پاکستان و بھارت کی کرکٹ ٹیمیں بمقابلہ ذرائع ابلاغ

2 1,007

اب سے چند سال قبل جس بحران سے پاکستانی ٹیم گزر رہی تھی، عین وہی صورتحال اس وقت سرحد کے اُس پار بھارت کو درپیش ہے جو عالمی کپ 2011ء کی یادگار فتح کے بعد سے مسلسل شکستوں کے بھنور میں ہے۔

دورۂ انگلستان میں ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش اور ایک روزہ سیریز میں بھی تمام مقابلوں میں ناکامی کے بعد اس کا دوسرا اہم دورہ آسٹریلیا کا تھا جہاں وہ پہلے سیریز میں 4-0 کی شکست سے دوچار ہوا اور اب سہ فریقی ایک روزہ ٹورنامنٹ میں بھی پے در پے ہار کے وار سہنے کے بعد بھارت کی حالت پتلی ہوچکی ہے اور اس کے ’بیسٹ آف تھری فائنل‘ میں پہنچنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔

'دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف': مصباح اور دھونی ایک ہی سوراخ سے ڈسے ہوئے کھلاڑی لگتے ہیں (تصویر: AFP)
'دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف': مصباح اور دھونی ایک ہی سوراخ سے ڈسے ہوئے کھلاڑی لگتے ہیں (تصویر: AFP)

لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت کو مسلسل شکستوں کے بعد جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان کو مسلسل و شاندار فتوحات کے بعد محض چند شکستوں پر ہی ایسا ہی ہنگامہ درپیش ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز پاکستان میں ذرائع ابلاغ میں رپورٹنگ کے شعبے سے وابستہ بیشتر اذہان ایسے ہیں جن میں صرف اور صرف سازشی نظریات ہی پنپتے ہیں یا پھر وہ یاریاں دوستیاں گانٹھنے اور اس کے بدلے میں مراعات و لفافے سمیٹنے کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ اب جب مقاصد ایسے عظیم الشان ہوں تو نتائج بھی تو ویسے ہی نکلیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے صحافی عقل کا استعمال کیے بغیر اپنے مذموم مقاصد کے لیے بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں۔ لازمی سی بات ہے کہ جس صحافی کی کسی کھلاڑی سے بہت گاڑھی چھنتی ہوگی تو وہ بھلا کیوں اُس کے خلاف خبر چلانے لگا؟ یا پھر پاکستان کرکٹ بورڈ میں بےضابطگیوں کی خبریں وہ صحافی کیوں دے گا جس کو ہر بین الاقوامی دورے میں بورڈ کے خرچے پر ٹیم کے ساتھ بھیجا جاتا ہے؟ ’ہاتھ آئی روزی پر کون لات مارتا ہے صاحب؟‘ 🙂

محسوس ہوتا ہے کہ تقریباً کچھ ایسا ہی حال واہگہ کے اُس پار بھی ہے جہاں بھارت کی یکے بعد دیگرے شکستوں کے بعد ’سازشی نظریات‘ کا ایک سیلاب ہے جس سے اخبارات کے صفحے کالے ہو رہے ہیں اور ان میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ اس وقت ٹیم انڈیا دھونی کی قیادت سے خوش نہیں ہے اور ان کی جگہ وریندر سہواگ کو کپتان بنانے کی خواہاں ہے۔

پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں، جہاں پہلے تو معاملہ صرف نئے کوچ تک محدود تھا، جس میں کئی صحافیوں و اداروں نے باقاعدہ مہم چلائی کہ کسی طرح محسن خان کو برقرار رکھے جانے کا پروانہ جاری ہو جائے لیکن جب دال نہ گلی تو اب اُن کا اگلا نشانہ مصباح الحق ہیں۔ جی ہاں! وہ کپتان جس نے اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل جیسے سانحے کے بعد پاکستان کو فتوحات کی راہ پر گامزن کیا بلکہ ٹیسٹ سیریز میں عالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف تاریخی فتح سے بھی ہمکنار کیا۔ لیکن اس کے بعد جیسے ہی ایک روزہ مقابلوں میں ٹیم شکستوں کی راہ پر گامزن ہونا شروع ہوئی، خواہشات خبروں کا روپ دھارنے لگیں اور اپنے اپنے پسندیدہ افراد کو سامنے لانے کے لیے ٹی وی چینلوں اور اخبارات نے خبروں کے منہ کھول دیے ہیں۔ یاد رہے کہ مصباح الحق نے انگلستان کے خلاف ایک روزہ سیریز میں شکست سے قبل صرف ایک ون ڈے میچ میں شکست کھائی تھی جبکہ ٹی ٹوئنٹی میں ملنے والی ہار بھی ان کی زیر قیادت پہلی شکست ہے۔

کیا مصباح الحق کو ون ڈے/ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی سے ہٹا دینا چاہیے؟


Loading ... Loading ...

گو کہ ذاتی حیثیت میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ انگلستان اور آسٹریلیا کی طرح پاکستان میں بھی ہر طرز کی کرکٹ کے لیے مختلف ٹیمیں ہونی چاہئیں اور ہر طرز میں صلاحیتوں کے حساب سے کھلاڑی کو قیادت سونپی جانی چاہیے لیکن محض چند میچز میں شکست کے بعد ٹیم یا کپتان پر طعن و تشنیع کے تیر برسانا ’دال میں کچھ کالے‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ موجودہ صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو نظر آتا ہے کہ اس وقت دو لابیاں شدت کے ساتھ سرگرم ہیں ایک شاہد آفریدی کی حامی لابی، جس کا کراچی میں بڑا اثر و رسوخ ہے اور خاص طور پر کئی کثیر القومی و قومی کاروباری ادارے بھی اس میں شامل ہیں کیونکہ شاہد آفریدی پاکستان میں اشتہارات کے لیے اہم ترین چہرہ ہیں۔ جبکہ دوسری جانب مصباح الحق کی مخالف لابی ہے جو اُن کی جگہ کسی کو بھی کپتان کی صورت میں دیکھنا چاہتی ہے خصوصاً ٹیم کے موجودہ نائب کپتان محمد حفیظ کو۔

تو جناب اس صورتحال میں دونوں ملکوں کے کپتان کچھ شاکی دکھائی دیتے ہیں اور دونوں نے ایک دو روز کے وقفے سے ذرائع ابلاغ کے کردار کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ مصباح الحق نے دبئی میں پریس کانفرنس میں کہا کہ ذرائع ابلاغ کے اپنے ’مقاصد‘ ہیں اور مطالبہ کیا کہ وہ اس طرح سے پاکستان کرکٹ کو غیر مستحکم نہ کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیسٹ سیریز میں شاندار فتح کے باوجود میں ذرائع ابلاغ کے سامنے مستقل کہتا رہا ہوں کہ ہمیں زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کے اپنے پس پردہ مقاصد ہیں اور وہ انہی کو پورا کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ مصباح الحق نے کہا کہ میں کسی فرد کا نام نہیں لینا چاہتا، لیکن آپ ذرائع ابلاغ پر آنے والی رپورٹوں سے خود اندازہ لگا سکتے ہیں، جہاں بجائے ٹیم کے کمزور پہلوؤں پر بات کرنے کے ڈرامائی تبدیلیوں کی بات کی جا رہی ہے جو کسی بھی طرح ٹیم کے مفاد میں نہیں ہے۔ انہی کھلاڑیوں کے ساتھ ہم نے 6 سیریز جیتی ہیں اور اگر ہم اپنی غلطیوں کے باعث ایک بہتر ٹیم کے خلاف ہارے ہیں تو ہماری حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے بجائے اس کے کہ سب کو نکال باہر کیا جائے۔ اگر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی مجوزہ تجاویز پر عمل درآمد کیا جائے اس کا مطلب ہوگا کہ عالمی کپ 2015ء تک چھ کپتان اور چھ مختلف ٹیمیں آزمائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سیریز میں شکست کے بعد کپتانوں اور ٹیم کی تبدیلی کے مطالبے ہر گز کرکٹ میں بہتری نہیں لا سکتے، آپ کو ایک مخصوص سطح تک کھلاڑیوں کی مدد کرنا ہوگی۔

