رائیڈر کی خود غرضی نیوزی لینڈ کی شکست کی وجہ بنی: کریگ میک ملن

0 1,008

نیوزی لینڈ کے سابق بلے باز کریگ میک ملن نے کہا ہے کہ جنوبی افریقہ کے خلاف آخری ٹی ٹوئنٹی میں بلیک کیپس کی شکست کی واحد وجہ جیسی رائیڈر کی خود غرضی تھی، جنہوں نے اپنی نصف سنچری مکمل کرنے کے لیے رنز بنانے کی رفتار کو دھیما کیا اور خمیازہ نیوزی لینڈ کو میچ و سیریز گنوانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

رائیڈر نے اپنے آخری 4 رنز بنانے کے لیے 13 گیندیں ضایع کیں (تصویر: Getty Images)
رائیڈر نے اپنے آخری 4 رنز بنانے کے لیے 13 گیندیں ضایع کیں (تصویر: Getty Images)

166 رنز کے ہدف کے تعاقب میں نیوزی لینڈ کو آخری چار اوورز میں صرف 17 رنز درکار تھے، لیکن اس کے باوجود وہ تین رنز سے شکست سے دوچار ہوا اور جنوبی افریقہ سیریز 2-1 سے لےاُڑا۔

ٹیلی وژن پر رواں تبصرہ نگار کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے میک ملن کا کہنا ہے کہ رائیڈر ٹیم کے بجائے اپنی ذات کو ترجیح دینے کے مرتکب ٹھیرے ہیں۔ کیونکہ نیوزی لینڈ فتح کی جانب تیزی سے پیشقدمی کر رہا تھا لیکن اس کی رفتار کھو بیٹھنے کا بڑا سبب یہ تھا کہ جیسی رائیڈر نے اپنی نصف سنچری کی تکمیل میں درکار ایک رن کے حصول کے لیے 9 گیندیں ضایع کیں۔ آپ جب بھی ٹیم کے مفادات پر خود کو ترجیح دیں گے، خطرہ پیدا ہوگا اور یہی گزشتہ رات جیسی رائیڈر نے کیا۔

نیوزی لینڈ کے ریڈیواسپورٹ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گو کہ دیگر بلے باز بھی قصور وار ہیں لیکن نیوزی لینڈ کو اس پوزیشن تک پہنچانے کی ذمہ داری رائیڈر کو قبول کرنی چاہیے۔ انہوں نے اپنا بلے بازی کا طریقہ تک بدل ڈالا صرف اس لیے کہ وہ اپنی نصف سنچری مکمل کر سکیں، انہوں نے ایک رن حاصل کرنے کے لیے چھ گیندیں ضایع کیں۔

انجری سے صحت یابی پا کر ڈھائی ماہ بعد ٹیم کا حصہ بننے والے رائیڈر نے 29 گیندوں پر 48 رنز بنائے اور بعد ازاں اسکور میں مزید چار رنز کے اضافے کے لیے 13 گیندیں ضایع کیں اور 19 ویں اوور میں وکٹ گنوا بیٹھے اور نیوزی لینڈ کو شدید دباؤ میں ڈال گئے جسے اس وقت فتح کے لیے 7 گیندوں پر 8 رنز کی ضرورت تھی لیکن وہ 4 رنز ہی بنا پایا۔

میک ملن کے اس بیان کے باوجود نیوزی لینڈ کے ٹیم کے چند اراکین رائیڈر کو ’بے قصور‘ قرار دیتے ہیں۔ جیمز فرینکلن کا کہنا ہے کہ شکست کا ذمہ دار صرف ایک کھلاڑی کو قرار دینا ناانصافی ہوگا، جیسی نے بہترین کارکردگی دکھائی اور کیونکہ کرکٹ ایک ٹیم گیم ہے اور ان کے علاوہ دیگر کھلاڑی بھی تھے جو بعد میں میدان میں اترے اور ان کے پاس بھی موقع تھا کہ وہ ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرتے لیکن کوئی بھی ایسا نہ کر پایا اس لیے کسی فرد واحد کے کاندھوں پر پوری ذمہ داری ڈالنا مناسب نہیں ہے۔