[آج کا دن] پاکستان کی تاریخ کا عظیم ترین بلے باز جاوید میانداد

2 1,088

پاکستان کے پہلے کپتان عبد الحفیظ کاردار نے جب 70ء کی دہائی میں کراچی کے اس نوجوان کو دیکھا تو ان کی زمانہ شناس نظر دیکھتے ہی اس جوہرِ قابل کو پہچان گئی اور انہوں سے اُسی وقت نوجوان کو ”دہائی کی سب سے بڑی دریافت“ قرار دیا اور جاوید میانداد نے نیوزی لینڈ کے خلاف اپنی پہلی سیریز میں ہی اپنی صلاحیتوں سے کاردار کو درست ثابت کر دکھایا۔ 1976ء میں کھیلی گئی ہوم سیریز کی پہلی ہی اننگز میں 163 رنز اور تیسرے ٹیسٹ میں 206 اور 85 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر جاوید نے دنیائے کرکٹ میں اپنی آمد کا اعلان کیا اور پھر دوبارہ کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

جاوید میانداد پاکستان کرکٹ کا ایسا باب ہیں، جن کے بغیر قومی تاریخ بالکل ادھوری رہ جائے گی کیونکہ قومی کرکٹ کے چند یادگار ترین لمحات میں وہ مرکزی کردار تھے۔ چاہے وہ 1986ء کا شارجہ کا چھکا ہو یا عالمی کپ 1992ء کے سیمی فائنل اور فائنل۔ ان مقابلوں کو بھلا کون سا پاکستانی بھول سکتا ہے، جنہوں نے براہ راست نہ بھی دیکھا ہو، ان مقابلوں کے بارے میں اتنا دیکھ، پڑھ اور سن چکا ہے کہ اسے من و عن یہ مقابلے یاد ہوں گے۔

شارجہ کا چھکا تو گویا ضرب المثل ہے جس نے میانداد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور ایک روزہ کرکٹ کو تاریخ کے یادگار ترین لمحات میں سے ایک عطا کیا۔ 1986ء میں آسٹریلیشیا کپ کے فائنل میں جب پاکستان کو آخری گیند پر چار رنز درکار تھے، میانداد نے چیتن شرما کی فل ٹاس گیند پر چھکا رسید کر کے نہ صرف پاکستان کو پہلا ایک روزہ ٹورنامنٹ مقابلہ جتوایا بلکہ اس ایک چھکے سے ان پر دھن آسمان سے برسا۔ ایک مرسڈیز گاڑی سے لے کر 80 ہزار ڈالرز مالیت کے ہیرے کے کڑے تک، ان پر عنایات کی بارش ہو گئی۔ اسی پر پاکستان کی مشہور اداکارہ بشریٰ انصاری نے پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور پروگرام ’شو ٹائم‘ کے لیے ایک پیروڈی گانا گایا تھا ”اک چھکے کے جاوید کو“۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔

بہرحال بھارت کو یہ چھکا اتنا بھاری پڑا کہ اس کے بعد عرصے تک وہ روایتی حریف پاکستان کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہو پایا، خصوصاً شارجہ میں تو پاکستان نے وہ نفسیاتی برتری حاصل کی کہ اس کے سحر سے نکلنے میں بھارت کودہائیاں لگ گئیں۔ معروف ویب سائٹ کرک انفو نے کرکٹ کے ’50 جادوئی لمحات‘ میں میانداد کے اس چھکے کو شامل کیا ہے۔

