[یاد ماضی] کرکٹ کی تاریخ کے متنازع ترین امپائر ’ڈیرل ہیئر‘

4 1,063

کھلاڑیوں کے تنازعات سے تو کرکٹ کی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن تنازعات کی دنیا میں امپائرنگ کے شعبے سے جو واحد شخصیت ”در“ آئی وہ آسٹریلیا کے ڈیرل ہیئر کی تھی۔ آسٹریلوی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے ایک قصبے ”مجی“ میں پیدا ہونے والے ہیئر نے 1992ء سے 2008ء تک 78 ٹیسٹ میچوں میں جبکہ 1991ء سے 2006ء تک 135 ایک روزہ میچوں میں امپائرنگ کے فرائض انجام دیے۔ اس طویل کیریئر کے دوران انہوں نے گزشتہ دو دہائیوں کے امپائرنگ کے سب سے بڑے تنازعات میں مرکزی کردار ادا کیا، ایک مشہور سری لنکن گیند باز مرلی دھرن کے ایکشن کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے ان کی گیندوں کو نو بال قرار دینا اور دوسرا 2006ء میں پاک-انگلستان اوول ٹیسٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں پر گیند سے چھیڑ چھاڑ کا الزام لگانا، جس کے نتیجے میں پاکستان نے میچ کھیلنے سے انکار کر دیا اور انگلستان کو فاتح قرار دیا گیا۔

ڈیرل ہیئر آئی سی سی ایلیٹ امپائر پینل اور انٹرنیشنل پینل آف امپائرز کا بھی حصہ رہے اور اوول تنازع کے نتیجے میں ان کے مستقبل پر بڑا سوالیہ نشان لگ گیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی بورڈ میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ انہیں آئندہ ٹیسٹ امپائرنگ نہیں سونپی جائے گی۔ بعد ازاں انہیں گو کہ ایلیٹ پینل میں بحال کردیا گیا اور آخری بار 2008ء میں انگلستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے ٹیسٹ میچز میں امپائرنگ بھی کی لیکن ان کا کیریئر پھر پہلے کی طرح بحال نہ ہو سکا اور بالآخر ’بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘۔

89۔1988ء میں فرسٹ کلاس کرکٹ مقابلوں میں امپائرنگ کی شروعات کرنے کے بعد تین سالوں میں وہ ٹیسٹ میچوں کی امپائرنگ تک پہنچ گئے۔ ڈیرل ہیئر کا بحیثیت امپائر پہلا ٹیسٹ میچ جنوری 1992ء میں ایڈیلیڈ اوول میں ہونے والا آسٹریلیا-بھارت کا مقابلہ تھا جو آسٹریلیا نے جیتا۔ اپنے پہلے ہی میچ میں ہیئر نے بھارت کے 8 کھلاڑیوں کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار دے کر اور آسٹریلیا کے خلاف بھارت کی دو کے سوا تمام اپیلیں مسترد کرکے اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ ہیئر نے آسٹریلیا کے 44 ٹیسٹ اور 75 ایک روزہ میچوں میں امپائرنگ کی جو ایک ریکارڈ ہے؛ تاہم 2002ء میں آئی سی سی کے اس فیصلے کے بعد کہ مقابلوں میں غیر جانب دار امپائرز تعینات کیے جائیں گے اور دونوں حریف ممالک سے تعلق رکھنے والا کوئی امپائر نہیں ہوگا، ہیئر کو آسٹریلیاکے مقابلوں میں امپائرنگ کا موقع نہ مل سکا اور یوں آسٹریلیا ان کی ”لطف و عنایات“ سے محروم ہو گیا۔

90ء کی دہائی کا سب سے بڑا امپائرنگ تنازع ڈیرل ہیئر کا پیدا کردہ تھا، مرلی دھرن کے ایکشن کو متنازع قرار دیتے ہوئے ان کی گیندوں کو نو بال قرار دینا (تصویر: Getty Images)
90ء کی دہائی کا سب سے بڑا امپائرنگ تنازع ڈیرل ہیئر کا پیدا کردہ تھا، مرلی دھرن کے ایکشن کو متنازع قرار دیتے ہوئے ان کی گیندوں کو نو بال قرار دینا (تصویر: Getty Images)