اس جذباتی پریس کانفرنس کے اگلے ہی روز آسٹریلیا میں بھارتی کپتان مہندر سنگھ دھونی کی جانب سے بھی کچھ ایسی ہی صدا بلند کی جاتی ہے جن کا کہنا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی کہانیوں کے باوجود ٹیم میں کوئی اختلاف نہیں ہے، خصوصاً میرے اور وریندر سہواگ کے درمیان۔ گو کہ ان کے درمیان اختلافات کی یہ خبریں کئی ہفتوں سے گردش کر رہی ہيں لیکن چند روز قبل ہونے والی ایک اور کانفرنس کے دوران دھونی نے کہا تھا کہ چند کھلاڑی فیلڈنگ کے دوران سست ہیں، اور بلاشبہ ان کا اشارہ ٹیم کے ’بزرگ اراکین‘ کی جانب تھا۔ بس اسی کو ذرائع ابلاغ نے آڑے ہاتھوں لیا ہے اور ٹیم میں اختلافات کی فرضی داستانیں بھارت کے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔

اس کے بعد وریندر سہواگ کی پریس کانفرنس میں جس طرح ذرائع ابلاغ کے نمائندگان نے ان سے تابڑتوڑ سوالات کیے، وہ بہت ہی برا منظر تھا۔ حتیٰ کہ خود سہواگ بھی تنگ آ گئے۔ پہلے تو یہ سوالات کیے گئے کہ آپ کو دھونی کے تبصرے پر حیرت ہوئی؟ پھر یہ پوچھا گیا کہ آپ کے اور دھونی کے تعلقات کیسے ہیں؟ کیا آپ نے اس حوالے سے دھونی سے بات کی ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ، ٹنڈولکر اور گمبھیر فیلڈنگ میں کمزور ہیں؟ جس پر سہواگ کسی نہ کسی طرح جواب دیتے رہے لیکن ایک سوال پر انہوں نے یہ ضرور کہا کہ دھونی کپتان ہیں، ٹیم کے قائد ہیں، اگر وہ اور کوچ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کچھ وقفہ دیا جانا چاہیے تو اچھا ہے، مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

اب اس تمام ’رام کہانی‘ کے بعد بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک خصوصاً پاکستان میں کھلاڑیوں کو کس چومکھی جنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ خصوصاً قیادت کرنا تو انگریزی محاورے کے مصداق ’گرم آلو‘ پکڑنے جیسا ہوگا کہ ایک جانب ٹیم اراکین کے درمیان ایک اچھا تال میل قائم کرنا اور وہیں بورڈ کے نااہل افراد سے نمٹنا اور پھر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ان تابڑ توڑ حملوں سے بچنا۔ یہ سب اس صورتحال میں ہورہا ہے کہ جب پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ تین سال سے بند ہے اور قومی ٹیم کو اپنے تمام مقابلے بیرون ملک کھیلنے ہیں۔ مصباح الحق نے بطور کپتان گزشتہ ایک، ڈیڑھ سال میں جو کچھ کیا ہے، کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، وہ ایک عظیم کارنامہ ہے اور تاریخ اس کی شہادت دے گی۔ اس وقت بین الاقوامی سطح کے صحافی خاص طور پر برطانیہ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے تو اس امر کو تسلیم کیا ہے لیکن ہمارے نام نہاد دانشور مزاج صحافی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ بقول مصباح کے خود ’ان کے اپنے مفادات ہیں‘۔