سچن کو عالمی کپ کے بعد ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا: عمران خان

0 1,166

ماضی کے عظیم پاکستانی کپتان عمران خان نے کہا ہے کہ سچن ٹنڈولکر کوگزشتہ سال عالمی کپ جیتنے کے فوراً بعد ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ ہر کھلاڑی یادگار فتح کے ساتھ دنیائے کرکٹ سے رخصت ہونا چاہتا ہے۔

سچن ٹنڈولکر عالمی کپ جیتنے کے بعد انگلستان اور آسٹریلیا میں کلین سویپ کا شکار ہونے والی بھارتی دستے کا بھی حصہ رہے (تصویر: AP)
سچن ٹنڈولکر عالمی کپ جیتنے کے بعد انگلستان اور آسٹریلیا میں کلین سویپ کا شکار ہونے والی بھارتی دستے کا بھی حصہ رہے (تصویر: AP)

بھارت کے ٹیلی وژن چینل سی این این-آئی بی این سے گفتگو میں 1992ء کے عالمی کپ فاتح پاکستانی کپتان نے کہا کہ اس امر کا تعین بہت دشوار ہوتا ہے کہ کوئی کھلاڑی کس وقت ریٹائر ہو، میرے خیال میں سچن کے لیے بہترین وقت عالمی کپ 2011ء کی جیت تھا، اور اس نے یہ موقع گنوا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچن ایک عظیم کھلاڑی ہے اور اس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔

سچن کی 100 ویں بین الاقوامی سنچری کے حوالے سے سوال پر عمران خان نے کہا کہ یہ سنچری بنانا یا نہ بنانا معنی نہیں رکھتا کیونکہ اعداد و شمار کسی عظیم کھلاڑی کے لیے حیثیت نہیں رکھتے۔ آپ کو ریکارڈ توڑنے کے لیے نہیں کھیلنا چاہیے بلکہ ریکارڈز کو ٹیم کی جیت کا حصہ ہونے چاہیے۔ سچن ایک عظیم کھلاڑی ہے چاہے 99 سنچریاں بنائے یا 100، وہ بہرصورت عظیم ہی رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جن کھلاڑیوں کا سامنا کیا ان میں سب سے عظیم ویون رچرڈز تھا۔ مجھے اس کے ریکارڈز پر نظر ڈالنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ عظیم تھا کیونکہ اسے چیلنجز پسند تھے۔ ریکارڈز بہرحال اعداد و شمار ہیں اور یہ اعداد و شمار عظیم کھلاڑیوں کے لیے معنی نہیں رکھتے۔

عمران خان نے کہا کہ اب بھارت کی کرکٹ کے لیے ایک کڑا وقت سامنے آ رہا ہے کیونکہ اب کسی ایک کھلاڑی کا معاملہ نہیں بلکہ تین سے چار کھلاڑیوں کی رخصت قریب ہے،اور اب بورڈ کو طے کرنا ہے کہ کون کس کھلاڑی کی جگہ کون لے گا۔

پاک بھارت کرکٹ تعلقات کی بحالی کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک ماضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نئے تعلقات قائم کریں۔ ہم نے برصغیر کے شائقین کرکٹ کو پاک-بھارت کرکٹ سیریز کی خوشی و مسرت سے محروم کر رکھا ہے۔ آپ خود دیکھیں عالمی کپ کا سب سے شاندار مقابلہ کون سا تھا؟ پاک بھارت سیمی فائنل! اس لیے ہمیں ممبئی دہشت گردوں حملوں سے آگے بڑھنا چاہیے۔ پاکستان میں ہر شخص ممبئی واقعے اور اس میں ملوث افراد کی مذمت کرتا ہے۔ خود پاکستان میں ہزاروں افراد دہشت گردی کی نذر ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ وقت ہے کہ ان معاملات کو ایک جانب رکھ کر پاک بھارت کرکٹ تعلقات کی از سر نو بحالی کو ممکن بنایا جائے۔

آسٹریلیا میں 4-0 سے ٹیسٹ سیریز ہارنے پر سابق عظیم گیند باز نے کہا کہ اگر میری ٹیم مسلسل بھارت کی طرح غیر ملکی سرزمین پر مسلسل 8 مقابلے ہارتی تو میں کرکٹ کھیلنا ہی چھوڑ دیتا۔ بھارت نے 80ء کی دہائی کی ویسٹ انڈین ٹیم کا سامنا نہیں کیا، آپ خود دیکھیں بھارت ہارا کن ٹیموں سے ہے – انگلستان اور آسٹریلیا سے۔ وہ آسٹریلیا جو آجکل بمشکل ہی کوئی سیریز جیت پا رہا ہے اس کے خلاف کلین سویپ کرتا ہے۔

اس سلسلے میں عمران خان نے بھارت میں ٹی ٹوئنٹی اور آئی پی ایل پر بڑھتے ہوئے زور کا حوالہ دیا اور کہا کہ ٹی ٹوئنٹی اور آئی پی ایل گو کہ بڑی زبردست تفریح ہے لیکن ٹی ٹوئنٹی کا ٹیسٹ کرکٹ سے کیا تقابل؟۔ ٹیسٹ کرکٹ کسی بھی کھلاڑی کی صلاحیتوں کا حقیقی امتحان ہے۔ اگر بھارت نے اس توازن کو برقرار نہیں رکھا تو وہ ایسی ٹیسٹ ٹیم بن جائے گی جسے مغلوب کرنا بالکل آسان ہوگا۔