غیر ملکی کوچ اور برصغیر، مقامی کوچ کو ترجیح کیوں نہیں دی جاتی؟

4 1,027

بیسویں صدی میں جن کھیلوں نےانتہائی تیزی سے ترقی کی ہے ان میں کرکٹ بھی شامل ہے۔ ابتداء میں صرف انگلستان اور آسٹریلیا تک محدود کرکٹ کھیل افریقہ سے ہوتا ہوا برصغیر میں داخل ہوا جہاں اس کھیل کو مذہب کی طرح پوجا گیا۔ برصغیر پاک و ہند، سری لنکا، اور بنگلہ دیش میں جنون کی حد تک اس کھیل سے محبت کی جاتی ہے، ویسے تو ان ممالک کی ثقافت میں بہت ساری چیزیں ہیں جو ملتی جلتی ہیں لیکن ان میں واضح نظر آنے والی مشترک چیز شام کے وقت ان کے گاؤں اور شہروں کےگلی محلوں میں بچے کرکٹ کھیلتے ہوئے ضرور نظر آئیں گے۔ برصغیر میں کرکٹ سے جنون کی حد تک محبت نے کرکٹ کو بے پناہ ترقی کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے اور اس کے ساتھ کھیل کو تاریخ کے عظیم ترین کھلاڑی دیے ہیں۔ پچھلی تین چار دہاہیوں کو ہی دیکھا جائے تو سنیل گاوسکر، سچن تنڈولکر، کپیل دیو، ظہیرعباس، جاویدمیانداد، عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس اور متیاہ مرلی دھرن جیسے عظیم کرکٹرز نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے کرکٹ کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے۔

کوچنگ کے لیے مایہ ناز اور تجربہ کار کرکٹر ہونا کافی نہیں، بلکہ ان انتظامی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے جو اس عہدے کے لیے درکار ہیں (تصویر: AFP)
کوچنگ کے لیے مایہ ناز اور تجربہ کار کرکٹر ہونا کافی نہیں، بلکہ ان انتظامی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے جو اس عہدے کے لیے درکار ہیں (تصویر: AFP)

لیکن آخر وہ کیا وجہ ہے کہ اتنے عظیم کرکٹرز پیدا کرنے والے ملک جب بھی اپنی ٹیم کے لیے کوچ کا انتخاب کرتے ہیں تو ان کی نظرِ انتخاب غیرملکی پر ہی پڑتی ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ ممالک عظیم کھلاڑی تو پیدا کرتےہیں لیکن کرکٹ کھیل کو بہترین منتظم دینے میں ناکام ہیں؟ پاکستان کی بات کریں تو جو عام تاثر پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے کھلاڑی دیسی کوچ کے ساتھ پیشہ ورانہ انداز میں کام نہیں کرسکتے، اور کوچ کی وجہ سے ٹیم میں گروپ بندی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ بات ناقابل تردید ہے، کیونکہ بدقسمتی سے یہ لت ہمارے سماج میں رچی بسی ہوئی ہے کہ جیسے ہی دیسی بھائی اپنا باس بن گیا تو ایک گروہ اس کی چاپلوسی پر لگ جائے گا، اور دوسرا گروہ جسے چاپلوسی قبول نہیں وہ اس کی ٹانگ کھینچنے پر لگ جائے گا۔ پھر یہ تو پیشہ ورانہ کرکٹ ٹیم کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے بچپن میں اسکول میں جس بیچارے کو مانیٹر کی ذمہ داری مل جاتی اس کی شامت آجاتی۔ اس سے ڈھاڈے لڑکے اُسے دھمکی دیتے کہ اگر ماسٹر سے ہماری شکایت کی تو تمہاری خیر نہیں، اور جو اس سے لسے ہوتے وہ اس کے نازنخرے اٹھاتے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات کہ پاکستانی کوچ کی وجہ سے ٹیم میں گروپ بندی ہوجاتی ہے ازخود ثابت کرتی ہے کہ تمام پاکستانی کوچ پیشے کے لحاظ سے ٹیم کی انتظامیہ کی ذمہ داری کے لیے اہل نہیں ہیں۔ اوراس کی وجہ ہے انہوں نے ٹیم کی کوچنگ کی تربیت ہی نہیں لی ہے۔ اور دکھ کی بات کہ سابق کوچز جو اپنے وقت کے مایہ ناز کھلاڑی تھے سمجھتے ہیں انہیں ایسی کوچنگ کی تربیت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور میرے مطابق یہی سب سے اہم ترین وجہ ہے کہ پاکستانی کوچ ٹیم پاکستان کی کامیابی سے کوچنگ نہیں کرسکتا۔

