بھارت میں کرکٹ کی گرتی ہوئی مقبولیت، بورڈ مسائل کی دلدل میں

1 1,022

قومی ٹیم کو بیرون ممالک ملنے والی متواتر شکستیں، سہارا گروپ کے ساتھ گیارہ سالہ مالی تعلقات کا اختتام، یوراج سنگھ کی بیماری اور اب آئی پی ایل کے بانی للت مودی کے ذریعہ بی سی سی آئی کے صدر اور چنئی سپرکنگز کے مالک این سری نواسن پر الزام تراشی کے ساتھ ہی بھارتی کرکٹ بورڈ کی مصیبتوں میں روز افزوں ایک نئے باب کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹیم انڈیا کے گلے میں انگلستان اور آسٹریلوی سرزمین پر شکستوں اور رسوائیوں کا جو طوق پڑا تھا، اس میں بھارتی کرکٹ بورڈ کی بھی حصہ داری تھی۔ ابھی وہ اس کو گلے سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہی تھا کہ بھارتی بورڈ کو ’سہارا‘ نے بے سہارا کر دیا۔

سہارا گروپ کے سربراہ سبرت رائے سہارا کے بھارتی کرکٹ ٹیم کی اسپانسرشپ واپس لیتے ہی بورڈ پر زبردست مالی خسارے کا خطرہ منڈلانے لگا۔ ابھی بورڈ اس خطرے کے سد باب کیلئے سبرت رائے کو منانے کی کوششوں میں سرگرداں ہی تھا کہ اس پر مخالفین کے تابڑ توڑ حملے شروع ہو گئے۔اس کی ابتدا خود سہار ا گروپ کی طرف سے ہوئی۔ بورڈ اور آئی پی ایل کے ساتھ اپنے تعلقات کے خاتمے کے بعد سبرت رائے سہارا نے واضح الفاظ میں اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ بھارتی کرکٹ بورڈمیں چند لوگوں کی اجارہ داری ہے جو اپنی مرضی کے مطابق فیصلے لیتے ہیں۔ حالانکہ سہارا گروپ اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کی شروعات 2008ء میں اسی وقت ہو گئی تھی جب چند تکنیکی بنیادوں پر بورڈ نے آئی پی ایل فرنچائز کیلئے سہارا گروپ کی بولی رد کر دی تھی۔ جس کے بعد یہ خبریں بھی موصول ہوئیں کہ آئی پی ایل کی دوسری نیلامی میں سہارا گروپ کو قصداً الگ کر دیا گیا۔ تاہم بی سی سی آئی اور سہارا کے درمیان تعلقات میں پڑنے والی یہ خفیف دراڑیں منظر عام پر نہیں آئیں۔لیکن بورڈ کی مجلس منتظمہ نے جوں ہی سہارا گروپ کو یوراج سنگھ پر لگائی گئی رقم کی تلافی کرنے سے انکار کیا یہ پورا معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا ۔ حالانکہ بی سی سی آئی سہارا گروپ کے ساتھ مفاہمت کی کوششوں میں مصروف ہے کیونکہ گزشتہ سال چیمپئنز لیگ ٹی ٹوئنٹی میں ایئر ٹیل کی اسپانسرشپ اور نمبس کے ٹی وی معاہدوں کے خاتمے کے بعد قانونی جنگ میں الجھا بورڈ اپنا ’سہارا‘ کبھی نہیں چھوڑنا چاہے گا۔