بیٹنگ کے روایتی کلاسیکل انداز کے برعکس میانداد میں کچھ مختلف تھا، ان کے بیشتر شاٹس ایسے تھے جنہیں ’ٹیکسٹ بک شاٹ‘ نہیں کہا جا سکتا، خصوصاً ریورس سویپ میں مہارت رکھنے والے وہ اولین بلے بازوں میں سے ایک تھے۔ نہ ہی پاکستان کے لیے، انضمام الحق کے علاوہ، کسی بلے باز نے اتنے رنز بنائے اور نہ ہی کوئی اتنے میچ جتوانے میں کامیاب ہوا جتنے کہ جاوید کی کارکردگی کی بدولت پاکستان کی جھولی میں گرے۔ لیکن ایک چیز جو انہیں انضمام پر بڑی برتری دیتی ہے وہ رننگ کرنےکی صلاحیت تھی اور جاوید میانداد کو وکٹوں کے درمیان تیز رننگ کا موجد سمجھاجاتا ہے۔ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اس زمانے کے رکن تھے جب پاکستان ٹیسٹ کرکٹ میں عالمی نمبر ایک تھا۔

جاوید نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی تاریخ کے چند بہترین بلے بازوں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ وہ کرکٹ کی تاریخ کے محض دوسرے بلے باز ہیں جن کا ٹیسٹ اوسط پورے کیریئر میں 50 سے نیچے نہیں آیا۔ گیند بازوں میں یہاں تک مشہور تھا کہ میانداد کو آؤٹ کرنے کے لیے ایک ہی گیند پر تینوں وکٹیں گرانا ضروری ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ باؤلرز میں میانداد کا کیا مقام تھا؟ خود ان کے کیریئر کے اعداد و شمار بھی ظاہرکرتے ہیں ۔ 124 مقابلوں میں 52.57 کے اوسط سے8832 رنز بنانے والے جاوید میانداد کے کیریئر میں 23 سنچریاں اور 43 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں۔ انضمام الحق کے کیریئر رنز کی تعداد 8830 تھی، یوں جاوید میانداد آج بھی پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز ہیں اور کوئی بلے باز مستقبل قریب میں ان کے اس ریکارڈ کو توڑتا نہیں دکھائی دیتا۔

ٹیسٹ مقابلےاننگزرنزبہترین اننگزاوسطسنچریاںنصف سنچریاں
1241898832280*52.572343

ٹیسٹ میں ان کی 23 سنچریوں میں چھ ایسی تھیں جو ڈبل سنچریاں تھیں جبکہ ایک تقریباً ٹرپل سنچری تھی جو اس وقت کے کپتان عمران خان کے اننگز ڈکلیئر کے حیران کن فیصلے کی وجہ سے نہ بن سکی۔ جنوری 1983ء میں حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں بھارت کے خلاف میچ کی پہلی اننگز میں وہ 280 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے کہ 581 رنز پر اننگز ڈکلیئر کرنے کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کا یہ فیصلہ نہ صرف خود جاوید اور ٹیم کے دیگر اراکین بلکہ دنیا بھر کے لیے حیران کن تھا لیکن میانداد کو ٹرپل سنچری کی حسرت دل میں لیے میدان سے لوٹنا پڑا اور وہ کبھی اس سنگ میل کو عبور نہ کر سکے۔

اس اننگز کے علاوہ میانداد کی مشہور ترین ڈبل سنچریوں میں اگست 1987ء کی اوول ٹیسٹ میں بنائی گئی ڈبل سنچری کو بھی خاص مقام حاصل ہے۔ 260 رنز کی یہ اننگز 521 گیندوں پر مشتمل تھی جس میں میانداد نے 28 چوکے اور ایک چھکا لگایا اور پاکستان کو 708 رنز کا ہمالیہ ترتیب دینے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