میں سمجھتا ہوں اکثر سابق کھلاڑی، جو اپنے آپ کو ٹیم پاکستان کی کوچنگ کے اہل سمجھتے ہیں، اور اس کے شائقین کرکٹ کی ایک بڑی تعداد بھی، اب تک کوچنگ کی ذمہ داریوں کو سمجھے ہی نہیں ہیں۔ پاکستان میں عام تاثر یہی ہے کہ ٹیم کا کوچ بلے بازوں کو بیٹنگ سکھاتا ہے اور باؤلرز کوگیندبازی۔اس لیے جاویدمیانداد، وقار یونس اور وسیم اکرم وغیرہ جیسے سابق کھلاڑی ہماری ٹیم کی بہترین انداز میں کوچنگ کرسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ ایک کھلاڑی میں اگر خداداد صلاحیت ہے تو اسے بلے بازی یا گیندبازی سکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اور اگر اس میں صلاحیت نہیں ہے تو دنیا کا کوئی کوچ اسے بلے بازی یا گیند بازی نہیں سکھا سکتا۔

ایک ٹیم کی کوچنگ کیا ہوتی ہے؟ آئیے سب سے پہلے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کھیل کی دنیا میں کوچ ایک سکھانے والے کو کہا جاتا ہے۔ یعنی کوچ کو کھیلوں کا استاد بھی کہہ سکتے ہیں جو اپنے شاگردوں کوبلے بازی ، گیندبازی وغیرہ کےتکنیکی گُر سکھاتا ہے اور خامیوں کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ اسی طرح دوسرے کھیلوں جیسے فٹ بال میں کوچ اپنے شاگردوں کو پاس کرنے، گول کرنے، پوزیشن لینے وغیرہ کی ہنر مندی سکھاتا ہے۔ ایسے کوچ عام طور پر ایک کلب کی 19 سال سے کم عمر کھلاڑیوں کی جونیئر ٹیم، اکادمیوں، اسکول اور کالج کی ٹیموں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ لیکن فٹ بال میں اور دوسرے بہت سارے کھیلوں میں ایک ہیڈ کوچ بھی ہوتا ہےجس کو فٹ بال کی اصطلاح میں مینیجر بھی کہتے ہیں۔ اس ہیڈ کوچ یا مینیجر کا کام کھلاڑیوں کو فٹ بال سکھانا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس ہیڈکوچ کی ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑی جو میدان میں مقابلہ کرنے اترتےہے، وہ پیشہ ورکھلاڑی ہوتے ہیں جو مکمل کھلاڑی بن چکے ہوتے ہیں، اوراب انہیں فٹ بال "سکھائی" نہیں جاسکتی۔ اگر اس درجے پر پہنچنے کے بعد بھی انہیں بنیادی فٹ بال سیکھنے کی ضرورت ہے تو ہیڈکوچ اس کھلاڑی کو باہر کا راستہ دکھانے میں ہی عافیت جانے گا۔

