ٹیسٹ کرکٹ اور پاکستان کی عرب امارات سے وابستہ یادیں

3 1,029

ابوظہبی میں جاری پاک-انگلستان دوسرا ٹیسٹ میچ نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور بلاشبہ انگلستان کو میچ میں زبردست برتری حاصل ہے اور واضح طور پر میچ اسی کے پلڑے میں جھکا دکھائی دیتا ہے لیکن کرکٹ ایسا کھیل ہے جس میں آخری گیند پھینکے جانے تک کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پھر بھی انگلستان کے ٹیل اینڈرز بلے بازوں اور پھر اسپنرز کی کارکردگی نے پاکستان کو کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے جس کی 4 وکٹیں گر چکی ہیں اور برتری محض 55 رنز کی ہے۔ شاید انگلستان کی آخری 5 وکٹوں کی جانب سے 120 رنز کا اضافہ اور اسپنرز خصوصاً مونٹی پنیسر کی عمدہ کارکردگی میچ میں فیصلہ کن کردار ادا کرے۔ پھر بھی دیکھتے ہیں چوتھے روز ابوظہبی ٹیسٹ کا ’اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟‘

حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان کی متحدہ عرب امارات کے میدانوں سے بڑی شاندار یادیں وابستہ ہیں۔ شارجہ اور دیگر میدان جاوید میانداد کے چھکے اور پھر روایتی حریف بھارت کے خلاف درجنوں فتوحات کے عینی شاہد ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر پاکستان کی یہ خوش قسمتی صرف ایک روزہ کرکٹ تک ہی محدود رہی ہے کیونکہ عرب امارات میں کھیلے گئے ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کو بدترین شکستیں بھی ہو چکی ہیں اور چند مواقع پر وہ جیتے ہوئے مقابلے اپنے ہاتھوں سے گنوا بھی بیٹھا ہے۔

2002ء میں شارجہ میں کھیلے گئے دونوں ٹیسٹ کی بدترین کارکردگی نے کپتان وقار یونس کا سر شرم سے جھکا دیا تھا (تصویر:Reuters)
2002ء میں شارجہ میں کھیلے گئے دونوں ٹیسٹ کی بدترین کارکردگی نے کپتان وقار یونس کا سر شرم سے جھکا دیا تھا (تصویر:Reuters)

گو کہ بظاہر اعداد و شمار اتنے بھیانک نظر نہیں آتے کیونکہ اماراتی سرزمین پر کھیلے گئے 11 ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان نے چار فتوحات حاصل کی ہیں جن میں سے دو فتوحات تو وہ ہیں جو ویسٹ انڈیز کے خلاف 2002ء میں یہاں کھیلی گئی اولین سیریز میں حاصل کی گئیں۔ باقی ایک سری لنکا کے خلاف گزشتہ سیریز میں اور ایک انگلستان کے خلاف جاری سیریز کے گزشتہ مقابلے میں ملی اور یہ دونوں فتوحات پاکستان نے دبئی میں حاصل کیں۔ ان کے علاوہ پاکستان کو 2002ء میں یہاں دو انتہائی ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دراصل پاکستان میں ایک دہائی سے امن و امان کے مسائل کی وجہ سے دنیا بھر کی ٹیمیں آتے ہوئے پس و پیش سے کام لے رہی ہیں۔ 2002ء میں نیوزی لینڈ کے دورۂ پاکستان کے دوران ٹیم ہوٹل کے باہر بم دھماکے کے بعد کچھ عرصے کے لیے پاکستان میں کرکٹ رک گئی۔ اس دوران پاک-آسٹریلیا سیریز بھی طے تھی جو پاکستان میں کھیلی جانی تھی لیکن آسٹریلیا کے خدشات کے باعث پاکستان کے میدان اس سیریز کی میزبانی نہ کر پائے۔

مذکورہ پاک-آسٹریلیا سیریز کا پہلا معرکہ کولمبو میں کھیلا گیا جہاں پاکستان کے بلے باز اپنے باؤلرز کی عمدہ کارکردگی کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے اور پاکستان محض 41 رنز سے یہ میچ ہار گیا۔ اس حوصلہ شکن ہار کے بعد پاکستان کو سیریز کے بقیہ دو ٹیسٹ میچ اپنے ’فیورٹ میدان‘ شارجہ میں کھیلنا تھے لیکن یہ دونوں مقابلے بھیانک خواب ثابت ہوئے۔

کولمبو ٹیسٹ کے خاتمے کے چار روز بعد شارجہ کے تاریخی میدان میں پاک آسٹریلیا پہلا ٹیسٹ شروع ہوا تو پاکستان ابتدا ہی سے ایسا لڑکھڑایا کہ آخر تک سنبھلنے میں نہ آ سکا۔ شارجہ ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں پاکستانی ٹیم شین وارن اور آسٹریلیا کے دیگر باؤلرز کے سامنے محض 59 رنز پر ڈھیر ہو گئی جو پاکستان کی تاریخ کی مختصر ترین ٹیسٹ اننگز تھی۔ جواب میں آسٹریلیا نے میتھیو ہیڈن کی سنچری کی بدولت 310 رنز داغے اور پاکستان کو بادل نخواستہ ایک مرتبہ پھر ’مشکل ترین کام‘ یعنی بلے بازی کے لیے میدان میں اترنا پڑا اور ایک مرتبہ پھر وہی ہوا۔ اوپنر توفیق عمر ’پیئر‘ (یعنی دونوں اننگز میں صفر) کی ہزیمت کا شکار بنے جبکہ کپتان وقار یونس بھی یہی تمغہ لیے میدان سے باہر آئے اور پاکستان نے ہی ایک اننگز بعد اپنے کم ترین اسکور کا ریکارڈ توڑ دیا اور دوسری اننگز میں صرف 53 رنز پر آل آؤٹ ہو گیا۔

