[آج کا دن] آسٹریلیا سرفراز نواز کی ’ریورس سوئنگ‘ کا شکار ہو گیا

3 1,064

وسط مارچ 1979ء کی شام اور آسٹریلیا-پاکستان اولین ٹیسٹ کے آخری روز میزبان ٹیم کو فتح کے لیے صرف 77 رنز درکار تھے اور اس کی 7 وکٹیں باقی تھیں۔ 382 رنز کے ہدف کے تعاقب میں وہ 305 رنز بنا چکا تھا۔ کریز پر ایلن بارڈر سنچری کا سنگ میل عبور کر چکے تھے اور کم ہیوز تہرے ہندسے کی جانب رواں دواں تھے۔ بظاہر سب کچھ آسٹریلیا کی گرفت میں نظر آ رہا تھا اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس صورتحال میں بھی میچ پلٹا کھا سکتا ہے۔ لیکن مشتاق محمد کی زیر قیادت ٹیم جس میں عمران خان، جاوید میانداد، ظہیر عباس، ماجد خان، محسن خان، آصف اقبال، وسیم راجہ، سرفراز نواز اور وسیم باری جیسے عظیم کھلاڑی شامل تھے، اپنے ’غیر متزلزل یقین‘ کے باعث ایک تاریخی فتح سے ہمکنار ہوئی۔ جی ہاں! پاکستان نے سرفراز نواز کے کیریئر کی یادگار ترین کارکردگی کی بدولت آسٹریلیا کو 71 رنز سے شکست دی۔

آسٹریلیا کی آخری 7 وکٹیں محض 5 رنز کے اضافے سے گریں اور سب کے سب سرفراز نواز کے ہتھے چڑھے جن کی مختصر رن اپ کے ساتھ ریورس سوئنگ گیندوں کو کھیلنا آسٹریلین بلے بازوں کے لیے ایک بڑا معمہ بن گیا تھا۔ سرفراز نے یہ 7 وکٹیں محض ایک رن دے کر حاصل کیں جبکہ اننگز میں انہوں نے 86 رنز دے کر 9 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ان کے ہاتھ نہ آنے والی واحد وکٹ کپتان گراہم یالپ کی تھی جو رن آؤٹ ہوئے۔

اس تاریخی میچ کا آغاز آسٹریلیا کے کپتان گراہم یالپ کے ٹاس جیتنے اور پہلے گیند بازی کے فیصلے کے ساتھ ہوا۔ جو درست ترین فیصلہ ثابت ہوا اور روڈنی ہوگ اور ایلن ہرسٹ کی گیند بازی کے سامنے پاکستان کے بلے باز محض 196 رنز پر ڈھیر ہو گئے۔ مشتاق محمد کے 36 اور آخر میں سرفراز نواز اور عمران خان کے بالترتیب 35 اور 33 رنز ہی نمایاں رہے ورنہ کسی اور کی کارکردگی قابل ذکر نہیں ہے۔

جواب میں عمران خان کے سامنے آسٹریلوی بلے بازوں کا جمے رہنا مشکل تھا۔ سب سے پہلے تو اوپنر رن لینے کے دوران ایک دوسرے سے ٹکرائے جس کے باعث گراہم ووڈ کوزخمی حالت میں میدان چھوڑنا پڑا اور وہ نویں وکٹ گرنے تک دوبارہ واپس نہ آ سکے۔ ایلن بارڈر کو ٹھکانے لگانے کے بعد آسٹریلوی کپتان گراہم یالپ کی باری تھی، جو پاکستانی فیلڈرز کے ہاتھوں دو مرتبہ زندگیاں ملنے کا بھی فائدہ نہ اٹھا پائے، اور عمران خان کے ہاتھوں بولڈ ہونے والے دوسرے بلے باز بنے۔ آنے والے بلے بازوں میں ڈیو واٹمور (جی ہاں، موجودہ پاکستانی کوچ) نے 43 رنز کے ساتھ مزاحمت کی اور سب سے آخر میں آؤٹ ہوئے۔ ان سے قبل روڈنی ہوگ کے رن آؤٹ نے ایک تنازع پیدا کیا جب انہوں نے گیند کے ’ڈیڈ‘ ہونے سے قبل ہی اپنی کریز چھوڑی اور گیند وکٹوں پر لگنے کے باعث امپائر نے انہیں آؤٹ قرار دیا۔ ہوگ آپے سے باہر ہو گئے اور انہوں نے میدان سے باہر جاتے ہوئے بلّا مار کر وکٹیں گرا دیں۔ اس زمانے میں اسپورٹس مین اسپرٹ ہوا کرتی تھی،پاکستانی کپتان مشتاق محمد نے انہیں میدان میں واپس بلایا لیکن امپائر نے فیصلہ واپس لینے سے انکار کر دیا اور انہیں چلتے ہی بنی۔ بہرحال آسٹریلیا کی پہلی اننگز کا خاتمہ محض 168 رنز پر ہو گیا اور حیران کن طور پر پاکستان کو 28 رنز کی برتری حاصل ہوئی۔ عمران خان نے سب سے زیادہ 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ سرفراز نواز اور وسیم راجا کو 2،2 وکٹیں ملیں۔