ہاں ایسا ضرور ہوتا ہے کہ اگر ان کھلاڑیوں میں معمولی تکنیکی خامیاں ہوتی ہیں، جو اصل میں تکنیک سے زیادہ ذہنی تربیت میں ہوتی ہیں، وہ ہیڈ کوچ اپنی کوچنگ ٹیم کے ساتھ مل کردور کرنے میں مدد کرتا ہے اور پھر ہیڈ کوچ اس کھلاڑی کو پورا موقع اور مدد دیتا ہے کہ وہ اپنی خامی کو ختم کرے۔ لیکن پھر بھی اگر اس میں ناکامی ہوتی ہے تو اس کھلاڑی کو بھی ٹیم سے باہر کردیا جاتا ہے اوراس کی جگہ دوسرے کھلاڑی کو موقع دیا جاتا ہے۔ایک ٹیم کے کوچ کی ذمہ داریوں میں جو کام شامل ہوتے ہیں ان میں اپنے اسکاؤٹ اور نائب کوچ کے ساتھ مل کر بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کا انتخاب۔ پھر جب کھلاڑی منتخب ہوجاتے ہیں تواس کے بعد اپنی کوچنگ ٹیم کے ساتھ مل کر ان کی جسمانی فٹنس، ذہنی پختگی اور انفرادی و اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے مقابلے کےلیے تیار کرنا۔

اب ہیڈکوچ کا اصلی کام شروع ہوجاتا ہے، یعنی مخالف ٹیم کی صلاحیتوں کی جانچ، ان کی خامیوں و خوبیوں کو تلاش کرتے ہوئے دونوں ٹیموں کا موازنہ کرنا اور اس کی روشنی میں مقابلے کے لیے موزوں ترین حکمت عملی مرتب کرنا۔ ہیڈ کوچ اس لائحہ عمل کو اچھی طرح اپنی ٹیم کو ذہن نشین کراتا ہے اور اسی کے مطابق میدان میں ٹیم کو خوب مشق کراتا ہے۔ جو ہیڈ کوچ یہ کام بخوبی کرتا ہے، اور اس میں ماہر ہے، اس کی ٹیم کی کامیابیاں آسمانوں کو چھوتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ کوئی مایہ ناز فٹ بالر ہو، یا اس کے پاس فٹ بال کھیلنے کا طویل تجربہ ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ زیادہ گول کرنے والی ٹیم کے لیے کسی اسٹرائیکر کا ہیڈ کوچ لازمی ہے۔ فٹبال میں اس کی مثال مانچسٹر یونائیٹڈ کے سر ایلکس فرگوسن اور ریال میدرد کے ہوزے مورینیو ہیں۔ سر ایلکس فرگوسن نے معمولی کلب فٹ بال کھیلی ہے جبکہ ہوزے مورینیو نے تو سرے سے فٹ بال کھیلی ہی نہیں ہے۔ حال ہی میں بارسلونا کی کوچنگ کرنےوالے جوسپ گاردیولا البتہ ایک کامیاب فٹ بالر تھے اور دفاعی مڈفیلڈ پوزیشن میں کھیلتےتھے، لیکن بحیثیت ہیڈ کوچ اُن کی ٹیم بارسلونا ایک انتہائی جارحانہ کھیلنے والی ٹیم جانی جاتی ہے۔

یہ کوچنگ کا نظام فٹ بال، امریکی فٹ بال اور باسکٹ بال وغیرہ میں انتہائی کامیابی کے ساتھ رائج ہے۔ اسی کو دیکھتے ہوئے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ نے پہل کی اور یہ نظام اپنی کرکٹ ٹیم میں لانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ آسٹریلیا نے جان بکانن اور جنوبی افریقہ نے باب وولمر کو مکمل اختیارات کے ساتھ اپنی ٹیم کی باگ ڈور دی۔ اُن کی تقلید کرتے ہوئے سری لنکا اور انگلستان نے بھی فٹ بال کی طرز کا ہیڈ کوچ والا نظام اپنا لیا، انہوں نے ڈیو واٹمور اور ڈنکن فلیچر کی خدمات حاصل کیں۔ انہی کامیاب اور کرکٹ کوچنگ کو نئی جدت دینے والوں کی دیکھا دیکھی آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ خود کو جدید کوچ ثابت کرنے کے لیے خواہ مخواہ اپنے سامنے دو تین کمپیوٹرز رکھنے کا رواج عام ہوگیا تھا۔

