دورۂ سری لنکا کے لیے طلب کیا گیا تو مایوس نہیں کروں گا: خرم منظور

1 1,018

2010ء کا دورۂ آسٹریلیا پاکستان کے لیے ایک بھیانک خواب تھا۔ تمام ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں شکست نے پاکستان کرکٹ کے مستقبل پر بہت منفی اثرات مرتب کیے۔ کئی سینئر کھلاڑیوں کو پابندیوں اور جرمانوں کا سامنا کرنا پڑا، ٹیم کا شیرازہ بکھر گیا اور رہی سہی کسر بعد ازاں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پوری کر دی اور پاکستان کرکٹ تحت الثریٰ میں پہنچ گئی۔ دورۂ آسٹریلیا کا ایک اور منفی پہلو یہ تھا کہ آزمائے گئے نئے چہروں کو غلط وقت پر ٹیم میں شمولیت کی سزا بھگتنا پڑی۔ انہی میں کراچی سے تعلق رکھنے والے اوپنر خرم منظور بھی شامل تھے جو اب تک 7 ٹیسٹ اور اتنے ہی ایک روزہ میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور آسٹریلیا کے بدقسمت دورے کے بعد سے دوبارہ ملک کی جانب سے کھیلتے نہیں دکھائی دیے۔ انہیں 2007-08ء کے فرسٹ کلاس سیزن میں ایک ہزار سے زائد رنز بنانے کے بعد خرم منظور کو 7 ٹیسٹ اور 7 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلوں میں کھیلنے کا موقع ملا جس میں انہوں نے ٹیسٹ میں 29.36 کے اوسط سے 326 رنز بنائے جبکہ ایک روزہ میں 33.71 کے اوسط سے 236 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ٹیسٹ میں ان کا بہترین اسکور 93 اور ایک روزہ میں 83 رہا۔

خرم منظور 2010ء کے بدنصیب دورۂ آسٹریلیا میں قومی ٹیم کا حصہ تھے اور آخری مرتبہ سری لنکا کا دورہ کرنے والے پاکستانی دستے میں بھی شامل تھے (تصویر: Getty Images)
خرم منظور 2010ء کے بدنصیب دورۂ آسٹریلیا میں قومی ٹیم کا حصہ تھے اور آخری مرتبہ سری لنکا کا دورہ کرنے والے پاکستانی دستے میں بھی شامل تھے (تصویر: Getty Images)

تقریباً 26 سال کے اس نوجوان بلے باز نے ’کرک نامہ‘ سے خصوصی گفتگو میں اپنی مایوسی کا اظہار تو کیا ہی لیکن ساتھ ساتھ یہ عزم بھی دکھایا کہ اپنی سخت محنت اور ڈومیسٹک کرکٹ میں زبردست کارکردگی کے بل بوتے پر وہ جلد ایک مرتبہ پھر ملک کی نمائندگی کریں گے۔ دائیں ہاتھ سے بلے بازی کرنے والے خرم منظور رواں ڈومیسٹک فرسٹ کلاس سیزن میں تین سنچریوں اور ایک نصف سنچری کی بدولت 702 رنز بنا چکے ہیں جبکہ ایک روزہ کپ میں ایک سنچری اور ایک نصف سنچری کی بدولت 217 رنز بھی بنائے۔ ساتھ ساتھ ٹی ٹوئنٹی میں بھی ایک نصف سنچری بناکر سرفہرست 5 بلے بازوں میں جگہ حاصل کی ہے۔

