آفریدی خود کو قیادت کے لیے پیش کرے: محسن خان

0 1,053

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کوچ و چیف سلیکٹر محسن حسن خان، جنہوں نے ایک طویل عرصہ کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کے ساتھ گزارا ہے، کا ماننا ہے کہ جس طرح ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ قریب آتا جارہا ہے اس کے لیے پاکستان کو نوجوان اور مکمل طور پر فٹ کپتان درکار ہے اور فی زمانہ شاہد آفریدی ایسے کھلاڑی ہیں جو مختصر طرز کی کرکٹ میں قومی ٹیم کی زیادہ بہتر انداز میں قیادت کرسکتے ہیں۔ اور میرا شاہد کو مشورہ ہے کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ ٹی ٹوئنٹی دستے کی قیادت کے لیے آفریدی کو موزوں سمجھتا ہے، تو انہیں بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں خود کو کپتانی کے لیے دستیاب کردینا چاہیے۔

تجربہ کار کے بجائے فٹ کھلاڑیوں کی شمولیت کو ترجیح دی جائے: سابق کوچ و چیف سلیکٹر (تصویر: Getty Images)
تجربہ کار کے بجائے فٹ کھلاڑیوں کی شمولیت کو ترجیح دی جائے: سابق کوچ و چیف سلیکٹر (تصویر: Getty Images)

سوموار کو کرک نامہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ اوپنر اور کوچ محسن خان نے کہا کہ پاکستان کے پاس فی زمانہ اتنے زیادہ وسائل نہیں ہیں کہ وہ تینوں طرز کی کرکٹ کے لیے الگ الگ ٹیمیں بناسکے، ایسا صرف انگلستان، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا ہی کرسکتے ہیں کیونکہ ان ممالک کے ڈومیسٹک ڈھانچے اتنے زیادہ مضبوط ہیں کہ ان کے پاس متبادل کھلاڑیوں کی طویل قطاریں ہوتی ہیں، پاکستان کو اگر تینوں طرز کی الگ ٹیمیں بنانی ہیں تو اسے اپنا ڈومیسٹک ڈھانچہ مضبوط کرنا ہوگا، بصورت دیگر یہی سمجھا جائے گا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ چھت بنانے کی تو سوچ رہا ہے لیکن اس کی توجہ بنیادوں پر نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس جتنے وسائل ہیں ان میں صرف وقت کی ضرورت کے پیش نظر محدود طرز کی کرکٹ یعنی ٹی ٹوئنٹی کے لیے الگ ٹیم بنائی جانی چاہیے، جس میں نوجوان اور مکمل طور پر فٹ کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے اور اس کے لیے شعیب ملک، شاہد آفریدی اور محمد حفیظ جیسے فٹ کھلاڑی ایک مثال ہیں۔

ٹیسٹ فارمیٹ کے لیے قومی ٹیم میں سینئر کھلاڑیوں کی واپسی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر محسن حسن خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں چیف سلیکٹر یا ہیڈ کوچ دونوں حیثیتوں سے میری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان کھلاڑیوں کو موقع دیا جائے تاکہ ہمارے پاس متبادل کھلاڑیوں موجود ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے دور میں پاکستان کے پاس چار سے پانچ ایسے نوجوان کھلاڑی ٹیم کا حصہ بنے جو اب ٹیم کی ضرورت بن چکے ہیں۔ میری حکمت عملی یہ تھی کہ عمر گل، یونس خان اور مصباح الحق جو ملک کے لیے کافی کرکٹ کھیل چکے ہیں اور سینئر بھی ہیں ان کے متبادل ابھی سے تیار کروں۔ یہی وجہ ہے کہ یونس اور مصباح کو پتہ تھا کہ اگر ہم نے دو اننگز بھی بری کھیل لیں تو ہمارے لیے مشکل ہوجائے گی اسی لیے وہ خود کو مکمل فٹ رکھتے تھے اور ایک فٹ کھلاڑی ہی لمبی اننگز کھیل اور طویل اسپیل کرا سکتا ہے اور ایسا ہی کھلاڑی مکمل فیلڈنگ بھی کرسکتا ہے۔ اگر ایک کھلاڑی چاہے اس کا جتنا بھی تجربہ ہو اس کے پاس فٹنس نہیں ہے تو وہ زیادہ دیر وکٹ پر نہیں رک سکتا۔ اس لیے سلیکشن کمیٹی کو میرا مشورہ ہے کہ وہ ایسے فٹ کھلاڑیوں کو اسکواڈ کا حصہ بنائیں جو تمام اوورز فیلڈنگ کرسکیں، بڑے ناموں کے بجائے فٹ کھلاڑیوں کو آزمایا جائے۔

