[آج کا دن] پاکستان ٹی ٹوئنٹی چیمپئن، 10 سال بعد بالآخر لارڈز کا قلعہ فتح

0 1,031

وہی لارڈز کا تاریخی میدان، ویسا موسم، وہی ہنگامہ خیز ماحول، اور ویسا ہی فائنل لیکن 10 سال کا عرصہ بیت چکا تھا، زخم پرانا تھا لیکن اس پر مرہم رکھنا ابھی باقی تھا۔ 20 جون 1999ء کو کوئی بھولا نہیں تھا، خصوصاً شاہد خان آفریدی اور عبد الرزاق تو بالکل نہیں، جو ورلڈ کپ 1999ء کا فائنل کھیلنے والی اس بدقسمت ٹیم کا حصہ تھے جو آسٹریلیا کے ہاتھوں بری طرح ہاری تھی۔ لیکن یونس خان کی زیر قیادت ٹھیک 10 سال بعد 21 جون 2009ء کو اسی جگہ پر پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی کا عالمی کپ جیت گیا۔

یہ منظر بھلا کون سا پاکستانی بھول پائے گا؟ (تصویر: Getty Images)
یہ منظر بھلا کون سا پاکستانی بھول پائے گا؟ (تصویر: Getty Images)

2009ء وہی سال ہے جس کا آغاز لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے ساتھ ہوا اور ملک میں کرکٹ کا مستقبل تاریک ہو گیا۔ آج تک کوئی غیر ملکی ٹیم پاکستان آ کر کھیلنے پر رضامند نہیں ہوئی۔ اسی واقعے کے نتیجے میں پاکستان کو عالمی کپ 2011ء کی میزبانی سے محروم ہونا پڑا۔ لیکن صرف تین ماہ بعد پاکستان نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیت کر دنیا کو دِکھا دیا کہ پاکستان کو عالمی کرکٹ کے منظرنامے پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان 1992ء میں دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا اعزاز ورلڈ کپ جیت چکا تھا لیکن 17 سال بعد ایک اور عالمی اعزاز کا سفر بھی بالکل اسی طرح آسان نہیں تھا۔ جس طرح 1992ء میں پاکستان ابتدا میں پے در پے شکستوں سے دوچار ہو کر سنبھلا تھا، 2009ء میں بھی اسے کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے گروپ میچ میں ہی انگلستان کے ہاتھوں 48 رنز کی زبردست شکست اور تیسرے میچ میں سری لنکا کے ہاتھوں ہار پیشرفت پر بری طرح اثر انداز ہوئی لیکن نیوزی لینڈ اور دیگر کمزور حریفوں کےخلاف فتوحات پاکستان کو سیمی فائنل میں لانے میں کامیاب ہو گئیں جہاں اس کا ٹکراؤ ٹورنامنٹ کے فیورٹ جنوبی افریقہ سے ہوا جس نے ابھی تک کوئی مقابلہ نہیں ہارا تھا۔

لیکن ’شیرِ پاکستان‘ شاہد خان آفریدی پروٹیز کے سامنے ڈٹ گیا۔ انہوں نے پہلے 51 رنز کی کارآمد اننگز کھیل کر بلے بازی میں اپنے جوہر دکھائے اور پھر جنوبی افریقہ کے دو مرکزی بلے بازوں کو ٹھکانے لگا کر میچ کا پانسہ پاکستان کے حق میں پلٹ دیا۔ پاکستان محض دو سال بعد ایک مرتبہ پھر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں پہنچ چکا تھا اور آپ کو یاد ہوگا کہ 2007ء کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں پاکستان روایتی حریف بھارت سے 5 رنز سے ہار گیا تھا اور اس مرتبہ پاکستان کے پاس کسی غلطی کی گنجائش نہ تھی۔

دوسری جانب، اگلے روز فائنل کھیلنے والی دوسری ٹیم کا فیصلہ ہونا تھا۔ سری لنکا نے ویسٹ انڈیز کو با آسانی 57 رنز سے ہرا کر پاکستان کے ساتھ حتمی مقابلے کے لیے اپنی نشست پکی کی اور 21 جون کو ’کرکٹ کے گھر‘ لارڈز میں دونوں دوست ممالک آمنے سامنے ہوئے۔

