سری لنکا پاکستانی اسپنرز سے خبردار، سخت مقابلے کا متمنی

0 1,020

دنیائے کرکٹ میں بڑے بڑے برجوں کو گرانے والے پاکستانی اسپنرز سے اب سب ٹیمیں خبردار نظر آ رہی ہیں اور اب جبکہ پاکستان کا دستہ سری لنکا جانے کے لیے پر تول رہا ہے، میزبان ٹیم پاکستان کے گیند بازوں خصوصاً اسپنرز سے نمٹنے کی حکمت عملیاں ترتیب دیتی نظر آ رہی ہے۔ سری لنکا کرکٹ کے چیئرمین سلیکٹرز اشانتھا ڈی میل نے اپنے بلے بازوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ پاکستانی اسپنرز کے حوالے سے چوکنے رہیں کیونکہ وہ ہمارے اسپنرز سے کہیں زیادہ اعلیٰ درجے کے باؤلر ہیں۔

سعید اجمل اور عبد الرحمن اس وقت دنیا کے 10 بہترین گیند بازوں میں شامل ہیں (تصویر: AFP)
سعید اجمل اور عبد الرحمن اس وقت دنیا کے 10 بہترین گیند بازوں میں شامل ہیں (تصویر: AFP)

پاکستان کے سرفہرست اسپنرز سعید اجمل اور عبد الرحمن نے پاکستان کی حالیہ فتوحات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور دونوں نے عالمی نمبر ایک انگلستان کے خلاف پاکستان کی 3-0 کی یادگار فتح میں 43 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس وقت گیند بازوں کی عالمی درجہ بندی میں سرفہرست 10 میں شامل دونوں گیند باز دنیا کے بہترین اسپنرز میں شمار ہوتے ہیں جبکہ سعید اجمل کو اس وقت بھی عالمی نمبر دو ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال سری لنکا کے خلاف عرب امارات ہی میں کھیلی گئی سیریز میں سب سے زیادہ یعنی 18 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

معروف ویب سائٹ ’کرک انفو‘ کے مطابق سری لنکا کے چیئرمین سلیکٹرز کا کہنا ہے کہ ”پاکستانی ٹیم کو ایک اور زاویے سے برتری حاصل ہے کہ انہیں ایسے بلے باز میسر ہیں جو کارآمد گیند باز بھی ہیں جیسا کہ محمد حفیظ، جو آف بریک باؤلنگ کر سکتے ہیں۔ یوں اُن کے باؤلنگ اٹیک میں تنوع اور ٹیم میں توازن موجود ہے۔ اُن کے تیز باؤلر ریورس سوئنگ پر مہارت رکھتے ہیں جو ہمارے گیند بازوں کے لیے ایک اور پریشان کن معاملہ ہے۔ وسیم اکرم اور وقار یونس کے زمانے سے پاکستان نے ریورس سوئنگ کے فن میں مہارت حاصل کر رکھی ہے اور عمر گل اور جنید خان پرانی گیند کے ساتھ ریورس سوئنگ پر خاصا عبور رکھتے ہیں۔“ ڈی میل نے، جو خود ماضی میں تیز باؤلر رہ چکے ہیں، کہا کہ سری لنکا کے تیز گیند بازوں کو ریورس سوئنگ کے فن میں مہارت حاصل کرنا ہوگی، جس پر عبور کے لیے کافی مشق کی ضرورت ہے۔

ہوم گراؤنڈ پر آخری سیریز، جس میں انگلستان سری لنکا کے مدمقابل تھا، کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر سری لنکا جیتنا چاہتا ہے تو اس کے بلے بازوں کو پہلی اننگز میں 400 سے زائد کا مجموعہ اکٹھا کرنا ہوگا۔ انگلستان کے خلاف کسی اننگز میں سب سے زیادہ اسکور 318 رنز تھا اور کولمبو ٹیسٹ میں تو وہ 300 رنز کا مجموعہ بھی حاصل نہ کر پائے۔

کمار سنگاکارا، مہیلا جے وردھنے اور تھیلان سماراویرا کا حوالہ دیتے ہوئے ڈی میل نے کہا کہ ”اچھا مجموعہ حاصل کرنے کے لیے سرفہرست پانچ میں سے کم از کم تین بلے بازوں کو بڑا اسکور بنانا ہوگا ۔“ یہ تینوں بلے باز ٹیسٹ کرکٹ میں مجموعی طور پر 25 ہزار سے زائد رنز اور 73 سنچریاں بنا چکے ہیں۔ ڈی میل نے تسلیم کیا کہ مڈل آرڈر ابتدائی بلے بازوں کی ناکامی کی وجہ سے دباؤ میں آیا ہے۔ سری لنکا نے جنوبی افریقہ اور انگلستان کے خلاف سیریز میں اوپنرز کی حیثيت سے تلکارتنے دلشان کے ساتھ تھارنگا پرناوتنا اور لاہیرو تھریمانے کو آزمایا لیکن اس کردار میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے گیند اتنے زیادہ موثر نہیں ہیں۔ ٹیسٹ مقابلہ جیتنے کے لیے آپ کو 20 وکٹیں درکار ہوتی ہیں۔ اور جہاں تک میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے تیز گیند باز آغاز تو 135 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار کی گیندوں کے ساتھ کرتے ہیں لیکن جب دوسرے اسپیل کے لیے آتے ہیں تو ان کی رفتار دس کلومیٹر فی گھنٹہ تک گھٹ چکی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی لائن اپ میں شامل تمام گیند بازوں کو وکٹیں حاصل کرنی چاہئیں۔

پاکستان کے خلاف ایک سخت ٹیسٹ سیریز کی پیش گوئی کرتے ہوئے ڈی میل نے کہا کہ پچیں کلیدی کردار ادا کریں گی۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ہمیں اچھی وکٹیں دیکھنے کو ملیں گی جو کچھ اچھال (باؤنس) کی بھی حامل ہوں گی۔ ہم نے سست اور کم اچھال والی وکٹیں بنائی ہیں اور یوں میچز ہارے ہیں۔ کولمبو میں، جہاں انگلستان کے ہاتھوں سری لنکا کو شکست ہوئی تھی، ایک سست اور دھیمی وکٹ ہی تھی۔

ایک روزہ اور ٹیسٹ سیریز کے آغاز سے قبل پاکستان اور سری لنکا کے درمیان دو ٹی ٹوئنٹی مقابلےکھیلے جائیں گے اور ڈی میل کا کہنا ہے کہ سری لنکا نے ہمبنٹوٹا میں ہونے والے دونوں مقابلوں کے لیے 14 رکنی دستہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کو مدنظر رکھتے ہوئے منتخب کیا ہے جو رواں سال ستمبر میں سری لنکا ہی میں ہوگا۔