گو کہ ناقدین جاوید میانداد کی بیرون ملک اہلیت خصوصاً ویسٹ انڈیز کے خلاف ان کے کم رنز اوسط کو بہت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن شاید وہ اپریل 1988ء کی گیانا ٹیسٹ میں بنائی گئی تاریخی سنچری بھول جاتے ہیں جس کی بدولت پاکستان نے ’ناقابل شکست‘ سمجھے جانے والے ویسٹ انڈیز کو اسی کی سرزمین پر تاریخی شکست سے دوچار کیا۔ ویسٹ انڈیز کی یہ ہار اس لیے تاریخی اہمیت کی حامل تھی کیونکہ 10 سالوں میں ویسٹ انڈیز کی ہوم گراؤنڈ پر یہ پہلی شکست تھی اور اس کا سہرا میانداد کی بلے بازی اور عمران خان کی گیند بازی کو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ٹرینیڈاڈ میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میانداد کی سنچری نے پاکستان کو فتح کے کنارے تک پہنچا دیا تھا لیکن وکٹیں گرنے نے سارامنصوبہ تلپٹ کر دیا اور پاکستان بمشکل ایک وکٹ بچنے کی وجہ سے مقابلہ ڈرا کر پایا۔ بہرحال، ویسٹ انڈین سرزمین پر ان کی یہ کارکردگی ان کی عظمت کی واضح دلیل ہے۔

جاوید میانداد نہ صرف یہ کہ پرلے درجے کے حاضر دماغ و شاطر بلے باز تھے بلکہ ویوین رچرڈز کی طرح گیند باز کو کبھی خود پر حاوی نہ ہونے دیتے۔ یہ بات رچرڈ ہیڈلی تو بہت اچھے طریقے سے جانتے ہوں گے، جو جاوید کے بلے سے اپنا سر تربوز کی طرح کھلوا دیتے، اگر امپائر درمیان میں نہ ہوتے۔ اس کے علاوہ ان کے ’عتاب‘ کا شکار بھارت کے کرن مورے بھی بنے، جن کو اپنی چیں چیں کرنے کی عادت کے باعث میانداد کے ہاتھوں عالمی کپ 92ء میں سخت تذلیل اٹھانا پڑی جب انہوں نے امپائر سے شکایت کرنے کے بعد ان کے بارہا اپیل کرنے کے انداز کی نقل اتاری۔

بلے بازی کے دوران میانداد کی حکمت عملی مثبت اور جارحانہ ہوتی تھی، اور صورتحال جس قدر سخت ہوتی وہ اس چیلنج کا اتنا ہی لطف اٹھاتے۔ ان کا جوش و ولولہ صرف انہی تک محدود نہ ہوتا بلکہ بقول شخصے یہ ’متعدی‘ ہوتا تھا اور چھوت کی طرح پوری ٹیم اس میں مبتلا ہو جاتی تھی۔ اسی لیے میانداد انفرادی نہیں بلکہ بہترین اجتماعی کھلاڑی سمجھے جاتے تھے۔ جان رائٹ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ جاوید میانداد کے لیے بیٹنگ کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کمرے میں صوفے پر بیٹھنا۔

انہوں نے ریکارڈ 6 عالمی کپ ٹورنامنٹس میں شرکت کی جس میں 1992ء کا وہ تاریخی ورلڈ کپ بھی شامل ہے جس میں سیمی فائنل میں میانداد کی یادگار اننگز کی بدولت پاکستان فائنل تک پہنچا اور پھر عالمی چیمپئن بنا۔ اس ٹورنامنٹ میں میانداد نے بڑھتی عمر اور کمر کی تکلیف کے باوجود رہنما کا کردار ادا کیا اور 6 نصف سنچریوں کے ساتھ ٹیم کی فتوحات میں کلیدی رہے۔

‏1996ء کے عالمی کپ کوارٹر فائنل میں شکست کے ساتھ ہی ان کا بین الاقوامی کیریئر اپنے اختتام کو پہنچا۔

ایک روزہ مقابلےاننگزرنزبہترین اننگزاوسطسنچریاںنصف سنچریاں
2332187381119*41.70850

بعد ازاں وہ مختلف مواقع پر ٹیم کے کوچ بھی رہے اور چند یادگار فتوحات میں ٹیم انتظامیہ کے رکن تھے، جن میں 1999ء کے چنئی کے تاریخی ٹیسٹ کی پاکستان کی روایتی حریف بھارت پر فتح بھی شامل ہے۔