ایسے میں کیا جان بکانن، باب وولمر، ڈیوڈ واٹمور، ڈنکن فلیچر، اینڈی فلاور وغیرہ اس لیے کامیاب ہوئے کہ اُن کے پاس کرکٹ کھیلنے کا طویل تجربہ تھا؟ کیا اسی تجربے کے ذریعے انہوں نےاپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو بلے بازی اورگیند بازی کے ہنرسکھائے؟ اگر ایسی بات ہے پھر تو سنیل گاوسکر، جاوید میانداد، وقار یونس، وسیم اکرم، کپیل دیو، گلین میک گرا، ایلن بارڈر وغیرہ سے اچھے اور کامیاب کوچ کہاں ہوسکتے ہیں؟ لیکن ایسا نہیں ہے۔

یہ مایہ ناز کرکٹر 8 سے 15 سال کی عمر کےکرکٹرز کو تو گیند بازی و بلے بازی کے بنیادی اسرار و رموز سکھا سکتے ہیں، اور بے شک ان کرکٹرز کا وسیع تجربہ نوعمر کھلاڑیوں کےلیے ایک بیش قیمت خزانےکادرجہ رکھتا ہے، لیکن ایک ٹیم بنانا، اسے جدیدانداز میں تربیت دینا، اپنے بہترین فتح گر کھلاڑیوں کی نشاندہی، کھلاڑیوں کو جسمانی و ذہنی لحاظ سے مکمل تندرست رکھنا اور پھر انفرادی سطح پر کھلاڑیوں کے درمیان باہمی ہم آہنگی کا مضبوط رشتہ کرنا انتہائی پیشہ ورانہ اور پیچیدہ کام ہے، جس کو سرانجام دینے کے لیے اسے 'کوچنگ کا علم' سیکھنا پڑتا ہے۔

اس لیے آپ کے لیے مایہ ناز اور تجربہ کار کرکٹر ہونا کافی نہیں۔ بلاشبہ انتظامی صلاحیتوں کی بنیاد پر کوئی بھی سابق کرکٹر بہت زبردست کوچ بن سکتا ہے لیکن جو جوہر اس کام کے لیے درکار ہے وہ انتظامی صلاحیتیں ہیں۔ جس میں انفرادی و اجتماعی سطح پر معاملات، گفت و شنید، مدعا بیان کرنے اور ذہن نشین کرانے، ناپختہ (raw) صلاحیتوں کو تولنے اور اسے کندن بنانے، کھیلوں کی جدید سائنس کو سمجھنے، جدیدآلات و معلومات کو استعمال کرنے اور پھر ان سب کی بنیاد پر حکمت عملی و منصوبہ بندی مرتب کرنے کی صلاحیتیں شامل ہیں۔ پھر ان سب کے علاوہ ٹیم کے کوچ کومضبوط شخصیت کا مالک بھی ہونا چاہیے کیونکہ اسے دولت کے لحاظ امیر اور کامیاب کھلاڑیوں کے ساتھ کام کرنا ہوتا ہے۔ دولت اور کامیابی خود بخود انسان میں غرور و تکبر لے آتی ہے، ایسے میں ایک کمزور شخصیت والا کوچ کھلاڑیوں کے درمیان کھلونا تو بن سکتا ہے ایک کامیاب منتظم نہیں بن سکتا۔

پاکستان کے سابق کھلاڑی یا کوئی بھی کرکٹ کوچنگ میں دلچسپی رکھنے والا شخص کوچنگ کی اس جدید تعلیم اور انتظامی طریقوں کے ذریعے ہی بہتر انداز میں کوچنگ کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے محسن حسن خان کی جگہ غیر ملکی ڈیو واٹمور کومستقل کوچ بنانےکی ٹھانی کیونکہ وہ ان تمام اسرار و رموز کو بہتر انداز میں جانتے ہیں اور پیشہ ور کوچ ہیں۔