نوجوان ولیم سن میچ بچا گئے، فیلڈرز کی فیاضی جنوبی افریقہ کو لے ڈوبی

0 1,103

مہمان فیلڈرز کی فیاضی اور نوجوان کین ولیم سن کی بلے بازی کے جوہر نے جنوبی افریقہ کو ایک یقینی فتح سے محروم کر دیا، جو کلین سویپ کی توقعات کے ساتھ سیریز میں اترا تھا لیکن صرف 1-0 کے معمولی مارجن ہی سے جیت پایا اور عالمی درجہ بندی میں سرفہرست منصب حاصل نہ کر سکا۔ بیسن ریزرو، ویلنگٹن میں ہونے والے تیسرے و آخری ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ نے پہلی اننگز میں الویرو پیٹرسن اور ژاں پال دومنی کی سنچریوں کی بدولت 474 رنز بنا کر اور بعد ازاں نیوزی لینڈ کو صرف 275 پر ٹھکانے لگا کر فتح کی تمام تیاریاں کر لی تھیں لیکن بارش اور 83 رنز پر پانچ وکٹیں کھونے والے نیوزی لینڈ کے نوجوان ولیم سن کی 102 رنز کی ناقابل شکست اننگز نے اُن کے تمام تر منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔

کین ولیم سن کی ناقابل شکست سنچری جنوبی افریقہ کی راہ میں دیوار کی طرح حائل ہو گئي (تصویر: Getty Images)
کین ولیم سن کی ناقابل شکست سنچری جنوبی افریقہ کی راہ میں دیوار کی طرح حائل ہو گئي (تصویر: Getty Images)

جنوبی افریقہ نے دوسری اننگز 189 رنز تین کھلاڑی پر آخری روز کھانے کے وقفے سے قبل مکمل کی، جو اُس کی بہت بڑی غلطی تھی کیونکہ اس کی برتری ویسے ہی کافی زیادہ ہو چکی تھی اور اتنی تاخیر سے اننگز ڈکلیئر کرنے کا خمیازہ میچ گنوانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ گو کہ پروٹیز گیند بازوں نے آخری روز کھانے کے وقفے سے قبل ہی محض 26 پر نیوزی لینڈ کے 2 بلے بازوں کو ٹھکانے لگا دیا تھا لیکن ولیم سن کی 228 گیندوں پر مشتمل اننگز، جو ان کے کیریئر کی دوسری سنچری تھی، اور کروگر وان وائیک اور ڈوگ بریسویل کے ساتھ نے نیوزی لینڈ کے لیے میچ کو بچا لیا۔ آخری روز چائے کے وقفے تک بھی نیوزی لینڈ 5 وکٹوں کے نقصان پر محض 103 رنز بنا پایا تھا اور مقابلہ اس وقت بھی جنوبی افریقہ کی گرفت میں تھا لیکن آخری سیشن میں 37 اوورز تک کریز پر ٹھیر کر کین ولیم سن نے آخری سپاہی کا بھرپور کردار ادا کیا۔ انہیں جنوبی افریقی فیلڈرز کی فیاضی اور امپائر کی ناقص کارکردگی کا ساتھ بھی حاصل رہا تاہم آخری سیشن میں جہاں نیوزی لینڈ کو 37 اوورز مکمل کرنے تھے، میں وہ حریف گیند بازوں پر چھائے رہے اور انہیں کوئی موقع فراہم نہیں کیا۔

اس مہم میں ان کا بھرپور ساتھ دینے والے وان وائیک نے 80 گیندوں پر 39 اور بریسویل نے 59 گیندوں پر 20 رنز بنائے۔

389 رنز کے ناقابل عبور ہدف کے تعاقب میں نیوزی لینڈ کی آخری اننگز کا اختتام 6 وکٹوں پر 200 رنز کے ساتھ ہوا۔ تمام کی تمام وکٹیں مورنے مورکل نے حاصل کیں لیکن ان کی یہ شاندار کارکردگی بھی ٹیم کے کام نہ آ سکی۔

مورکل نے محض 23 رنز دے کر نیوزی لینڈ کے 6 بلے بازوں کو ٹھکانے لگایا۔ جس میں سے ڈینیل فلن، برینڈن میک کولم اور ڈینیل ویٹوری صفر کی ہزیمت سے دوچار ہوئے۔

جنوبی افریقہ جس کی فیلڈنگ خصوصاً کیچ پکڑنے کی صلاحیت کو دنیا میں سب سے بہتر مانا جاتا ہے، اس مقابلے میں بدترین فیلڈنگ کا مظاہرہ کیا اور آخری روز انتہائی نازک مواقع پر حریف بلے بازوں کو جی بھر کر مواقع دیے۔ نیوزی لینڈ کی اننگز کے ہیرو کین ولیم سن کو محض 10 کے انفرادی اسکور پر الویرو پیٹرسن نے گلی پر ایک موقع دیا جبکہ 22 کے اسکور پر ابراہم ڈی ولیئرز نے دوسری سلپ میں انہیں ایک اور زندگی بخشی۔ ڈین براؤنلی کو کپتان گریم اسمتھ کے کیچ ڈراپ کرنے سے فائدہ حاصل ہوا جبکہ ایک اور خوش قسمت بلے باز ڈوگ بریسویل تھے جنہیں بعد ازاں ڈی ولیئرز کے کیچ چھوڑنے سے نئی باری ملی۔

ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آخری سیشن میں نیوزی لینڈ کے بلے بازوں خصوصاً ولیم سن نے رج کر بیٹنگ کی اور تکنیک کا بھرپور استعمال کیا۔ انہوں نے حریف گیند بازوں کی کسی باہر اور اوپر جاتی ہوئی گیند کو نہیں چھیڑا اور ان کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔

قبل ازیں جنوبی افریقہ نے 199 رنز کی کافی سے بھی زیادہ برتری کے ساتھ دوسری اننگز کا مستحکم آغاز کیا لیکن اننگز کو تاخیر سے ڈکلیئر کرنے کے کپتان گریم اسمتھ کے فیصلے نے ہاتھوں میں آیا ہوا میچ نکال دیا۔ جنوبی افریقہ کی اوپننگ جوڑی نے دوسری اننگز میں 77 رنز کی ابتدائی رفاقت فراہم کی اور بعد ازاں ابراہم ڈی ولیئرز کے 68 رنز نے اسکور کو 189 تک پہنچا دیا جن کے آؤٹ ہوتے ہی جنوبی افریقہ نے اپنی اننگز کے خاتمے کا اعلان کیا اور میزبان نیوزی لینڈ کو فتح کے لیے 389 رنز کا ہدف دیا۔

آخری ٹیسٹ میں مایوس کن کارکردگی بھی جنوبی افریقہ کو سیریز جیتنے سے نہ روک سکی، کپتان گریم اسمتھ سیریز ٹرافی کے ساتھ (تصویر: Getty Images)
آخری ٹیسٹ میں مایوس کن کارکردگی بھی جنوبی افریقہ کو سیریز جیتنے سے نہ روک سکی، کپتان گریم اسمتھ سیریز ٹرافی کے ساتھ (تصویر: Getty Images)

حتمی ٹیسٹ کے پہلے روز نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے گیند بازی کا فیصلہ کیا تھا اور ڈوگ بریسویل ابتدا ہی میں گریم اسمتھ کو ٹھکانے لگانے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن اس کے بعد چار تیز گیند باز بھی جنوبی افریقہ کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کا سامنا نہ کر پائے۔ سب سے پہلے تو ہاشم آملہ اور الویرو پیرسن نے 93 رنز جوڑے اور اس کے بعد پیٹرسن اور ژاں پال دومنی نے تیسری وکٹ پر 200 جوڑ کر نیوزی لینڈ کو سخت پریشانی میں ڈال دیا۔ دوسرے روز بارش نے کھیل کو سخت متاثر کیا اور پورے دن میں محض 37 اوورز کا کھیل ممکن ہو سکا۔

تیسرے روز پیٹرسن نے 229 گیندوں پر اپنی تیسری سنچری مکمل کی جبکہ دومنی نے 180 گیندوں پر 13 چوکوں کی مدد سے 100 رنز مکمل کیے۔ دونوں کھلاڑیوں نے تیسری وکٹ پر 364 گیندوں پر 200 رنز جوڑے۔

جنوبی افریقہ نے تیسرے روز اپنی اننگز 474 رنز 9 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کی جس کے جواب میں نیوزی لینڈ نے تیسرے روز کے اختتام تک بغیر کسی وکٹ کے 65 رنز کا اضافہ کر لیا تاہم اگلے روز انہیں بھیانک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور نیوزی لینڈ ویرنن فلینڈر کی تباہ کن گیند بازی کے سامنے محض 275 رنز پر ڈھیر ہو گیا۔ فلینڈر نے محض 7 مقابلوں میں اپنی 50 ٹیسٹ وکٹیں مکمل کیں۔ نیوزی لینڈ 474 رنز کا مناسب جواب دے رہا تھا اور اسے 86 رنز کا عمدہ افتتاحی آغاز بھی ملا لیکن برینڈن میک کولم اور مارٹن گپٹل کی یکے بعد دیگرے وکٹیں گرنے کے بعد اسے دھچکا ضرور پہنچا لیکن پھر بھی یہ توقع نہ تھی کہ کپتان روز ٹیلر کے زخمی ہوتے ہی معاملہ اس قدر گمبھیر ہو جائے گا۔ جب 219 کے مجموعی اسکور پر ڈین براؤنلی کی صورت میں چوتھی وکٹ گری تو جنوبی افریقہ یکدم میچ پر حاوی ہو گیا۔ ان کی آخری 5 وکٹیں اسکور میں محض 33 رنز کا اضافہ کر سکیں۔ سب سے نمایاں اسکورر مارٹن گپٹل رہے جنہوں نے 59 رنز بنائے جبکہ ڈینیل فلن 45 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے۔ 242 رنز پر چار وکٹوں کے نقصان کے ساتھ کھیلنے والا نیوزی لینڈ صرف 275 رنز پر ڈھیر ہو گیا اور جنوبی افریقہ بہت ہی مضبوط پوزیشن میں آ گیا۔ فلینڈر نے سب سے زیادہ 6 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں ڈین اسٹین اور ایک مرچنٹ دے لانگے کو ملی۔

تاہم دو گیند بازوں کی کیریئر کی بہترین کارکردگیاں بھی جنوبی افریقہ کو فتح سے ہمکنار نہ کر پائیں اور فیلڈرز کی توقعات سے بدتر کارکردگی نے انہیں ایک مایوس کن نتیجے کے ساتھ وطن واپس لوٹنے پر مجبور کیا۔

مورنے مورکل کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا ۔