محض 310 رنز بنانے کے باوجود آسٹریلیا نے دوسرا ٹیسٹ ایک اننگز اور 198 رنز کے بھاری مارجن سے جیتا۔ یہ پاکستانی کرکٹ کے بدترین دنوں میں سے ایک تھا۔ آسٹریلیا جو اس وقت ’ناقابل شکست‘ سمجھا جاتا تھا، نے ثابت کر دیا کہ اندرونی خلفشار کا شکار اور ذہنی ہم آہنگی سے محروم کوئی بھی اس کے سامنے پل بھر کے لیے بھی نہیں ٹک سکتی۔ ٹیسٹ صرف دو روز میں تمام ہوا۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا 17 واں موقع تھا کہ جب میچ کا فیصلہ صرف اور صرف دو دن میں آ گیا ہو۔

شارجہ ہی میں کھیلے گئے اگلے ٹیسٹ میں بھی پاکستان آسٹریلیا کے 444 رنز کا جواب دونوں اننگز میں نہ دے سکا اور ایک اننگز اور 20 رنز سے شکست کھا گیا۔ اس مرتبہ بھی اہم شکاری اسپنر شین وارن رہے جنہوں نے میچ میں کل 8 وکٹیں حاصل کیں۔

شاید شارجہ میں دو مرتبہ اننگز کی ہزیمت اٹھانے کے باعث اگلے آٹھ سالوں تک اس میدان میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کے لیے واپس نہ آیا حتیٰ کہ گزشتہ سال سری لنکا کے خلاف سیریز کا ایک معرکہ شارجہ میں کھیلا گیا۔

اب دیکھنا ہے کہ ابوظہبی کا میدان پاکستان کے لیے کتنا خوش قسمت ثابت ہوتا ہے (تصویر: AFP)
اب دیکھنا ہے کہ ابوظہبی کا میدان پاکستان کے لیے کتنا خوش قسمت ثابت ہوتا ہے (تصویر: AFP)

پاک-انگلستان سیریز کا کوئی مقابلہ شارجہ میں تو طے نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے دبئی کے علاوہ عرب امارات کا کوئی بھی میدان ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے خوشگوار یادوں کا حامل نہیں ہے۔ ابوظہبی میں اس ٹیسٹ سے قبل صرف دو مقابلے کھیلے گئے ہیں جن میں پہلا مقابلہ نومبر 2010ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہوا جہاں جنوبی افریقہ کے پہلی اننگز کے 584 رنز کے جواب میں پاکستان نے کے مڈل اور لوئر آرڈر کی شاندار بلے بازی نے پاکستان کو 434 رنز تک پہنچا دیا لیکن فتح کے لیے 354 رنز کا ہدف حاصل کرنا، اور وہ بھی دنیا کے بہترین باؤلنگ اٹیک کے سامنے، پاکستان کے لیے ایک بہت مشکل ہدف تھا، اور خصوصاً 66 رنز پر تین وکٹیں گرنے کے بعد تو بہت زیادہ۔ اس صورتحال میں مصباح الحق نے 140 اور اظہر علی نے 135 گیندوں پر مشتمل میچ بچاؤ اننگز کھیلیں اور پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز برابر کرنے میں کامیاب ہوا۔

ابوظہبی کے شیخ زاید اسٹیڈیم میں اس سے بھی زیادہ مایوس کن مقابلہ سری لنکا کے خلاف اکتوبر 2011ء میں کھیلا گیا جہاں پاکستان جنید خان کی شاندار باؤلنگ کی بدولت سری لنکا کو پہلی اننگز میں 197 رنز پر آؤٹ کرنے اور پھر 511 رنز بنا کر 314 رنز کی زبردست برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن پاکستانی فیلڈرز کی جانب سے ایک، دو نہیں بلکہ پورے سات مواقع ضایع کرنے کے باعث سری لنکا میچ میں واپس آ گیا جس نے کمار سنگاکارا کی ڈبل سنچری اور پرسنا جے وردھنے کی سنچری کی بدولت دوسری اننگز میں 483 رنز بنا لیے اور پاکستان کو 170 رنز کا ہدف دیا جو پانچویں دن کی پچ پر اور اتنے کم وقت میں کافی مشکل تھا۔ یوں سری لنکا میچ بچا گیا اور پاکستان ایک بہت ممکنہ فتح سے محروم ہو گیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ تین روز تک انگلستان کے خلاف سخت جدوجہد کے بعد محض 55 رنز کی برتری اور اب تک کوئی خاص کارکردگی نہ دکھانے والے ٹیل اینڈرز کے ساتھ پاکستان دوسرے ٹیسٹ میں انگلستان کو کتنا ہدف دینے میں کامیاب ہوتا ہے؟ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ میچ جیتنے کے لیے پاکستان کے بچے کچھے بلے بازوں اور گیند بازوں کو اپنی صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر کارکردگی دکھانا ہوگی۔

ویسے ایک خوش آئند بات ضرور ہے، پاکستان و انگلستان کا آخری ٹیسٹ دبئی میں ہوگا، جو پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ میں بہت خوش قسمت میدان ہے 🙂 ۔