[آج کا دن ] آسٹریلیا کی بادشاہت کا آغاز، پاکستان کی تاریخ کا بدترین دن

13 1,176

اگر پاکستان کرکٹ تاریخ کے چند بدترین ایام کو شمار کیا جائے تو تو بلاشبہ عالمی کپ 1999ء کے فائنل کا دن فہرست میں ضرور شامل ہوگا۔ اس طرح کبھی کسی نے عالمی کپ کے فائنل میں شریک ٹیم کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے، جس طرح پاکستان نے 20 جون 1999ء کو لارڈز میں عالمی کپ تھالی میں رکھ کر آسٹریلیا کو پیش کیا، اسے قومی کرکٹ کی تاریخ کا ایک سیاہ دن شمار کیا جانا چاہیے۔

‏1999ء کا عالمی کپ ایک بہترین ٹورنامنٹ تھا۔ انگلستان کے خوبصورت میدان، کرکٹ سے محبت کرنے والے شائقین، موسم گرما کے دلفریب ایام اور اس پر دنیا کی بہترین ٹیمیں اور عظیم کھلاڑی۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں وسیم اکرم، شعیب اختر، ثقلین مشتاق، انضمام الحق، آسٹریلیا میں اسٹیو واہ، گلین میک گرا، شین وارن اور مائیکل بیون، ویسٹ انڈیز میں برائن لارا، کورٹنی واش اور کرٹلی ایمبروز، بھارت میں اظہر الدین اور سچن تنڈولکر، سری لنکا میں ارجنا راناتنگا، مرلی دھرن اور ارونڈا ڈی سلوااور ٹورنامنٹ فیورٹ جنوبی افریقہ میں ہنسی کرونیے، ایلن ڈونلڈ، جونٹی رہوڈز، شان پولاک اور لانس کلوزنر جیسے مہان کھلاڑی شامل تھے۔ ان ستاروں کی موجودگی میں ٹورنامنٹ کی شان ہی الگ تھی۔ ورلڈ کپ کی تاریخ کے چند بہترین میچز اسی ٹورنامنٹ میں کھیلے گئے بلکہ جنوبی افریقہ-آسٹریلیا سیمی فائنل کو تو ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کا بہترین مقابلہ گردانا جاتا ہے۔

بہرحال، پاکستان نے گروپ مرحلے میں بہت شاندار کارکردگی دکھائی اور سوائے بنگلہ دیش کے خلاف اپ سیٹ شکست کے کوئی ٹیم اُسے زیر نہ کر سکی۔ آسٹریلیا کے خلاف گروپ مقابلہ ٹورنامنٹ کے بہترین میچز میں سے ایک تھا جہاں پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد فتح حاصل کی اور یوں گروپ میں سرفہرست پوزیشن حاصل کی۔ تاہم سپر سکسز مرحلے میں پہنچتے ہی اسے روایتی حریف بھارت اور پھر جنوبی افریقہ کے ہاتھوں کراری شکستیں سہنا پڑیں۔ بروقت سنبھلنے کے بعد اُس نے آخری مقابلے میں زمبابوے کو 148 رنز کی بھاری شکست دی اور سیمی فائنل میں اپنی جگہ مضبوط کر لی جہاں اس کا مقابلہ 'چھپے رستم' نیوزی لینڈ سےہوا جو شعیب اختر کی جانب سے لگائے گئے کاری زخموں اور بعد ازاں سعید انور اور وجاہت اللہ واسطی کی 194 رنز کی شاندار شراکت کی تاب نہ لا کر 9 وکٹوں کی بدترین شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا اور پاکستان دوسری مرتبہ عالمی کپ فائنل میں پہنچا۔

دوسری جانب گروپ مرحلے میں نیوزی لینڈ اور پھر پاکستان سے پے در پے شکست کھانے کے بعد آسٹریلیا کی حالت بہت پتلی ہو چکی تھی لیکن وہ بہت ہی مضبوطی و ثابت قدمی کے ساتھ واپس آیا۔ بقیہ میچز میں وہ بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز جیسے کمزور حریفوں کو زیر کر کے گروپ سکس مرحلے میں پہنچا جہاں اس نے پہلے ہی مقابلے میں بھارت کو شکست دی اور پھر زمبابوے کو روندتا ہوا اپنے آخری مقابلے کی جانب بڑھا یعنی جنوبی افریقہ کے خلاف ایک شاندارمیچ کے لیے۔

یہاں آسٹریلیا کو لازماً فتح حاصل کرنا تھی لیکن 272 رنز کے ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں 48 پر ابتدائی تین وکٹیں گرنے کے بعد ایسا ممکن نہیں دکھائی دیتا تھا لیکن ٹیم کے 'ناخدا' اسٹیو واہ نے ڈوبتی ہوئی کشتی کو سنبھالا اور اور 120 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر آسٹریلیا کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔ اسے واہ کے کیریئر کی بہترین اننگز شمار کیا جا سکتا ہے جس کی بدولت سیمی فائنل میں آسٹریلیا ایک مرتبہ پھر جنوبی افریقہ کے مقابل آیا۔