غیر ملکی کوچز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے محسن خان کا کہنا تھا کہ اگر میں چھ ماہ اور کرکٹ بورڈ کے ساتھ رہتا، تو چیئرمین بورڈ کو درخواست کرتا کہ مجھے آسٹریلین یا جنوبی افریقی فیلڈنگ کوچ اور ٹرینر دیا جائے جس سے میں یہ کام لیتا کہ وہ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے 20 سے 25 کوچز کو بھی ٹریننگ دیں تاکہ کچھ عرصے میں پاکستان کے پاس اپنے جدید کوچز دستیاب ہوں اور پھر ان سے ایسا سائیکل بنتا کہ پاکستان کو دوبارہ بیرون ممالک کے کوچز کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔

پاکستان پریمیئر لیگ کے حوالے سے محسن حسن خان نے کہا کہ اگر کوئی پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے، تو پی پی ایل کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حال ہی میں فیصل آباد میں ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ ہوا تھا، جس کے ہر میچ میں اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا، اگر عوام کو ہی دکھانا ہے تو میرے خیال میں ڈومیسٹک کرکٹ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگر باہر سے دوسرے درجے کے کرکٹرز بلوانے کا تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کو حالات کی بہتری کے لیے تھوڑا سا انتظار کر لینا چاہیے آسٹریلیا، انگلستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کو ہدف پر رکھنا چاہیے کیونکہ انہی کے دورے کے نتیجے میں پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی ممکن ہوسکتی ہے۔

انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں اور پریمیئر لیگ طرز کی کرکٹ سے یقینی طور پر پاکستان کو تب ہی فائدہ ہوگا جب یہ اپنے ملک میں کھیلی جائے اور اس میں دنیائے کرکٹ کے سرفہرست کھلاڑی شامل ہوں، لیکن اگر جلد بازی میں ہم دوسرے درجے کے کرکٹرز کو لیگ میں مدعو کریں گے تو اس کا ملک اور اس کی کرکٹ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اگر اس لیگ کا انعقاد ہی کسی اور سرزمین پر ہوا، تو اس سے نہ صرف پاکستانی شائقین کرکٹ کو شدید مایوسی ہوگی بلکہ ملکی کرکٹ کو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ جس طرح انڈین یا بنگلہ دیشی پریمیئر لیگ کی ہر ٹیم میں پانچ سے چھ وہاں کے مقامی کھلاڑی ہوتے ہیں اگر ہماری لیگ نیوٹرل گراؤنڈز پر ہوئی تو وسائل کی کمی کے باعث پاکستان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو جلد بازی سے کام لینے کے بجائے دور اندیشی سے کام لینا ہوگا اور مدنظر رکھنا چاہیے کہ جس طرح جنوبی افریقہ 22 سال تک انٹرنیشنل کرکٹ سے باہر رہا لیکن اس نے اس دوران ہمت ہارنے کے بجائے اپنی مقامی کرکٹ کو اتنا زیادہ مضبوط کرلیا کہ جب دو دہائیوں تک باہر رہنے کے بعد وہ بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی آیا تو عالمی کپ کے سیمی فائنل تک جا پہنچا۔ الحمد للہ پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ میں تو ہے اگر ملک میں کرکٹ نہیں ہے تو کیا ہوا، جلد ہمارے میدان بھی انٹرنیشنل کرکٹ کی میزبانی کریں گے۔ یہاں بھی میں ایک مرتبہ پھر کہنا چاہوں گا کہ پی سی بی ایشیائی ممالک کے بجائے جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور انگلستان کی ٹیموں پر توجہ رکھے کرے اور پاکستان پریمیئر لیگ میں ان کے سرفہرست کھلاڑیوں کی شمولیت ہی اس ایونٹ کی کامیابی کی ضامن ہوگی۔

آخر میں محسن حسن خان نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے، میں بورڈ کے جس عہدے پر بھی فائز رہا، اس پر بہترین خدمات سرانجام دیں اور اللہ نے جس طرح مجھے عزت دی ہے وہ پاکستان کے کسی کوچ کے حصے میں آج تک نہیں آئی، مستقبل میں بھی پاکستان کرکٹ کو وہ سب لوٹانے کے لیے تیار ہوں جو اس ملک کی کرکٹ نے مجھے دیا ہے۔