اور محمد عامر نے بُک میکر مظہر مجید سے بھاری رقوم کے بدلے اسپاٹ فکسنگ کی۔ محمد آصف اور محمد عامر نے پہلے سے طے شدہ ’نو بالز‘ کروائیں۔ ایک عرصے تک جاری ہنگامے اور سنسنی خیزی کے بعد نومبر2011ء میں برطانوی عدالت نے بدعنوانی اور دھوکا دہی کا الزام ثابت ہونے پر پاکستان کے سابق کپتان سلمان بٹ کو ڈھائی سال، محمد آصف کو ایک سال اور محمد عامر کو 6 ماہ قید کی سزا سنائی [حوالہ]۔ اس سے پہلے آئی سی سی تینوں کھلاڑیوں کے کرکٹ کھیلنے پر پانچ پانچ سال کی پابندی عائد کرچکی ہے [حوالہ

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے بڑے بڑے کھلاڑیوں کے اسکینڈلز سامنے آنے کے بعد 2000ء میں اینٹی کرپشن اینڈ سیکیورٹی یونٹ قائم کیا جس کا مقصد کرکٹ کے مقابلوں کو فکسنگ کی لعنت سے پاک رکھنا اور کسی بھی میچ پر شک کے مقابلے میں اُس کی تحقیقات کرنا ہے۔

آئی سی سی کے ضابطہ اخلاق کے مطابق اگر کوئی کھلاڑی میچ فکسنگ یا اس جیسی کسی اور سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو اُس پر 12 ماہ سے لے کر تاحیات پابندی اور لامحدود جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

علاوہ ازیں دنیا کے مختلف کرکٹ بورڈز فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کے حوالے سے قانون سازی کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ کرکٹ، جسے شرفاء کا کھیل کہا جاتا ہے، کو اس لعنت سے پاک کیا جاسکے۔