بھارت کو بیرون ملک ایک اور ذلت، مسلسل دوسرا کلین سویپ

5 1,026

اور وہی ہوا جس کی پیش بینی کرنے پر کئی ماہرین کرکٹ نے گلین میک گرا کا مذاق بھی اڑایا تھا، جی ہاں! آسٹریلیا نے بھارت کو مسلسل چوتھے ٹیسٹ میں شکست دے کر سیریز 4-0 سے جیت لی یعنی بھارت کو بیرون ملک مسلسل دوسرا کلین سویپ!۔ ایڈیلیڈ میں بلے بازی کے لیے نسبتاً آسان وکٹ پر بھی بھارتی بیٹسمین نہ چل پائے اور پہلی اننگز میں 272 اور دوسری اننگز میں محض 201 رنزبنا کر تمام ہوئے۔ آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں رکی پونٹنگ اور مائیکل کلارک کی ڈبل سنچریوں کی بدولت 604 رنز بنائے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے ان چند مواقع میں سے ایک تھا جب ایک ہی اننگز میں دو بلے بازوں نے ڈبل سنچریاں بنائی ہوں۔

آسٹریلیا نے فالو آن کا شکار ہونے کے باوجود بھارت کو دوسری اننگز میں بلے بازی کی دعوت نہیں دی جس کی وجہ سے کم از کم بھارت اننگز کی شکست سے بچ گیا، پھر بھی آسٹریلیا نے 298 رنز کے بھاری مارجن سے جیت اپنے نام کی۔

آسٹریلیا بارڈر گواسکر ٹرافی کے ساتھ، شاید انہیں بھی یقین نہ ہوگا کہ وہ سیریز 4-0 سے جیتیں گے (تصویر: Getty Images)
آسٹریلیا بارڈر گواسکر ٹرافی کے ساتھ، شاید انہیں بھی یقین نہ ہوگا کہ وہ سیریز 4-0 سے جیتیں گے (تصویر: Getty Images)

یہ سیریز پست ہمت آسٹریلیا کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوئی کیونکہ گزشتہ سیریز ہی میں اسے عالمی نمبر 8 نیوزی لینڈ کے ہاتھوں ہوبارٹ میں شکست کھانا پڑی تھی جس کے بعد لگتا تھا کہ بھارت اپنی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کی بدولت آسٹریلیا کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا لیکن بارڈر-گواسکر ٹرافی کے کسی بھی میچ میں بھارت مقابلے کا خواہشمند دکھائی نہیں دیا۔ تمام ہی مقابلے مکمل طور پر یکطرفہ ثابت ہوئے بلکہ اگر اسے ماضی قریب کی 'یکطرفہ ترین سیریز' قرار دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تمام چار میچز کے نتائج ملاحظہ کریں: آسٹریلیا ملبورن میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ 122 رنز سے، سڈنی میں دوسرا ٹیسٹ اننگز اور 68 رنز سے، پرتھ میں تیسرا ٹیسٹ اننگز اور 37 رنز سے اور ایڈيلیڈ کا یہ چوتھا معرکہ 298 رنز سے جیتا، اس سے زیادہ مقابلہ تو شاید بنگلہ دیش کی ٹیم کر لیتی۔

حیران کن طور پر اس جامع فتح کے باوجود آسٹریلیا عالمی درجہ بندی میں آگے نہیں بڑھ پایا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹیسٹ اکھاڑے میں آسٹریلیا کی حالیہ کارکردگی نے اسے کتنا پیچھے دھکیل دیا تھا۔ اسی لیے بھارت کے خلاف اس سیریز کو 'ہوا کا تازہ جھونکا' سمجھا جا سکتا ہے اور اب توقع ہے کہ آسٹریلیا ویسٹ انڈیز کے خلاف آنے والی سیریز میں فتوحات سمیٹ کر ایک مرتبہ پھر عالمی درجہ بندی میں بہتری کی جانب گامزن ہوگا۔

دوسری جانب اگربھارت کا جائزہ لیا جائے تو یہ بیرون ملک اس کی مسلسل 8 ویں شکست تھی۔ بھارت گزشتہ سال انگلستان کے دورے میں بھی تمام ٹیسٹ مقابلے ہارا تھا اور وہاں سے بھی کلین سویپ کی ذلت کا طوق گلے میں لٹکائے وطن واپس لوٹا تھا۔ اب بیرون ملک مسلسل دوسری کلین سویپ شکست اس تاثر کو مضبوط کر رہی ہے کہ بھارت صرف اپنے ہوم گراؤنڈز پر ہی فتوحات سمیٹ سکتا ہے اور اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے بھارت کو اب کافی محنت کرنا ہوگی اور بہت سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ خصوصاً آسٹریلیا کے آرگس کمیشن کی طرز پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بٹھانے اور شکست کی وجوہات جانچنے اور نئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

