موت کی سرگوشی

3 1,047

70ء کی دہائی کے وسط سے 80ء کے اواخر تک ویسٹ انڈیز ایک عظیم ٹیم تھی، جس میں تاریخ کے بہترین بلے باز و گیند باز اکٹھے تھے اور اس ٹیم کی اس درجے تک پہنچانے میں جن لوگوں کا حصہ تھا ان میں تیز گیند باز مائیکل ہولڈنگ بھی شامل تھے۔ وہ مشہور "Fearsome Foursome" کا حصہ تھے جس میں ان کے علاوہ کولن کرافٹ، اینڈی رابرٹس اور جوئیل گارنر جیسے باؤلر تھے جو اس زمانے میں بلے بازوں کے لیے ایک ’بھیانک خواب‘ تھے۔

"Fearsome foursome" بائیں سے دائیں: اینڈی رابرٹس، مائیکل ہولڈنگ، کولن کرافٹ اور جوئیل گارنر (تصویر: Getty Images)
"Fearsome foursome" بائیں سے دائیں: اینڈی رابرٹس، مائیکل ہولڈنگ، کولن کرافٹ اور جوئیل گارنر (تصویر: Getty Images)

کرکٹ کی تاریخ میں چند ہی باؤلرز ایسے ہیں جن کا باؤلنگ ایکشن اتنا خوبصورت و رواں ہو جتنا مائیکل ہولڈنگ کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں "Whispering Death" ’یعنی موت کی سرگوشی‘ قرار دیا جاتا تھا۔ حیران کن طور پر یہ نام اُنہیں ساتھی یا حریف کھلاڑیوں نے نہیں، بلکہ اُس زمانے کے امپائروں نے دیا تھا۔ جن کا کہنا تھا کہ وہ اتنی خاموشی سے گزر جاتا ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ اتنی تیز گیند پھینکنے والا کوئی باؤلر ہمارے اتنے قریب سے گزرا ہے۔

آج اپنی 58 ویں سالگرہ منانے والے ہولڈنگ کو ہم جیسے دورِ جدید کے کرکٹ شائقین صرف کمنٹری کے باعث جانتے ہیں، لیکن کبھی یہ گیند باز دنیا بھر کے بلے بازوں کے لیے موت کا سامان تھا۔ 60 ٹیسٹ اور 102 ایک روزہ مقابلوں میں ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کرنے والے ہولڈنگ نے بین الاقوامی کیریئر میں 391 وکٹیں حاصل کیں جن میں سے ٹیسٹ میں 23.38 کی اوسط سے 249 اور ایک روزہ میں 21.36 کی اوسط سے 142 وکٹیں شامل ہیں۔

ان کے کیریئر کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ انہوں نے اپنی بہترین کارکردگی بیرون ملک دکھائی، جیسا کہ انہوں نے ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انہوں نے کیریئر میں کل 13 بار انجام دیا جس میں سے 11 مرتبہ وہ حریف ٹیم کے خلاف اسی کی سرزمین پر تھے۔

1976ء میں انگلستان کے خلاف اوول ٹیسٹ میں اُن کی کارکردگی کو بھلا اُس زمانے کا کون سا کرکٹ شائق بھلا سکتا ہے؟ جب انہوں نے پہلی اننگز میں 8 اور دوسری اننگز میں 6 وکٹیں حاصل کر کے انگلش بیٹنگ لائن اپ کی دھجیاں بکھیر دی تھیں اور ویسٹ انڈیز کو 3-0 کی شاندار فتح سے ہمکنار کیا۔

اس میچ کے بارے میں پاکستان کے سابق کوچ باب وولمر کا کہنا ہے کہ اوول کی پچ بلے بازوں کی جنت تھی لیکن یہ ہولڈنگ کی تباہ کن باؤلنگ اور ویون رچرڈز کی شاندار بلے بازی تھی جس نے انگلستان کو شکست کی ہزیمت سے دوچار کیا۔ گو کہ سیریز سے قبل ہمارے کپتان ٹونی گریگ نے کہا کہ ہم ویسٹ انڈیز کے گھٹنے ٹیک دیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ویسٹ انڈیز نے ہولڈنگ اور اینڈی رابرٹس کی تباہ کن باؤلنگ اور ویون رچرڈز کی شاندار بلے بازی کی بدولت سیریز با آسانی اپنے نام کی۔

