کارکردگی قومی ٹیم میں ضرور واپس لائے گی: ذوالقرنین حیدر

2 1,066

وکٹوں کے پیچھے کامران اکمل کی رو بہ زوال کارکردگی کے باعث پاکستان کو وکٹوں کے پیچھے ایک متبادل کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ ابتدائی طور پر سرفراز احمد کو آزمایا گیا جو ڈومیسٹک سرکٹ میں بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کے باعث قومی کرکٹ ٹیم میں ذمہ داری پانے کے اہل تھے لیکن بین الاقوامی منظرنامے پر اپنی قابلیت ثابت نہ کرنے کے باعث پاکستان کی نظریں لاہور سے تعلق رکھنے والے ذوالقرنین حیدر پر پڑیں جنہوں نے 2010ء کے دورۂ انگلستان میں ایجبسٹن، برمنگھم میں اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں 88 رنز کی شاندار اننگز کھیل اور وکٹوں کے پیچھے بہتر کارکردگی پیش کر کے وکٹ کیپر کی تلاش کے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی تشویش کو کافی حد تک کم کر دیا۔ بعد ازاں انہیں جنوبی افریقہ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی سیریز میں بھی موقع دیا گیا لیکن چند مقابلوں میں اچھی کارکردگی دکھانے کے بعد ایک روز وہ اچانک ٹیم ہوٹل سے نکل کر برطانیہ پہنچ گئے۔ معلوم ہوا کہ جنوبی افریقہ کے خلاف چوتھے ایک روزہ مقابلے کے بعد انہیں نامعلوم افراد کی جانب سے قتل کی دھمکیاں دی گئیں جس پر انہیں برطانیہ میں پناہ لینا پڑی یہاں تک کہ حکومت پاکستان کی جانب سے یقین دہانی کے بعد وہ گزشتہ سال انہی ایام میں وطن واپس آگئے۔ لیکن اس 'حرکت' پر انہیں بورڈ کی جانب سے ایک سال تک زیر مشاہدہ رکھا گیا اور یہ دور آج یعنی 23 اپریل بروز سوموار ختم ہو رہا ہے۔

ذوالقرنین نے پہلے ہی ٹیسٹ میں اپنی اہلیت تو ثابت کی لیکن عرب امارات میں پیش آنے والے واقعے نے ان کے کیریئر کو شدید ٹھیس پہنچائی (تصویر: Getty Images)
ذوالقرنین نے پہلے ہی ٹیسٹ میں اپنی اہلیت تو ثابت کی لیکن عرب امارات میں پیش آنے والے واقعے نے ان کے کیریئر کو شدید ٹھیس پہنچائی (تصویر: Getty Images)

اس اہم موقع پر 'کرک نامہ' سے خصوصی گفتگو میں ذوالقرنین حیدر نے کہا کہ 'انڈر آبزرویشن پیریڈ' آج مکمل ہو رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس عرصے کے دوران میں نے قومی سرکٹ میں جیسی کارکردگی پیش کی ہے، اس کی بنیاد پر سلیکشن کمیٹی مجھے ضرور قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنائے گی۔ اس کٹھن دور میں میں نے صرف کرکٹ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور یہ سخت محنت ہی کا نتیجہ تھا کہ میں قومی ون ڈے کپ میں بہترین وکٹ کیپر قرار پایا۔ ہر چند کہ اس کے بعد مجھے لاہور کی جانب سے قومی ٹی ٹوئنٹی کپ میں شامل نہ کیا گیا لیکن میں دل گرفتہ ہونے کے بجائے اپنی وکٹ کیپنگ اور بیٹنگ کو مزید بہتر بنانے پر کام کرتا رہا ہوں اور میری کارکردگی سب کے سامنے ہے۔

جنوبی افریقہ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی سیریز کے دوران پیش آنے والے واقعے کے بارے میں ذوالقرنین حیدر نے کہا کہ امارات میں جو کچھ کیا، اس پر اب زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ انہوں نےکہا کہ میں نے ہمیشہ ملک کا نام روشن کرنے کے لیے محنت کی اور میری پہچان کرکٹ ہی ہے اس لیے اپنے کھیل کو بہتر سے بہتر کرنا چاہتا ہوں۔