رکی پونٹنگ اور مائیکل کلارک کے درمیان 386 رنز کی شراکت داری قائم ہوئی (تصویر: Getty Images)
رکی پونٹنگ اور مائیکل کلارک کے درمیان 386 رنز کی شراکت داری قائم ہوئی (تصویر: Getty Images)

بہرحال، اگر میچ کے چار ایام میں ہونے والی پیشرفت پر نظر ڈالیں تو میچ ایڈیلیڈ اوول کی بلے بازوں کے لیے سازگار پچ پر آسٹریلیا نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور ابتدا ہی میں دو وکٹیں گنوانے کے بعد موجودہ و سابق کپتان یعنی مائیکل کلارک اور رکی پونٹنگ نے ریکارڈ ساز شراکت داری قائم کی۔ دونوں کھلاڑی چوتھی وکٹ پر 386 رنز بنا کر میچ کو بھارت کی پہنچ سے کہیں دور لے گئے۔

یہ آسٹریلیا کی تاریخ کی چوتھی سب سے بڑی شراکت داری تھی۔ رکی پونٹنگ نے کیریئر کی چھٹی اور بھارت کے خلاف تیسری ڈبل سنچری بنائی اور یوں اپنے بلے کے ذریعے ان تمام ناقدین کے منہ بند کر دیے جو ان کو ٹیم پر اضافی بوجھ سمجھ رہے تھے۔ یہ 2006ء کے بعد پہلا موقع ہے کہ رکی پونٹنگ نے ایک ہی سیریز میں دو سنچریاں اسکور کی ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ اننگز اس لحاظ سے بھی یادگار رہے کہ اس کے دوران رکی پونٹنگ نے اپنے 13 ہزار ٹیسٹ رنز بھی مکمل کیے اور اس سنگ میل کو عبور کرنے والے دنیا کے تیسرے بلے باز بنے۔

دوسری جانب مائیکل کلارک کے یہ سیریز بہت یادگار رہی جنہوں نے سڈنی میں ٹرپل سنچری بنائی تھی اور اب ایڈیلیڈ میں ڈبل سنچری سے ثابت کر دیا کہ قیادت نے ان پر کوئی اضافی بوجھ نہیں ڈالا اور وہ اب بھی بلے کے ذریعے اپنا بھرپور حصہ ڈال سکتے ہیں۔ مائيکل کلارک 275 گیندوں پر 26 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 210 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے جبکہ رکی پونٹنگ نے نسبتاً سست اننگز کھیلی اور 404 گیندوں پر 21 چوکوں کی مدد سے 221 رنز بنائے۔

ان دونوں کی یادگار بلے بازی کی بدولت آسٹریلیا نے 604 رنز 7 کھلاڑی آؤٹ پر اننگز ڈکلیئر کر کے بھارت کو بلے بازی کی دعوت دی جو پوری سیریز میں بلے بازوں کو درپیش مسائل میں ہی الجھا رہا اور سوائے ویرات کوہلی کے 116 رنز کے کوئی بلے باز نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکا۔ یہ کوہلی کے کیریئر کی پہلی سنچری تھی جس پر وہ بہت زیادہ جذباتی دکھائی دیے، جیسا کہ وہ ہمیشہ میدان میں رہتے ہیں۔ یہ سنچری ان کے لیے انفرادی طور پر تو سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے لیکن جب ٹیم ذلت کی ان گہرائیوں میں موجود ہو تو ان کا میدان میں اپنی انفرادی سنچری کا جشن منانا کچھ عجیب سا ضرور لگا۔ ادھر 100 ویں بین الاقوامی سنچری کے متلاشی سچن ٹنڈولکر محض 25 رنز بنا سکے جبکہ مہندر سنگھ دھونی پر ایک میچ کی پابندی کے باعث وکٹ کیپنگ کے فرائض انجام دینے والے وریدھمن ساہا 35 رنز کے ساتھ دوسرے بہترین بلے باز رہے۔ بھارت کی پہلی اننگز محض 272 پر تمام ہوئی لیکن اس کے باوجود آسٹریلیا نے اسے فالو آن پر مجبور نہیں کیا اور خود دوبارہ بیٹنگ کے لیے میدان میں اترا۔

