[آج کا دن] دور جدید کی سب سے بڑی مسابقت کا آغاز

3 1,039

1999ء پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا عجیب و غریب سال تھا۔ بلاشبہ پاکستان اس وقت دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتا تھا خصوصاً اس کے گیند باز کسی بھی ٹیم کےچھکے چھڑانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود سال میں پاکستان کو ملے جلے نتائج ہی ملے۔ ایک جانب جہاں ٹیم نے ٹیسٹ مقابلوں میں کئی یادگار فتوحات سمیٹیں تو وہیں 99ء ہی وہ سال تھا جس میں پاکستان عالمی کپ کے فائنل میں پہنچ کر بھی فتح حاصل نہ کر پایا۔

شعیب اختر ہمیشہ یاد رہ جانے والا کارنامہ انجام دینے کے بعد (تصویر: OUP)
شعیب اختر ہمیشہ یاد رہ جانے والا کارنامہ انجام دینے کے بعد (تصویر: OUP)

لیکن اگر آپ سے پوچھا جائے کہ اُس سال پاکستان کرکٹ کے شائقین کے لیے سب سے یادگار لمحہ کون سا تھا؟ تو بلاشبہ کئی لوگوں کا جواب ہوگا ”شعیب اختر کے ہاتھوں سچن ٹنڈولکر کا بولڈ“۔ وہ آج یعنی 17 فروری ہی کا دن تھا جب دنیا کے عظیم ترین بلے باز سچن ٹنڈولکر نے پہلی بار پاکستان کے نوجوان باؤلر شعیب اختر کا سامنا کیا اور پہلی ہی گیند پر اپنی مڈل اسٹمپ کھو بیٹھے۔

یہ واقعہ برصغیر کے کرکٹ شائقین میں سب سے زیادہ زیر بحث آنے والے واقعات میں سے ایک ہے۔ کچھ لوگ اسے شعیب اختر کی سچن ٹنڈولکر پر برتری کا نقطہ آغاز کہتے ہیں، تو چند لوگ 2003ء کے عالمی کپ میں سچن کے چھکے کو اس کا بدلہ۔ بہرحال، اس روز سے شعیب اور سچن کی جس مسابقت و رقابت کا آغاز ہوا وہ شعیب کے بین الاقوامی اکھاڑے میں موجودگی تک جاری رہی۔ دونوں کھلاڑیوں میں اس مسابقت نے عرصے تک برصغیر کے شائقین کو مسحور کیے رکھا اور بالآخر فٹنس، نظم و ضبط، غیر قانونی ایکشن، اور دیگر تنازعات میں الجھنے کے باعث شعیب اختر مستقل کرکٹ نہ کھیل پائے اور پاکستان و بھارت کے درمیان حالات کی کشیدگی نے بھی روایتی حریفوں کے درمیان کرکٹ کا خاتمہ کر دیا۔

بہرحال، وہ ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ کا ابتدائی مقابلہ تھا۔ پاکستان پہلی اننگز میں محض 185 رنز پر ڈھیر ہوا، جس میں ابتدائی 6 بلے بازوں کی اننگز دہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہو پائی تھی۔ 6 کھلاڑی 26 کے مجموعے پر واپس پلٹ چکے تھے۔ اس موقع پر معین خان اور وسیم اکرم کی 63 رنز کی شراکت نے اسکور کو کچھ قابل عزت مجموعے تک پہنچایا۔

لیکن بھارت کا جواب کرارا تھا، جس کے 147 رنز پر صرف دو کھلاڑی آؤٹ تھے اور راہول ڈریوڈ اور سداگپن رمیش کریز پر موجود تھے۔ وہ 1999ء میں آج ہی کا دن تھا جب پانی کے ایک وقفے کے بعد شعیب اختر نے راہول کو پہلی گیند کروائی، جو اس وقت ’دیوار‘ کی عرفیت و حیثیت سے معروف ہونے لگے تھے۔ ایک اندر آتی ہوئی خوبصورت گیند راہول ڈریوڈ کی وکٹ اڑاتی نکل گئی۔ پاکستان نے سکھ کا سانس لیا لیکن میدان میں اک ایسا بلے باز آیا جسے دنیا آج بھی ’لٹل ماسٹر‘ کے نام سے جانتی ہے اور وہ تن تنہا مقابلہ جتوانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ بلے باز جنہیں دنیا بھر کے کروڑوں بلکہ اربوں شائقین کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین بلے بازوں میں شمار کرتے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے اسٹیڈیم ایڈن گارڈنز، کولکتہ میں تقریباً ایک لاکھ تماشائی گلا پھاڑ کر سچن کی میدان میں آمد کا خیرمقدم کر رہے تھے اور اس عظیم بلے باز کا آتے ہی سامنا ہوا ایک نوجوان و ناتجربہ کار باؤلر سے، جس نے پہلے کبھی سچن کو گیند نہیں کروائی تھی۔