17 جون 1999ء کو برمنگھم میں ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے اعلیٰ مقابلہ کھیلا گیا جو کئی نشیب و فراز لیتا ہوا بالآخر برابری پر ختم ہوا اور آسٹریلیا فائنل میں پہنچ گیا۔ اس میں آسٹریلیا کا کمال کم اور ان کی قسمت اور جنوبی افریقہ کی آخری جوڑی کی غلطی زیادہ تھی کیونکہ لانس کلوزنر اور ایلن ڈونلڈ کے درمیان وکٹوں کے درمیان دوڑنے کے لیے تال میل کی کمی کے باعث جنوبی افریقہ کی آخری وکٹ اُس وقت گر گئی جب اسے فتح کے لیے صرف ایک رن درکار تھا۔ کیونکہ سپر سکس میں کھیلے گئے گزشتہ میچ میں آسٹریلیا نے فتح حاصل کی تھی اس لیے ٹورنامنٹ قوانین کے تحت آسٹریلیا کو فائنل کھیلنے کا حقدار قرار دیا گیا اور یوں پاکستان اور آسٹریلیا 20 جون 1999ء کو لارڈز کے تاریخی میدان میں ساتویں عالمی کپ کے لیے آمنے سامنے ہوئے۔

پاکستان میں جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ پاکستان عالمی چیمپئن بن چکا ہے اور فائنل تو محض رسمی کارروائی ہے ۔ گروپ مرحلے میں آسٹریلیا کی شکست کا حوالہ دے کر یہ تصور کر لیا گیا کہ پاکستان کو آسٹریلیا پر نفسیاتی برتری حاصل ہوگی اور وہ ایک مرتبہ پھر اسے زیر کر لے گا لیکن یہ خام خیالی اس حقیقت سے نظریں چرا کر کی گئی کہ آسٹریلیا پاکستان کے کے خلاف گروپ مرحلے میں شکست کے بعد آخر تک کوئی میچ نہیں ہارا تھا جبکہ پاکستان کو روایتی حریف بھارت اور جنوبی افریقہ کے خلاف تو شکست ہوئی ہی لیکن بنگلہ دیش کے خلاف بھی ایک ذلت آمیز ہار سہنا پڑی۔ آسٹریلیا نے اس مرحلے کے دوران دوران جنوبی افریقہ جیسے سخت حریف کو دو مرتبہ شکست دی اور اس کے حوصلے بلاشبہ پاکستان سے کہیں زیادہ بلند تھے۔

پاکستان کے کپتان وسیم اکرم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو مناسب فیصلہ تھا اور پاکستان کا آغاز بھی کوئی اتنا برا نہیں تھا۔ سعید انور نے پہلے ہی اوور میں اپنے روایتی کٹ شاٹ پر ایک چوکا لگایا اور پھر ڈیمین فلیمنگ کو دو مزید چوکے رسید کیے لیکن دوسرے اینڈ سے وجاہت اللہ واسطی کے بلے کا کنارہ لینے والی گیند کو سلپ میں مارک واہ کی ایک لمبی ڈائیو نے دلکش کیچ میں بدل دیا۔ اس ناقابل یقین کیچ نے میچ کو آسٹریلیا کے پلڑے میں جھکانے کا آغاز کر دیا۔

بدقسمتی سے اگلے ہی اوور میں سعید انور اپنے بلّے کی گرپ تبدیل کروانے کے بعد فلیمنگ کے ہاتھوں بولڈ ہو گئے۔ پاکستان چھٹے اوور کے آغاز پر ہی اپنے دونوں اوپنرز سے محروم ہو گیا تھا اور اسکور بورڈ پر صرف 21 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔

عبد الرزاق، جو ان دنوں ون ڈاؤن آیا کرتے تھے، نے اعجاز احمد کے ساتھ مشکل صورتحال میں اننگز کو سنبھالا اور سست روی سے اسکور کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ عبد الرزاق کو آسٹریلیا کی فیلڈنگ کی کمزور کڑی یعنی گلین میک گرا کے ہاتھوں ایک زندگی بھی ملی لیکن وہ اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے 20 ویں اوور میں جب اسکور 68 رنز پر پہنچ گیا وہ ایکسٹرا کور پر حریف کپتان اسٹیو واہ کے کیچ کا نشانہ بن گئے۔

صورتحال بدلتے ہی اسٹیو واہ نے اپنا سب سے اہم پتہ یعنی شین وارن میدان میں پھینکا اور پھر میچ آسٹریلیا کے حق میں جھکتا چلا گیا۔ انہوں نے ایک خوبصورت گیند پر سب سے پہلے اعجاز احمد کو بولڈ کیا اور کچھ دیر بعد معین خان کو بھی چلتا کر دیا۔ پاکستان کی آدھی ٹیم محض 91 پر لوٹ چکی تھی۔