سہارا گروپ نے جس انداز میں بورڈ پر تنقید کی اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اس سے ایک بات صاف سمجھ میں آئی کہ سہارا کو دراصل بورڈ سے نہیں بلکہ بورڈ کے صدر سے شکایت ہے۔ اسی لئے اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ کشمکش دراصل ’’سہارا بمقابلہ بورڈ‘‘ نہیں بلکہ ’’سہارا بمقابلہ سری نواسن‘‘ کا رنگ اختیار کر چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی سی سی آئی کے سابق نائب صدر اور آئی پی ایل کے بانی للت مودی بھی اپنے ’’دیرینہ حریف‘‘ کے خلاف آستینیں چڑھائے میدان میں کود چکے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے بلاگ پر بورڈ کے صدر کے خلاف جم کر بھڑاس نکالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’انا کی بھوک کبھی مٹائی نہیں جا سکتی، آپ اسے جتنا کھلائیں گے اسے اتنی بھوک لگے گی۔ دیکھیے ایک شخص کی اسی انا نے کس طرح بی سی سی آئی کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ سالوں کی محنتوں کے نتیجے میں بی سی سی آئی کو دنیا کا امیر ترین بورڈ بنایا گیا تھا، لیکن۔۔۔۔ محض ایک شخص سری نواسن کے ذریعے بورڈ کا پورا نظام منہدم ہو رہا ہے۔‘‘ مودی نے سبرت رائے سہارا کے بورڈ کے ساتھ مالی تعلقات ختم کرنے کے قدم کی حمایت کی اور کہا کہ آئی پی ایل میں کسی مخصوص ٹیم کو فائدہ پہنچانے کے غرض سے قوانین میں تبدیلی کی جاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جناب مودی خود ہی آئی پی ایل کو تنازع کا مجسمہ بنا کر رخصت ہوئے ہیں۔ پھر وہ کس منہ سے اس کی بے ضابطگیوں پر سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ جناب مودی شاید یہ بھول گئے کہ جب انہوں نے برطانیہ میں ہندوستان کے سابق سفیر و وزیر اور مشہور کالم نویس ششی تھرور پر اسی قسم کی الزام تراشی کی تھی تو جناب ششی تھرور کو تو ضرور اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا لیکن مودی کو خود بھی آئی پی ایل سے ذلت و رسائی کا تاج پہنا کر بے دخل کر دیا گیا تھا۔ مودی پر یہ الزام ثابت ہو گیا تھا کہ انہوں نے اپنے ذاتی فائدے کیلئے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا۔ ان کے ایک قریبی راجستھان رائلز کے حصہ دار تھے جبکہ ان کے ایک سالے موہت کنگز الیون پنجاب کے شریک-مالک تھے ۔ مودی کے کئی دیگر رشتہ دار بھی کسی نہ کسی طرح آئی پی ایل کی ٹیموں کے ساتھ منسلک پائے گئے تھے۔ ان گناہوں کا طوق گلے میں ڈال کر محض ذاتی بغض کی بنیاد پر بورڈ کے سربراہ کے خلاف مودی کی آواز میں کوئی وزن نہیں لگتا۔ نہ ان کی زبان پر ایسی کوئی بات زیب دے رہی ہے جس میں مالی بے ضابطگی یا غیر قانونی کاموں پر سوالات کھڑے کئے گئے ہوں۔سری نواسن کے ساتھ ان کی ذاتی بغض وعداوت کیوں ہے اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ جہاں تک بورڈ اور سہارا گروپ کے درمیان اختلاف کا معاملہ ہے۔ اس بات کا اگر قوی امکان نہیں تو امید ضرور ہے کہ دونوں کے درمیان مفاہمت ہو جائے گی کیونکہ نہ بورڈ چاہے گا کہ وہ اس نازک موقع پر کسی مالی بحران کا شکار ہو اور نہ ہی سبرت رائے ٹیم انڈیا کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کواس طرح ختم کرنا چاہیں گے۔ انہوں نے بورڈ کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرتے وقت اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ یہ ان کا جذباتی فیصلہ ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سہارا گروپ کے آئی پی ایل سے علیحدگی کی ایک وجہ بھارتی کرکٹ ٹیم کی مسلسل ناقص کارکردگی بھی بتائی جا رہی ہے۔ کیونکہ انگلستان اور آسٹریلیا میں پٹنے کے بعد گروپ کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بھارت میں کرکٹ سے وابستہ رہ کر اب زیادہ منافع نہیں کمایا جا سکتا۔ وہیں سہارا گروپ نے فورس انڈیا اور فارمولا ون میں کثیر رقوم لگا رکھی ہیں جو اس کے لئے بورڈ اور آئی پی ایل کے بہ نسبت زیادہ منافع بخش ثابت ہو رہا ہے۔ اگر سبرت رائے سہارا اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتے ہیں توپونے ٹیم کا معاہدہ ختم ہونے اور کوچی ٹیم کے اخراج کے بعد اب آئی پی ایل 5-کا نقشہ اپنے پہلے سیزن کی طرح ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ جس میں 45 دنوں تک 8 ٹیموں کے 59 میچز ہوئے تھے۔