دوسری اننگز میں پاکستان نے بلے بازوں کی عمدہ کارکردگی خصوصاً ماجد خان کی سنچری اور ظہیر عباس کی نصف سنچری کی بدولت 353 رنز کا بڑا مجموعہ حاصل کیا۔ ماجد اور ظہیر نے دوسری وکٹ پر 135 رنز جوڑ کو ایک اچھے مجموعے کی جانب سفر کی بنیاد رکھی۔ ماجد خان نے 16 چوکوں کی مدد سے اپنی ساتویں ٹیسٹ سنچری مکمل کی اور صرف تین گھنٹے 40 منٹ میں 157 گیندوں پر 108 رنز بنائے۔

چوتھے روز پاکستان نے اسکور میں مزید 74 رنز کا اضافہ کرنے کے بعد اور عمران خان کی صورت میں نویں وکٹ گرتے ہی اننگز ڈکلیئر کر دی اور آسٹریلیا کو 382 رنز کا بڑا ہدف دیا۔ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر اپنی فیلڈنگ کے ہاتھوں مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور اس مرتبہ اینڈریو ہلڈچ کو دو زندگیاں ملیں۔ 49 رنز کی افتتاحی شراکت اور بعد ازاں ایلن بارڈر اور کم ہیوز کے درمیان 177 رنز کی زبردست پارٹنرشپ نے آسٹریلیا کو لبِ بام پر پہنچا دیا۔ جارحانہ انداز اور پاکستانی فیلڈرز کی فیاضی ان کی اتنی طویل شراکت داری کا باعث بنی اور پاکستان میچ پر گرفت پانے کے بعد اسے گنوا رہا تھا حتیٰ کہ مشتاق محمد نے اپنا ’ترپ کا پتہ‘ پھینکا، ریورس سوئنگ کا مؤجد سرفراز نواز۔

چائے کے وقفے سے کچھ دیر قبل دوسری نئی گیند حاصل ہوتے ہی آسٹریلیا کے لیے مصیبت کھڑی ہو گئی۔ جیسے ہی ایلن بارڈر سرفراز کے ہاتھوں بولڈ ہوئے ، بلے بازوں کے پویلین آنے اور جانے کی قطار لگ گئی۔ سرفراز نواز کی نپی تلی اور ہوا میں اور ٹپہ پڑنے کے بعد گھومتی ہوئی گیندوں کا سامنا کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ سب سے پہلے زخمی ووڈ پہلی ہی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ دے بیٹھے، سلیپ بغیر کسی رن کا اضافہ کیے اپنی وکٹیں بکھیرتی دیکھ کر چلتے بنے، ہیوز مڈ آف پر ایک لالی کیچ تھما گئے، جس کے بعد سرفراز نے باقی تین بلے بازوں کو ایک رن بنانے کی بھی مہلت نہ دی اور پوری آسٹریلوی ٹیم 310 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

11 وکٹیں حاصل کرنے پر سرفراز نواز کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