بنگلہ دیش کاانکار: کچھ قومیں احسانات یاد نہیں رکھتیں، توقیر ضیاء

5 1,046

پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) توقیر ضیاء نے بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کی پاکستان آمد کے فیصلے کو ملتوی کیے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ قومیں احسانات یاد نہیں رکھتیں، بنگلہ دیش کو ٹیسٹ اسٹیٹس دلانے اور بعد ازاں اسے بچانے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا لیکن افسوس کہ اس کا صلہ ویسا نہیں ملا۔

بنگلہ دیش کے دورۂ پاکستان سے انکار میں سب سے بڑا ہاتھ بھارت کا ہے: توقیر ضیاء
بنگلہ دیش کے دورۂ پاکستان سے انکار میں سب سے بڑا ہاتھ بھارت کا ہے: توقیر ضیاء

کرک نامہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے توقیر ضیاء نے کہا کہ میرے دور میں مسلسل ناقص کارکردگی کے با‏عث بنگلہ دیش کا ٹیسٹ اسٹیٹس خطرے میں پڑ گیا تھا لیکن پاکستان سمیت پانچ ملکوں کے کرکٹ بورڈز نے اس برے وقت میں بنگلہ دیش کا بھرپور ساتھ دیا اور بین الاقوامی کرکٹ کونسل میں اس کی مکمل رکنیت کو بچایا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت کے بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کے سربراہ نے نم آنکھوں کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کا شکریہ ادا کیا تھا اور کہا تھا کہ آپ نے بنگلہ دیشی کرکٹ کو بچا لیا، اگر اس کڑے وقت میں آپ ساتھ نہ دیتے تو بنگلہ دیش بہت بڑے خسارے کا شکار ہوتا۔

بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے پاکستان کی منتوں اور سماجتوں، بلکہ کئی اتار چڑھاؤ آنے کے بعد، بالآخر پاکستان آمد کا اعلان کیا۔ پاکستان میں، جو مارچ 2009ء سے بین الاقوامی کرکٹ سے محروم ہے، خوشی کے شادیانے بجائے گئے لیکن ایک دو روز ہی میں بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کی عدالت عالیہ نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے کرکٹ ٹیم کو پاکستان جانے سے روک دیا اور یوں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کی رونقیں بحال کرنے کے لیے کی جانے والی تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔

پاکستان کے دیگر سابق کھلاڑیوں کی طرح توقیر ضیاء بھی سمجھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے دورۂ پاکستان سے انکار میں سب سے بڑا ہاتھ بھارت کا تھا، جس نے دورے کی راہ میں بہت رکاوٹیں کھڑی کیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ میں بھارتی اثر و رسوخ کس حد تک سرایت کر چکا ہے اس کے اثرات ویسے ہی واضح طور پر نظر آتے ہیں، اس پر طرّہ شیخ حسینہ واجد کی پاکستان مخالف حکومت ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کی پاکستان آمد مزید مشکل ہو گئی۔ توقیر ضیاء نے کہا کہ بھارت اس وقت دنیائے کرکٹ میں پاکستان کو مکمل طور پر تنہا کرنا چاہتا ہے اور اس کا اثر و رسوخ قریبی ممالک بنگلہ دیش و سری لنکا کے کرکٹ بورڈز پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

جنرل توقیر ضیاء نے پاکستانی کرکٹ بورڈ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کٹھن وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور اس سلسلے میں حکومتی سطح پر اپنے روابط استعال کرے اور ایسے اقدامات کرے جس سے پوری دنیا میں پاکستان کا مثبت تاثر جائے۔ جنرل توقیر ضیاء کا کہنا تھا کہ آج نہ سہی کل سہی لیکن پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کو کوئی نہیں روک سکتا اور جلد ہی یہاں کے میدانوں کی رونقیں بحال ہوں گی۔

عدالتی حکم پر بنگلہ دیشی ٹیم کے دورۂ پاکستان کی منسوخی پر توقیر ضیاء نے بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کو مورد الزام ٹھیرانے کے بجائے ان سے اظہار ہمدردی کیا اور کہا کہ کہ کسی ٹیم کے غیر ملکی دورے کا انحصار محض بورڈ پر نہیں ہوتا بلکہ کئی حکومتی اداروں کی اجازت بھی درکار ہوتی ہے، اور اب چونکہ یہ ایک عدالتی معاملہ بن چکا ہے اس لیے مزید کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم پاکستان کو بنگلہ دیشی عدالت کے اس فیصلے کے بعد بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ سے اپنے روابط خراب نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ اس معاملے میں ان کا قصور بہت کم ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور ایشین کرکٹ کونسل سمیت ہر جگہ تعلقات پہلے ہی کی طرح دوستانہ رہنے چاہئیں۔

انٹرویو کے دوران سابق لیفٹیننٹ جنرل سے پاکستان پریمیئر لیگ کے حوالے سے بھی سوال کیا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ موجودہ چیئرمین کرکٹ بورڈ ذکا اشرف کا ہرچند یہ دعویٰ ہے کہ پاکستانی پریمیئر لیگ رواں سال ماہ اکتوبر تک شروع ہوجائے گی تاہم میں اپنے تجربے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ فی الحال اس طرز کی کرکٹ کے پاکستان میں آغاز کے آثار نظر نہیں آرہے۔ تاہم پھر بھی اگر کرکٹ بورڈ ایسی کرکٹ کا آغاز چاہتا ہے تو اس کا آغاز ایسا ہونا چاہیے کہ پوری دنیا دیکھے۔ میرا خیال ہے کہ اگر بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم پاکستان آجاتی تو یقینی طور پر یہ کامیاب ترین ایونٹ ثابت ہوتا لیکن اب صورتحال چونکہ ذرا مختلف ہے اس لیے جلد بازی کرنے کے بجائے ایسی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے جس سے یہ پریمیئر لیگ کا منصوبہ کامیاب ترین ثابت ہو۔

اس سوال پر کہ کیا اب پاکستان کرکٹ بورڈ کو دیگر ممالک کے بورڈ سے رابطے کرنا چاہئیں؟ توقیر ضیاء نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے جواب دیا کہ پاکستان میں سیکورٹی صورتحال کو جواز بنا کر جس طرح بنگلہ دیش نے پاکستان ٹیم بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، اگر زمبابوے یا کسی اور ملک کی کرکٹ ٹیم کی جانب سے پاکستان کو ایسا ہی جواب ملا تو ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کو کوششوں کو زبردست دھچکا پہنچے گا اس لیے میری دانست میں اس وقت نہایت صبر و تحمل سے کام کرنے اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور بورڈ عہدیداران اور سیکورٹی کے ذمہ دار اداروں کے درمیان بھرپور تعاون کے ذریعے موزوں ترین وقت کا تعین کیا جائے۔