پاکستان یہاں سے بھی میچ سنبھال سکتا تھا لیکن کسی بلے باز نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ قسمت بھی پاکستان کے حق میں نہیں گئی، انضمام الحق محض 6 رنز بنا کر اک ایسی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ قرار دیے گئے جو ان کے بلے کے بجائے پیڈ کو چھو کر وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں گئی تھی۔ اب تمام تر ذمہ داری آل راؤنڈرز کے کاندھوں پر ڈال گئے جو شین وارن کے آگے بے بس دکھائی دیے۔ شاہد آفریدی اور وسیم اکرم تو انہی کا نشانہ بنے البتہ اظہر محمود ٹام موڈی اور آخری وکٹ ثقلین مشتاق میک گرا کا شکار بنے۔

پاکستان کی پوری ٹیم 39 اوورز میں صرف 132 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ سب سے زیادہ رنز 'فاضل بھائی' نے بنائے یعنی 25 اور اس کے بعد اعجاز احمد کے 22 رنز تھے۔ پاکستانی شائقین منہ چھپانے کے لیے جگہ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ شکست کا وہ بھیانک خواب، جس کے بارےمیں کسی نے سوچا بھی نہ تھا، حقیقت کا روپ دھار کر سامنے کھڑا تھا۔

آسٹریلیا نے 'فتح کی دیوی' کو اتنا قریب دیکھا تو بنا کسی تاخیر کے لپک کر اُسے حاصل کرنے کی کوشش کی اور ابتدائی 10 اوورز میں ہی مارک واہ اور ایڈم گلکرسٹ نے 75 رنز جمع کر ڈالے۔ خصوصاً گلی نے پاکستان کے تمام ہی باؤلرز کو آڑے ہاتھوں لیا، جو اپنے بلے بازوں کی ناقص کارکردگی کے ہاتھوں بے بس تھے۔ انہوں نے 36 گیندوں پر 8 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 54 رنز بنائے اور 11 ویں اوور کی پہلی گیند پر ثقلین مشتاق کی واحد وکٹ بنے۔ پاکستان ایک مزید وکٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا لیکن میچ کو جیتنا تو کجا، پھنسانا بھی اُن کے بس کی بات نہ تھی اور آسٹریلیا نے 21 ویں اوور کی پہلی گیند پر ہدف حاصل کر کے دنیائے کرکٹ پر طویل حکمرانی کی بنیاد رکھ دی۔

آسٹریلیا نے اس کے بعد 2003ء اور 2007ء کے عالمی کپ بھی جیتے، اور وہ بھی پورے ٹورنامنٹ میں بغیر کوئی میچ ہارے۔ جبکہ پاکستان دونوں ٹورنامنٹس میں پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مقابلے نے دونوں ٹیموں پر کتنے گہرے نفسیاتی اثرات چھوڑے تھے۔ بہرحال، 2011ء میں کچھ کہانی بدلی جب آسٹریلیا کوارٹر فائنل میں بھارت کے ہاتھوں شکست کھا کر باہر ہوا جبکہ پاکستان کو سیمی فائنل تک پہنچنا نصیب ہوا جہاں بھارت نے ہی اس کا سفر تمام کر دیا اور بعد ازاں عالمی چیمپئن بنا۔

ویسے گلکرسٹ کی اننگز کے بارے میں وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ ہم 180 رنز کے ہدف کا بھی دفاع کر لیتے، لیکن گلکرسٹ نے جس طرح کا آغاز لیا، اس میں آسٹریلیا کے لیے 300 رنز بھی کم تھے۔

شین وارن کو شاندار گیند بازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ انہوں نے 33 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ جنوبی افریقہ کے لانس کلوزنر سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

یوں ورلڈ کپ کا فائنل، جس کے لیے بہت سنسنی خیز مقابلے کی توقع کی گئی تھی، دونوں اننگز ملا کر 60 اوورز بھی نہ چل پایا۔ آسٹریلیا میں جشن کے شادیانےبجائے گئے اور پاکستان میں شامِ غریباںمنائی گئی۔ 'میچ فکسنگ کا بھوت' بوتل سے باہر آ گیا اور پاکستان نے تحقیقات کے لیے معروف جج جسٹس ملک قیوم کی زیر صدارت ایک کمیشن قائم کیا جس نے تقریباً سال بھر کی تحقیقات کے بعد مئی 2000ء میں کپتان وسیم اکرم سمیت متعدد کھلاڑیوں کو ‏آئندہ کوئی عہدہ نہ دینے کی سفارش کی اور سلیم ملک اور عطاء الرحمٰن پر تاحیات پابندی بھی عائد کی۔