ہیئر کا طویل کیریئر برصغیر کی کرکٹ ٹیموں کے خلاف سخت رویے اور تنازعات سے عبارت ہے۔ اس کی ایک واضح مثال 26تا 30دسمبر 1995ء ملبورن کے تاریخی میدان میں ہونے والا آسٹریلیا-سری لنکا دوسرا ٹیسٹ تھا۔ ڈیرل ہیئر نے معروف سری لنکن اسپنر متیاہ مرلی دھرن کے اندازِ گیند بازی پر اعتراض کرتے ہوئے تین اوورز میں اُن کی سات گیندیں ’نو بالز‘ قرار دیں۔ ہیئر کا کہنا تھا کہ مرلی دھرن کا ہاتھ کرکٹ قوانین کے مطابق نہیں گھومتا بلکہ وہ بٹّا گیند پھینکتے ہیں۔ تاہم سری لنکن کپتان ارجنا راناتنگا نےسمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے مرلی دھرن کو دوسرے کنارے پر موجود امپائر اسٹیوڈن کی طرف سے گیند تھمائی تو اُنہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تنازع بڑھا تو آئی سی سی نے بھی ڈیرل ہیئر کی طرف داری کرتے ہوئے بیان دیا کہ امپائرز کئی سال سے مرلی دھرن کے گیند پھینکنے کے انداز پر شکوک و شبہات کا اظہار کررہے تھے۔ بعدازاں مرلی دھرن کے انداز کی بایو مکینکل تحقیق سے ظاہر ہوا کہ اُن کی کہنی کے پیدائشی نقص کے باعث اُن کا ہاتھ اس طرح گھومتا ہے۔ ماہرین کے تجزیے کے بعد آئی سی سی نے تمام گیند بازوں کے لیے کہنی گھمانے کی حد بڑھا کر 15 ڈگری کردی۔

لیکن ڈیرل ہیئر کہاں خاموش بیٹھنے والے تھے؟ 1999ء میں مرلی دھرن کے باؤلنگ ایکشن کو اُنہوں نے ایک بار پھر غلط قرار دے کر آئی سی سی کو تنازع میں کھینچ لیا۔ اس تنازع کے باعث ہیئر کو قتل کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں، نیز آئی سی سی نے فیصلہ کیا کہ عالمی کپ 1999ء میں سری لنکا کے کسی میچ میں بھی ہیئر کو امپائرنگ کے فرائض نہیں سونپے جائیں گے۔گو کہ اس سارے تنازع میں سب سے زیادہ متاثر اور پریشان ہونے والے مرلی دھرن 2010ء میں اپنے ایک انٹرویو میں ڈیرل ہیئر کو معاف کرنے کا اظہار کرچکے ہیں[حوالہ]، لیکن 2011ء میں ہیئر نے ایک انٹرویو میں مرلی کے انداز پر اُنگلی اُٹھاتے ہوئے ایک بار پھر دعوی کیا کہ امپائرز جانتے ہیں کہ اُن کا ایکشن غلط ہے لیکن وہ اس کا اظہار کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ [حوالہ]

مرلی دھرن کے نوبال قضیے سے آگے بڑھیں تو ڈیرل ہیئر کی سخت گیری کا ایک بڑا ثبوت اور اُن کے کیریئر کا اہم ترین تنازع 2006ء کا بال ٹمپرنگ تنازعہ تھا، جس نے دنیائے کرکٹ میں ایک طوفان کھڑا کردیا تھا۔ پاکستان نے 13 جولائی تا 21 اگست2006ء چار ٹیسٹ میچز کھیلنے کے لیے انگلستان کا دورہ کیا۔ پہلا ٹیسٹ برابر ہوا جبکہ دوسرے ٹیسٹ میں انگلستان کو ایک اننگز اور 120رنز سے جبکہ تیسرے ٹیسٹ میں 167رنز سے فتح حاصل ہوئی۔ سیریز کا چوتھا اور آخری ٹیسٹ میچ لندن کے تاریخی میدان ’دی اوول‘ میں کھیلا جارہا تھا اور پاکستان کی پوزیشن مستحکم تھی۔ چوتھے دن کے کھیل کے دوران میچ امپائرز ڈیرل ہیئر اور بلی ڈاکٹروو نے الزام لگایا کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی ہے اور سزا کے طور پر انگلستان کے اسکور میں پانچ رنز کا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئی گیند لینے کی پیشکش بھی کی۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے توہین تصور کیا اور فیصلہ کیا کہ اس پر احتجاج کیا جائے۔

اور پھر 21 ویں صدی کی پہلی دہائی کا سب سے بڑا امپائرنگ تنازع بھی، اس مرتبہ نشانہ تھی پاکستانی ٹیم اور موقع تھا اوول ٹیسٹ 2006ء۔ نتیجہ ہیئر کے امپائرنگ کیریئر کا اختتام (تصویر: Getty Images)
اور پھر 21 ویں صدی کی پہلی دہائی کا سب سے بڑا امپائرنگ تنازع بھی، اس مرتبہ نشانہ تھی پاکستانی ٹیم اور موقع تھا اوول ٹیسٹ 2006ء۔ نتیجہ ہیئر کے امپائرنگ کیریئر کا اختتام (تصویر: Getty Images)