ماضی میں پاکستان ’اے‘ اور پاکستان انڈر-19 کا حصہ رہنے والے خرم منظور کا کہنا تھا کہ قومی ٹیم سے باہر ہونے کے بعد میں نے اپنی خامیوں پر قابو پانے پر توجہ مرکوز رکھی، جس کے لیے میں نے سابق پاکستانی کپتان راشد لطیف کے ساتھ مل کر غور کیا۔ جبکہ ڈومیسٹک سیزن میں اپنی ٹیم نیشنل بینک کے کپتان کامران اکمل نے بھی میرا بھرپور ساتھ دیا، جس سے میں اپنی تکنیک کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف ڈومیسٹک سیزن میں اچھی کارکردگی دکھائی بلکہ گزشتہ سال پاکستان ’اے‘ کے دورۂ ویسٹ انڈیز میں تین سنچریاں جڑ کر اپنی مکمل اہلیت ثابت کی۔ خرم منظور کا کہنا تھا کہ ڈومیسٹک سیزن میں شاندار کارکردگی میں نیشنل بینک کے کوچ و منیجر ڈاکٹر جمیل کا بھی بہت اہم کردار ہے۔

خرم منظور نے کہا کہ انہیں پتہ ہے کہ پاکستان ٹیم میں واپسی کے لیے سخت محنت اور بھرپور فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے وہ ہمہ وقت کرکٹ سے جڑے رہتے ہیں، جہاں طویل ٹریننگ سیشن سمیت ڈومیسٹک سیزن میں بھرپور شرکت بھی اک منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستان ممکنہ دور پر اگلے چند ماہ میں سری لنکا کا دورہ کر سکتا ہے جہاں طویل اور محدود اوورز کی طرز میں دونوں ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی اور خرم منظور ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنہوں نے 2009ء میں پاکستان کے آخری دورۂ سری لنکا میں ملک کی نمائندگی کی تھی۔ اس سیریز کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے خرم منظور نے کہا کہ ایک موقع پر محمد یوسف کے ساتھ مل کر مشکل وقت میں پاکستان کے لیے جو اننگز کھیلیں وہ مجھے اب بھی یاد ہے اور اسی کی بدولت پاکستان میچ بچانے میں کامیاب ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہاں کی وکٹوں سے مجھے کافی حد تک واقفیت ہے اور ان وکٹوں پر میں بیٹنگ کرتے ہوئے کافی آسانی محسوس کی۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے اوپنر نے کہا کہ اگر اس مرتبہ سلیکشن ٹیم نے انہیں دورۂ سری لنکا کے لیے دستے میں شامل کیا تو وہ توقعات پر پورا اتریں گے اور مایوس نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک مستند اوپنر کی طرح رنز کے انبار لگانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے فیلڈنگ پر بھی بھرپور توجہ دی ہے اور ڈومیسٹک سیزن میں ان کی فیلڈنگ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

گزشتہ چند روز سے پاکستان میں ایک پریمیئر لیگ کے انعقاد کا بہت ہنگامہ برپا ہے، اس حوالے سے خرم منظور کا کہنا تھا کہ جس طرح پوری قوم پی پی ایل کا بے چینی سے انتظار کررہی ہے اسی طرح ہم بھی کرکٹ کے شیدائیوں کی طرح تہہ دل سے منتظر ہیں اور مجھے یقین ہے کہ چیئرمین ذکا اشرف اس مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے اور جلد پاکستان اپنی لیگ شروع کرے گا جو بھارتی اور بنگلہ دیشی پریمیئر لیگز سے کسی طور پر کم نہیں ہوگی۔

بین الاقوامی ٹیموں کی پاکستان آمد کے حوالے سے بھی خرم منظور نے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف کی پالیسیوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ ذکا اشرف پاکستان میں جلد بین الاقوامی کرکٹ کو واپس لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

خرم منظور 19 اپریل کو انگلستان روانہ ہوں گے جہاں وہ کلب کرکٹ میں حصہ لیں گے تاہم ان کا کہنا ہے کہ میرے لیے وطن کی نمائندگی سب سے اہم ہے، اس لیے اگر سلیکشن کمیٹی نے انہیں پاکستانی دستے میں شامل کیا تو وہ ملک کے لیے خدمات انجام دینے کو دستیاب ہوں گے۔