اب آ گیا سب سے بڑا مقابلہ یعنی فائنل۔ سری لنکا بہت خطرناک روپ میں تھا۔ اس کے اوپنر تلکارتنے دلشان بہترین فارم میں تھے اور ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز تھے۔ لیکن نوجوان محمد عامر نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ انہیں شارٹ گیندوں کے جال میں جکڑنے کی کوشش کی ابتدائی چار گیندوں پر جدوجہد کے بعد وہ پانچویں گیند پر اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔ پاکستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی۔ دوسرے اینڈ سے عبد الرزاق نے اپنے مسلسل تین اوورز میں جیہان مبارک، سنتھ جے سوریا اور پھر مہیلا جے وردھنے کو ٹھکانے لگا کر پاکستان کو مقابلے پر حاوی کر دیا۔ سری لنکا محض 32 پر اپنے چار کھلاڑی گنوا چکا تھا۔

اگر سری لنکا کے کپتان کمار سنگاکارا 52 گیندوں پر 64 رنز کی کارآمد اننگز نہ کھیلتے اور اینجلو میتھیوز 35 رنز کے ساتھ ان کا بھرپور ساتھ نہ دیتے تو سری لنکا کی اننگز تہرے ہندسے میں بھی داخل نہ ہوتی۔ ان دونوں کھلاڑیوں کے درمیان 7 اوورز میں 68 رنز کی ناقابل شکست رفاقت قائم ہوئی اور میچ یکطرفہ ہو جانے کے بجائے دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا۔

پاکستان کی جانب سے عبد الرزاق 3 وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب گیند باز رہے۔ عبد الرزاق، جنہیں ٹورنامنٹ کے لیے اعلان کردہ اصل ٹیم میں شامل بھی نہیں کیا گیا تھا، آخری لمحات میں یاسر عرفات کے زخمی ہونے کے باعث ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء کے دستے میں شامل کیے گئے تھے اور انہوں نے اپنی کارکردگی سے ثابت کیا کہ وہ اس نشست کے حقدار تھے۔ان کے علاوہ ایک، ایک وکٹ محمد عامر شاہد آفریدی اور عمر گل کو ملی۔

پاکستان کے اوپنر کامران اکمل اور شاہزیب حسن نے 48 رنز کا مناسب آغاز فراہم کیا لیکن نصف اوورز کی تکمیل سے پہلے 63 پر دونوں اوپنرز پویلین لوٹ چکے تھے۔ کامران اکمل نے 28 گیندوں پر 37 رنز بنائے جن میں دو چوکے اور دو چھکے شامل تھے۔

شاہد آفریدی گزشتہ میچ کی کارکردگی کے باعث بھرپور فارم میں تھے اور ان کی فارم کا سلسلہ یہاں بھی جاری رہا۔ بڑھتے ہوئے رن اوسط کا سامنا ہو تو شاہد سب سے کارآمد کھلاڑی ہیں، انہوں نے ضرورت کے ہر وقت گیند کو میدان سے باہر کی راہ دکھا کر پاکستان پر بڑھتا دباؤ کم کیا۔ انہوں نے ایک چھکا اسپن جادوگر مرلی دھرن کو رسید کیا اور آخری لمحات میں اسورو اودانا کو ٹورنامنٹ کا سب سے خوبصورت چھکا لگا کر میچ کو حتمی مرحلے میں داخل کر دیا۔ انہوں نے شعیب ملک کے ساتھ مل کر تیسری وکٹ پر 76 رنز کی ناقابل شکست شراکت داری قائم کی اور 19 ویں اوور کی چوتھی گیند پر ہی مقابلے کا خاتمہ کر دیا۔ شاہد کی 54 رنز کی اننگز میں دو بلند و بالا چھکے اور دو چوکے شامل تھے جبکہ شعیب ملک 24 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔

پاکستان ٹی ٹوئنٹی کا نیا عالمی چیمپئن بن چکا تھا۔ اور مردِ میدان ایک مرتبہ پھر شاہد خان آفریدی کہلائے۔ پاکستان میں کوئٹہ سے لے کر لاہور اور کراچی سے لے کر گلگت تک جشن کا سماں تھا۔ یونس خان نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی خوبصورت ٹرافی اپنے ہاتھوں میں تھامی اور لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں کو خوشی سے معمور ہو گئے۔ یونس نے میچ کے بعد ہی ٹی ٹوئنٹی طرز کی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔

سابق پاکستانی کھلاڑی اور موجودہ تبصرہ نگار رمیز راجہ نے اسے عالمی کپ 1992ء سے بھی بڑی فتح قرار دیا، اور ان کا کہنا درست بھی تھا۔ 1992ء کے مقابلے میں 2009ء میں پاکستان کرکٹ کے حالات کہیں زیادہ سنگین تھے اور اس صورتحال میں عالمی اعزاز جیتنا واقعی بہت بڑی بات تھی۔

معروف ویب سائٹ کرک انفو نے پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فتح کو تاریخ کے 50 جادوئی لمحات میں 49 واں نمبر دیا۔