شعیب اختر آئے، اور جیسا کہ وہ مشہور تھے ایک انتہائی تیز گیند پھینکی، جسے سچن بالکل نہ سمجھ پائے اور وہ تیزی سے اندر آتی ہوئی سچن کے ڈرائیو کھیلنے کی کوشش میں گھومنے والے بلے اور پیڈ کے درمیان سے سیدھا مڈل اسٹمپ کو جا لگی۔ میدان میں موجود تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا اور شعیب اور پاکستانی ٹیم خوشی سے دیوانی ہو گئی۔ خود شعیب اختر نے بھی اس واقعے کو اپنی کتاب "Controversially Yours" میں خاص جگہ دی ہے بلکہ کتاب کا آغاز ہی اس واقعے کے ساتھ کچھ یوں کیا ہے۔

مقابلہ چاہے دنیا کے کسی بھی میدان پر ہو لیکن پاک-بھارت میچ ہمیشہ تماشائیوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ اور اگر یہ میدان کولکتہ کا ایڈن گارڈنز ہو، تو کسی بھی حریف ٹیم کو، خصوصاً اگر وہ پاکستان کی ہو تو، گیارہ کھلاڑیوں اور مزید ایک لاکھ حریفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر آپ ایک نوجوان اور غیر معروف پاکستانی باؤلر ہوں جس نے ابھی دنیا کے بہترین بلے باز راہول ڈریوڈ کی وکٹ حاصل کی ہو، تو وہ خود پر جمی ایک لاکھ نگاہوں اور اپنے ہیرو سچن ٹنڈولکر کو میدان میں آتا دیکھ کر ایک لاکھ لوگوں کے فلک شگاف نعروں کو محسوس کر سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ پہلی ہی گیند پر اس کی گلی اڑادے تو اسے یکدم موت کے سے سناٹے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے یہ کر دکھایا، اور میری جبین سجدۂ شکر کے لیے جھک گئی۔

یہ ضرب اتنی کاری ثابت ہوئی کہ بھارت کی پوری اننگز تہہ و بالا ہو گئی اور اس کے تمام کھلاڑی 223 رنز پر آؤٹ ہو گئے۔ پاکستان نے دوسری اننگز میں سعید انور کی 188 رنز کی یادگار اننگز کی بدولت 316 رنز بنائے اور شعیب اختر کی دونوں اننگز میں 4،4 وکٹوں کی بدولت بھارت کو 232 پر ڈھیر کر کے میچ 46 رنز سے جیت لیا۔

گو کہ شعیب ذاتی طور پر راہول ڈریوڈ کو کرائی گئی گیند کو زیادہ خوبصورت سمجھتے ہیں لیکن ان کی شہرت کو جو دوام اس ایک گیند نےبخشا، وہ شاید ہی کرکٹ تاریخ میں کسی باؤلر کو حاصل ہوئی ہو۔

پاکستان کے معروف صحافی عثمان سمیع الدین نے کرکٹ کی تاریخ کے 50 جادوئی لمحات میں سے ایک قرار دیا ہے۔ واقعتاً وہ دونوں جادوئی گیندیں تھیں جنہوں نے اپنے وقت میں دنیا کے دو بہترین بلے بازوں کو نہ صرف کلین بولڈ کر کے میدان بدر کیا بلکہ اپنی ٹیم کو میچ میں واپس لا کر ایک یادگار فتح بخشی۔

شعیب اختر نے اس واقعے کے حوالے سے کتاب میں ایک اور انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے میدان میں داخل ہوتے ہی سچن کو خبردار کیا تھا کہ وہ ان کی وکٹ لیں گے، لیکن سچن اس واقعے سے انکاری ہیں۔ بقول شعیب اختر یہ واقعہ کچھ یوں تھا:

ایک عظیم دورہ تھا جس میں میدان میں ایک لاکھ تماشائی اور باہر اِس سے کہیں زیادہ ہم پر نگاہیں جمائے بیٹھے تھے۔ پورا ہندوستان و پاکستان ہمیں دیکھ رہا تھا۔ لیکن چلیے ماحول کی بات نہیں کرتے، آئیے خود پر موجود دباؤ کے بارے میں کرتے ہیں۔

اس موقع پر مجھ پر اعصابی تناؤ کا شدید حملہ ہوا اور میں لرزتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ میدان میں اترا۔ مجھے تناؤ سے نکلنا تھا اور میں اپنے آزمودہ طریقے سے ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوا۔ بھارتی بلے باز مقابلے سے قبل وارم اپ ہو رہے تھے، اور بلے لیے میدان میں داخل ہو رہے تھے۔ میں سچن ٹنڈولکر کی جانب بڑھا اور پوچھا، 'کیا تم مجھے جانتے ہو؟'

اس نے اوپر دیکھا اور بولا 'نہیں۔'

میں نے کہا 'جان جاؤ گے، جلد ہی۔'

میں نے اُسے پہلی ہی گیند پر میدان بدر کر دیا اور بعد ازاں اُس نے مجھے کہا کہ 'اب میں تمہیں یاد رکھوں گا۔'

چند سالوں بعد میں نے سچن سے پوچھا کہ تمہیں وہ واقعہ یاد ہے، لیکن اُس کا جواب نفی میں تھا۔