آج یعنی 23 اپریل کو اپنی 26 ویں سالگرہ منانے والے ذوالقرنین حیدر کا کہنا تھا کہ اس ایک سال کے دوران انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا آغاز میں دھمکیاں بھی ملیں، لیکن اب ان دھمکیوں کا سلسلہ تھم چکا ہے اس دوران مجھے شدید مالی مشکلات بھی سہنی پڑیں، کچھ لوگوں نے اس دوران مجھے ورغلانے کی بھی کوشش کی لیکن میں ثابت قدم رہا اور اپنی توجہ کرکٹ پر مرکوز رکھی۔ اللہ کا کرم ہے کہ یہ کڑا وقت گزر گیا ہے، اب امید ہے کہ جس طرح میں نے قومی سطح پر کارکردگی پیش کی ہے اس کے بعد مجھے ایک مرتبہ پھر ملک کی نمائندگی کا موقع دیا جائے گا تاہم حتمی فیصلہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور سلیکٹرز کو کرنا ہے۔

2003ء کے انڈر 19 عالمی کپ فتح پاکستانی دستے کے رکن ذوالقرنین حیدر کا کہنا ہے کہ وہ فٹ رہنے کے لیے آن سیزن کی طرح آف سیزن میں بھی سخت پریکٹس کرتے ہیں اور وکٹوں کے پیچھے ان کی برق رفتاری اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگلے ماہ کے اواخر سے قومی کرکٹ ٹیم کے طے شدہ دورۂ سری لنکا کے حوالے سے ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ اگر مجھے پاکستانی اسکواڈ میں شامل کرلیا جاتا ہے تو میں آئی لینڈرز کے دیس میں اچھی پرفارمنس دکھاسکتا ہوں کیونکہ پاکستان 'اے' کے ساتھ میں سری لنکا کے متعدد دورے کرچکا ہوں جہاں میری کارکردگی بھی نمایاں رہی ہے اس لیے اگر قومی ٹیم کے ساتھ سری لنکا جاتا ہوں تو نہ صرف اپنی وکٹ کیپنگ بلکہ بیٹنگ کے ذریعے بھی اپنا انتخاب درست ثابت کروں گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرا مقصد پاکستان کیلئے زیادہ سے زیادہ کرکٹ کھیلنا ہے اس لیے مجھے بیٹنگ کے لیے جس بھی نمبر پر بھیجا جائے میں اس پر رضامند ہوں۔

اپنے اولین ٹیسٹ میں 88 رنز اسکور کرنے والے ذوالقرنین کا کہنا ہے کہ ان کی شدید خواہش ہے کہ وہ سابق آسٹریلیوی ٹیسٹ کرکٹر وکٹ کیپر بیٹسمین ایڈم گلکرسٹ سے کیپنگ کی کوچنگ لیں، اس سلسلے میں جب بھی انہیں موقع ملا وہ اس سے ضرور استفادہ کریں گے۔ذولقرنین حیدر کو انگلش کلب لیشنگز کی جانب سے بھی کھیلنے کی پیشکش ہوئی ہے، جس پر بات چیت ابھی جاری ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ ملکی کرکٹ کو اس پر ترجیح دینا چاہتے ہیں۔

وکٹ کیپر بیٹسمین کا کہنا ہے کہ دو ماہ قبل چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکا اشرف نے ایک ملاقات میں مجھے یقین دلایا تھا کہ میرے مسئلے پر نظر ڈالی جائے گی اب اپنا "آبزرونگ پیریڈ" ختم ہونے کے بعد میں ان سے دوبارہ ملنا چاہتا ہوں اور جلد ملاقات کرکے اپیل کروں گا وہ میرے کرکٹ کیریئر کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔

ذوالقرنین حیدر کا کہنا تھا کہ پوری قوم کی طرح انہیں بھی بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کی پاکستان آمد موخر ہونے پر افسوس ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ جس طرح چیئرمین کرکٹ بورڈ ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کو واپس لانے کے لیے کوششیں کررہے ہیں، اس سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی جلد ممکن ہوگی۔