احتجاج ریکارڈ کروانے کا منفرد طریقہ اپناتے ہوئے چائے کے وقفے کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں نے میدان میں آنے سے انکار کردیا۔ اور پھر کرکٹ کی 129سالہ تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوا، تیس منٹ انتظار کے بعد امپائرز نے انگلستان کو فاتح قرار دے کر میچ ختم کردیا۔ پاکستانی کوچ باب وولمر کے اصرار کے باعث میچ کا فیصلہ ہونے کے 25منٹ بعد پاکستانی ٹیم میدان میں اُتری لیکن امپائرز نے میچ دوبارہ شروع کرنے سے انکار کردیا جبکہ پاکستان اور انگلستان، دونوں ٹیمیں میچ کھیلنا چاہتی تھیں۔ اس فیصلے سے ایک ہنگامہ مچ گیا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل، انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے تسلیم کیا کہ انگلستان کو فاتح قرار دینے کا فیصلہ کرکٹ کے قوانین کے عین مطابق ہے، لیکن دوسری طرف سابق کرکٹرز کی بڑی تعداد ایسی تھی جنہوں نے ہیئر کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس انداز میں میچ کے اختتام پر شدید تنقید کی۔

یوں دنیائے کرکٹ دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک طرف ڈیرل ہیئر کے حمایتی تھے جن کی دلیل تھی کہ قوانین کی پاسداری بہر صورت لازم ہے تو دوسری طرف مخالفین، جن کا ماننا تھا کہ ہیئر کا اقدام تعصب پر مبنی تھا۔ آئی سی سی نے انکشاف کیا کہ ڈیرل ہیئر نے ایک ای۔میل میں آئی سی سی ایلیٹ امپائر پینل سے مستعفی ہونے کے بدلے پانچ لاکھ امریکی ڈالر مانگے ہیں۔ ہیئر نے بیان دیا کہ اُنہوں نے یہ رقم اُن چار سالوں کے لیے طلب کی جو وہ اس تنازع کے کھڑا نہ ہونے کی وجہ سے امپائرنگ کرکے گزارتے۔ بعد ازاں مقدمے اور تحقیقات میں اوول میچ کے ریفری رنجن مدوگالے نے واضح کیا کہ پاکستانی کھلاڑیوں نے گیند کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہیں کی تھی۔ طویل عرصے تک بحث و مباحثے، پاکستان کرکٹ بورڈ کی کوششوں اور ایشیائی بلاک کے دباؤ کے باعث جولائی 2008ء میں آئی سی سی نے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میچ کا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے مذکورہ ٹیسٹ کو انگلستان کے حق میں دینے کے بجائے برابر قرار دے دیا۔ لیکن فروری 2009ء میں کرکٹ قوانین بنانے والے ادارے ایم سی سی کی سفارشات کو مانتے ہوئے اوول ٹیسٹ کا پرانا نتیجہ ایک بار پھر بحال کرتے ہوئے انگلستان کو فاتح قرار دے دیا گیا۔[حوالہ]

آئی سی سی کی ایک میٹنگ میں ٹیسٹ کھیلنے والے 10 میں سے 7 ممالک (پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور جنوبی افریقہ) نے ڈیرل ہیئر کے خلاف جب کہ انگلستان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے حمایت میں ووٹ دیا۔ 4 نومبر 2006ء کو آئی سی سی کے صدر پرسی سون نے اعلان کیا کہ ڈیرل ہیئر پر پابندی عائد کی جارہی ہے اور انہیں اپنا معاہدہ ختم ہونے (یعنی مارچ2008ء) تک کسی عالمی میچ میں امپائرنگ کے فرائض نہیں سونپے جائیں گے۔

فروری 2007ء میں ڈیرل ہیئر نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور پاکستان کرکٹ بورڈ پر نسلی امتیاز برتنے کا الزام لگاتے ہوئے اُن پر ہرجانہ دائر کرنے کا اعلان کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اوول ٹیسٹ میں اُن کے ساتھی امپائر بلی ڈاکٹروو کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور سب کچھ انہی کے سر دھر دیا گیا۔ اکتوبر 2007ء میں ہیئر نے اپنا مقدمہ واپس لے لیا۔ مارچ 2008ء میں آئی سی سی نے ہیئر کو ایلیٹ امپائر پینل میں بحال کردیا۔ جون 2008ء میں ہیئر نے انگلستان اور نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں آخری بار امپائرنگ کے فرائض انجام دیے۔ 22اگست 2008ء کو ڈیرل ہیئر نے آئی سی سی کو اپنا استعفی جمع کروادیا۔

یوں امپائرنگ کے ایک سیاہ باب یعنی ڈیرل ہیئر کے 16 سالہ طویل کیریئر کا اختتام ہوا۔