[یاد ماضی] گاوسکر کی ’گھونگھا چال‘

6 1,116

اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ایک روزہ طرز کی کرکٹ کو نگلے جا رہی ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا کہ کھلاڑیوں کا ذہن محدود اوورز میں کھیلنے کو قبول ہی نہ کرتا تھا اور اس کی سب سے عمدہ مثال عالمی کپ 1975ء کا افتتاحی مقابلہ تھا جس میں 7 جون کو انگلستان اور بھارت آمنے سامنے ہوئے تھے۔

یہ عالمی کپ دراصل ایک روزہ کرکٹ کو مقبول بنانے کے لیے پہلا قدم تھا اور دنیا بھر کی بہترین ٹیموں کو طلب کر کے دراصل بنیاد رکھی گئی کہ آئندہ مختصر طرز کی کرکٹ کھیل کی تاریخ میں اہم کردار ادا کرے گی لیکن بھارت کے بلے بازوں خصوصاً سنیل گاوسکر نے پہلے ہی مقابلے میں جس طرح کی بلے بازی کی اس نے پاکستان کے مدثر نذر کی مشہور زمانہ ’کچھوا چال‘ کو بھی شرما دیا اور ہماری نظر میں وہ نئی اصطلاح متعارف کروانے کے حقدار تھے یعنی ’گھونگھا چال‘۔

اس زمانے میں ایک روزہ مقابلے 60 اوورز فی اننگز کے ہوا کرتے تھے اور انگلستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ڈینس ایمس کے شاندار 137 رنز کی بدولت محض 4 وکٹوں کے نقصان پر 334 کا زبردست مجموعہ اکٹھا کیا۔ ابتدا میں محض 15 رنز پر تین وکٹیں گنوا بیٹھنے کے باوجود ایمس اور بعد ازاں کیتھ فلیچر نے 68 رنز کی کارآمد اننگز کھیلی ۔ ان دونوں کے علاوہ کرس اولڈ کی 30 گیندوں پر 2 چھکوں اور 4 چوکوں کی مدد سے بنائی گئی ناقابل شکست نصف سنچری نے مقابلہ بھارت کی پہنچ سے کہیں دور کر دیا اور بھارت کو 335 رنز کا ایک مشکل ہدف ملا۔

جواب میں بھارت نے آغاز ہی سے جو حکمت عملی اپنائی، اس سے لگتا تھا کہ وہ ایک روزہ کرکٹ کی الف بے بھی نہیں جانتے خصوصاً سنیل نے جس طرح کا کھیل پیش کیا وہ ماہرین حتیٰ کہ شائقین کرکٹ کی بھی سمجھ سے باہر تھا۔ گاوسکر اوپنر کی حیثیت سے میدان میں آئے اور پورے 60 اوورز کریز پر موجود رہے لیکن 174 گیندیں کھیل کر صرف ناقابل شکست 34 رنز بنا کر پویلین لوٹے اور بھارت کی شکست میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ بھی کسی کھلاڑی کے انداز سے ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ مقابلہ جیتنے کے لیے کھیل رہے ہیں بلکہ ایسا ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اسے ٹیسٹ مقابلہ سمجھ رہے ہیں۔

سنیل گاوسکر کی اس اننگز کے دوران معاملہ اس حد تک بگڑ گیا کہ چند بھارتی تماشائی حفاظتی حصار کو توڑ کو میدان میں داخل ہو گئے اور سنیل گاوسکر اور برجیش پٹیل کو پیر پکڑ کر کہا کہ بھگوان کے لیے رنز بنالو لیکن جناب وہ کہاں ماننے والے تھے۔ ٹس سے مس نہ ہوئے اور جب 60 اوورز تمام ہوئے تو بھارت کا اسکور 3 وکٹوں کے نقصان کے ساتھ محض 132 رنز تھا یعنی کہ 202 رنز کی کراری شکست۔

سنیل گاوسکر کی یہ اننگز بلاشبہ ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کی متنازع ترین اننگز تھی بلکہ اگر اسے خودکش حملہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا لیکن بدقسمتی سے اس وقت یہ اصطلاح رائج نہ تھی۔

گو کہ گاوسکر نے اس اننگز کے حوالے سے اُس وقت تو منہ سے ایک لفظ نہیں نکالا لیکن کئی سال بعد بھی صرف یہی کہا کہ یہ ان کے کیریئر کی بدترین اننگز تھی اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کی کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتے۔ البتہ انہوں نے ایک اور انکشاف کیا کہ وہ اننگز کی دوسری گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ تھے اور یہ تک سوچا کہ انہیں خود ہی کریز چھوڑ کر چلے جانا چاہیے کیونکہ وہ آؤٹ ہوئے ہیں لیکن جب کسی نے اپیل ہی نہیں کی تو انہوں نے بھی واپس جانا مناسب نہیں سمجھا۔

لیکن اُس وقت ٹیم کے مینیجر جی ایس رام چند نے کہا تھا کہ گاوسکر نے سمجھ لیا تھا کہ انگلستان کا دیا گیا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا اس لیے انہوں نے اس موقع کو بیٹنگ کی مشق کے لیے استعمال کیا۔ گو کہ میں اس حکمت عملی سے متفق نہیں لیکن ان کے خلاف انضباطی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

خیر، افواہوں کو پیدا ہونے سے کون روک سکتا تھا؟ کسی نے کہا کہ گاوسکر ٹیم سلیکشن پر مطمئن نہیں تھے، اس لیے احتجاجاً یہ حکمت عملی اپنائی تو کچھ کا کہنا تھا کہ وہ سرینواس وینکٹ راگھون کی بطور کپتان تقرری سے خوش نہ تھے۔

بعد ازاں نہ صرف انگلش بلکہ بھارتی ذرائع ابلاغ نے سنیل گاوسکر کے خوب کان کھینچے۔ یہ تک کہا گیا کہ بھارتی کپتان کو اننگز کے درمیان ہی گاوسکر کو میدان سے واپس بلا لینا چاہیے تھا۔ جبکہ کسی نے کہا کہ گاوسکر کو عالمی کپ کے لیے ایک لاکھ پاؤنڈز کی خطیر اسپانسر شپ اور 19 ہزار پاؤنڈز سے زائد کے ٹکٹ خرید کر میدان میں مقابلہ دیکھنے والے 16 ہزار سے زائد تماشائیوں کو مایوس کرنے کا حق کسی نے نہیں دیا۔

بہرحال، کچھ ہی عرصہ بعد یہی گاوسکر تھے جو 1983ء میں عالمی کپ جیتنے والے بھارتی دستے کا حصہ تھے اور بھارت کی ایک تاریخی جیت میں اپنا نام دیکھ کر امر ہو گئے لیکن 1975ء کے عالمی کپ کی یہ اننگز ان کےکیریئر پر ایک بدنما داغ ہے۔