پیٹر سڈل نے سب سے زیادہ 5 وکٹیں حاصل کیں جبکہ بین ہلفنیاس کو 3 اور ریان ہیرس اور ناتھن لیون کو 1،1 وکٹ ملی۔

آسٹریلیا کا بھارت کو دوبارہ بلے بازی کی دعوت نہ دینا اس لحاظ سے حیران کن تھا کہ اگر آسٹریلیا یہ فیصلہ کرتا تو یہ 60 سے زائد سالوں کے بعد پہلا موقع ہوتا کہ آسٹریلیا کسی سیریز کے 3 ٹیسٹ اننگز سے جیتتا جبکہ بھارت بھی گزشتہ 50 سال میں کسی سیریز میں اننگز کے مارجن سے تین ٹیسٹ نہیں ہارا تھا۔ بہرحال آسٹریلیا کا یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر رہا۔ پھر جب وہ بلے بازی کے لیے میدان میں اترا تو اس کے ابتدائی تین بیٹسمین یعنی ڈیوڈ وارنر، ایڈ کووان اور شان مارش پہلی اننگز کی طرح اس مرتبہ بھی مکمل طور پر ناکام رہے اور ذمہ داری پھر رکی پونٹنگ اور مائیکل کلارک کے گلے میں آ گئی جنہوں نے تیسری وکٹ پر 71 رنز جوڑ کر اسے بھرپور انداز سے نبھایا اور بالآخر 5 وکٹوں کے نقصان پر 167 رنز بنا کر اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کیا اور بھارت کو 500 رنز کا زبردست ہدف دیا۔ رکی پونٹنگ 60 رنز کے ساتھ سب سے نمایاں بلے باز رہے اور آؤٹ بھی نہیں ہوئے۔

بھارت کا ناکام دستہ منہ لٹکائے تقسیم انعامات کی تقریب میں شریک ہے، ہو سکتا ہے ان میں سے چند چہرے دوبارہ کبھی بھارت کی نمائندگی نہ کر پائیں (تصویر: Getty Images)
بھارت کا ناکام دستہ منہ لٹکائے تقسیم انعامات کی تقریب میں شریک ہے، ہو سکتا ہے ان میں سے چند چہرے دوبارہ کبھی بھارت کی نمائندگی نہ کر پائیں (تصویر: Getty Images)

گرنے والی پانچ میں سے 2 وکٹیں روی چندر آشون نے حاصل کیں جبکہ ظہیر خان، ایشانت شرما اور امیش یادیو کو ایک، ایک وکٹ ملی۔

اس ہمالیہ جیسے ہدف کے تعاقب میں بھارت کے بلے بازوں نے پہلی اننگز سے بھی گھٹیا کارکردگی دکھائی اور محض 201 رنز پر پوری ٹیم ڈھیر ہو گئی۔ قائم مقام کپتان وریندر سہواگ ٹیسٹ کو ایک روزہ یا ٹی ٹوئنٹی میچ سمجھ کر کھیلے اور 53 گیندوں پر 12 چوکوں کی مدد سے 62 رنز بنا کر بہترین بلے باز رہے۔

آسٹریلیا کو پانچویں روز بھارت کی آخری 4 وکٹیں سمیٹنے میں صرف ایک گھنٹہ لگا۔ یوں یہ سیریز کا واحد میچ بنا جس کا نتیجہ پانچویں روز آیا ورنہ بھارت تمام ہی مقابلوں میں حتمی روز سے قبل ہی شکست سے دوچار ہوا۔

اسپنر ناتھن لیون نے سب سے زیادہ 4 وکٹیں سمیٹیں اور ریان ہیرس نے 3 وکٹیں حاصل کیں۔ ایک، ایک وکٹ پیٹر سڈل اور بین ہلفنیاس کو بھی ملی۔

پیٹر سڈل کو چھ وکٹیں حاصل کرنے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ پوری سیریز میں عمدہ بلے بازی پر آسٹریلوی کپتان مائیکل کلارک سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

اس بدترین شکست کے بعد بھارت اب اگلے سال تک کوئی سیریز بیرون ملک نہیں کھیلے گا اور اندازہ ہے کہ وہ اپنے ہوم گراؤنڈز پر ایک مرتبہ پھر فتوحات کی راہ پر گامزن ہوگا۔

اسکور کارڈ کچھ دیر میں ملاحظہ کریں