ہولڈنگ کے کیریئر کی ایک اور جھلک 1980ء میں دورۂ نیوزی لینڈ میں ملتی ہے جہاں ویسٹ انڈین دستہ آسٹریلیا کو اسی کی سرزمین پر شکست دے کر پہنچا تھا۔ لیکن ڈنیڈن میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے ابتدائی روز امپائرنگ کے معیار سے ناخوش ہونے والے ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کا پارہ دوسرے دن تک چڑھا ہوا تھا اور مائیکل ہولڈنگ امپائر کی جانب سے واضح آؤٹ نہ دیے جانے پر طیش میں آ گئے اور بیٹسمین کے اینڈ پر جا کر لات مار کر اس کی وکٹیں بکھیر دیں۔

دراصل امپائر نے ویسٹ انڈیز کی پہلی اننگز میں سات ایل بی ڈبلیو دیے تھے، اور مہمان ٹیم کا سمجھنا تھا کہ فیصلوں میں امپائروں کا جھکاؤ مقامی ٹیم کی طرف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صورتحال کے باعث ہولڈنگ پہلے ہی سیخ پا تھے لیکن جب امپائر جان ہیسٹی نے جان پارکر کو وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ نہیں دیا تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انہوں نے بجائے گیند کے لات ہی سے وکٹی بکھیر کر اپنی بھڑاس نکالی۔ لیکن اس رویے کا ویسٹ انڈیز کو کافی نقصان ہوا، اور اُس زمانے میں جب ویسٹ انڈیز کو ’ناقابل شکست‘ سمجھا جاتا تھا، کو اس میچ میں سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک وکٹ سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا بعد ازاں وہ سیریز بھی ہار گیا۔

کرکٹ کی تاریخ کے کئی لمحات یادگار حیثیت رکھتے ہیں بلکہ لوگ انہیں ’جادوئی لمحات‘ سمجھتے ہیں۔ انہی میں سے ایک مارچ 1981ء میں برج ٹاؤن، بارباڈوس میں انگلستان-ویسٹ انڈیز ٹیسٹ تھا۔ جس میں عظیم انگلش کھلاڑی جیفری بائیکاٹ کے خلاف کرائے گئے اوور کو کئی کرکٹ ماہرین ’ٹیسٹ کی تاریخ کا بہترین اوور‘ گردانتے ہیں جن میں معروف کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کے ایگزیکٹو ایڈیٹر مارٹن ولیم سن بھی شامل ہیں۔

مذکورہ اوور میں بائیکاٹ ہولڈنگ کی ابتدائی پانچ گیندیں کھیلنے میں ناکام رہے اور بالآخر چھٹی گیند پر اپنی آف اسٹمپ سے محروم ہوگئے اور تماشائیوں سے بھرا ہوا میدان آپے سے باہر ہو گیا۔ویسے یہ وہی جیفری بائیکاٹ ہیں جو آج کمنٹری بکس میں ہولڈنگ کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ بائیکاٹ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے کیریئر میں کبھی اتنی تیز گیندوں کا سامنا نہیں کیا۔ باب وولمر بھی یہی کہتے ہیں کہ میں نے جس تیز ترین باؤلر کو کھیلا وہ مائیکل ہولڈنگ تھا۔

بدقسمتی سے اس زمانے میں کرکٹ میں گیند کی رفتار ناپنے والی مشین نہیں ہوا کرتی تھی، ورنہ ہو سکتا ہے کہ ان کی گیندوں کی رفتار بھی ریکارڈ کا حصہ بنتی، بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ وہ تاریخ کے تیز ترین گیند بازوں میں شامل ہیں۔

مائیکل ہولڈنگ نہ صرف یہ کہ ایک عظیم کھلاڑی تھے، بلکہ وہ ایک زبردست تبصرہ نگار بھی ہیں اور کھیل پر اُن کی نگاہ بہت گہری ہے۔ جمیکا کے مخصوص لہجے میں وہ جدید کرکٹ کے کئی یادگار لمحات کو بیان کر چکے ہیں۔ کیونکہ وہ خود ایک زمانے میں تیز باؤلر رہے ہیں اس لیے فاسٹ باؤلنگ سے انہیں خاص لگاؤ ہے، جس کا ایک اظہار اگست 2010ء میں پاکستان کے نوجوان گیند باز محمد عامر کے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں پھنسنے کے بعد ان کے فوری تبصرے سے ہوتا ہے۔ جب وہ اسکائی اسپورٹس کی جانب سے میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ ایک ایسے نوجوان باؤلر کے لیے، جس سے شاید وہ کبھی ملے بھی نہیں ہوں گے، ایسے جذبات کھیل سے ہولڈنگ کی گہری محبت کے عکاس ہیں۔

مائیکل ہولڈنگ نے "No Holding Back" کے نام سے ایک آپ بیتی بھی تحریر کر رکھی ہے جبکہ 1988ء میں جمیکا نے ان کے اعزاز میں 2 ڈالرز مالیت کا ٹکٹ بھی جاری کیا۔