انگلستان بھارت میچ: این بیل کے ایل بی ڈبلیو تنازع کی مکمل داستان

6 1,042

عالمی کپ دنیائے کرکٹ کا سب سب سے اہم مقابلہ تو ضرور ہے لیکن یہ بھی تنازعات سے خالی نہیں ہے۔ 1996ء اور 2003ء کے عالمی کپ میں مختلف ٹیموں کا مخصوص ممالک میں نہ کھیلنے کا فیصلہ ہو، 1992ء کے سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کو 13 کے بجائے ایک گیندپر 22 رنز بنانے کا 'حکم' صادر فرمانے کا معاملہ ہو، یا 1996ء کے سیمی فائنل میں بھارت کے خلاف سری لنکا کو فتح دینے کا معاملہ، 1999ء کے سیمی فائنل میں میچ ٹائی ہونے کے باوجود آسٹریلیا کو فاتح قرار دینے کا مسئلہ ہو یا 2007ء کے عالمی کپ کے فائنل کا اندھیرے میں اختتام، یہ وہ بڑے تنازعات ہیں جو ہر کرکٹ شائق کے ذہنوں میں تازہ ہوں گے۔ لیکن کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جو وقتی طور پر بہت زیادہ متنازع ہوتے ہیں جیسا کہ عالمی کپ 2011ء میں بھارت اور انگلستان کے مابین ہونے والے میچ کے دوران این بیل کے ایل بی ڈبلیو کا معاملہ ہے۔

امپائر کے فیصلے پر نظر ثانی کا نظام (UDRS) کرکٹ میں امپائرز کے فیصلوں کے باعث پیدا ہونے والے تنازعات کو روکنے کے لیے بنایا گیا ایک ٹیکنالوجیکل نظام ہے۔ جس میں ہاک آئی، اسنکو، ہاٹ اسپاٹ، ہائی ڈیفی نیشن کیمروں اور دیگر ٹیکنالوجیز کی مدد سے امپائرز کو بہتر فیصلوں میں مدد دی جاتی ہے۔

27 فروری بروز اتوار بنگلور کے چناسوامی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا میچ کئی لحاظ سے یادگار تھا لیکن اپنے پیچھے چند تنازعات میں چھوڑ گیا جن میں این بیل کے ایل بی ڈبلیو ہونے کا معاملہ بھی شامل ہے۔ 339 رنز کے بڑے ہدف کے تعاقب میں 25 ویں اوور کی آخری گیند پریووراج سنگھ نے اس وقت این بیل کے وکٹوں کے سامنے جا لیا جب ان کا انفرادی اسکور محض 17 اور انگلستان کا مجموعی اسکور دو وکٹوں کے نقصان پر 163 رنز تھا اور اسے 25 اوورز میں 176 رنز درکار تھے۔

این بیل کے متنازع ایل بی ڈبلیو فیصلے کی وڈیو سے حاصل کردہ تصویر
یووراج سنگھ کی اپیل پر امپائر بلی باؤڈن نے انہیں ناٹ آؤٹ قرار دیا جس پر بھارتی کپتان مہندر سنگھ دھونی نے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کا فیصلہ کیا۔ یوں باؤڈن کا فیصلہ تیسرے امپائر کو ریفر کر دیا گیا۔ ری پلے کے درمیان واضح تھا کہ گیند مڈل اسٹمپ کو ہٹ کر رہی ہے اور میدان کی بڑی اسکرین پر بھی ری پلے میں یہ واضح دکھائی دیا جس پر تماشائیوں کا جشن شروع ہو گیا اور این بیل نے پویلین کا راہ لینا شروع کر دی۔ لیکن امپائر بلی باؤڈن نے انہیں روک لیا اور بالآخر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں بدستور ناٹ آؤٹ قرار دیا۔

بھارتی کھلاڑی اور تماشائی یہ فیصلہ سن کرسکتے میں آ گئے کیونکہ اسکرین پر بالکل واضح تھا کہ گیند درمیانی اسٹمپ کو لگ رہی ہے۔ تاہم امپائر نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ گیند کے ٹکرانے اور اسٹمپ کے درمیان فیصلہ 2.5 میٹر سے زائد ہے جس کی وجہ سے امپائر کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ تیسرے امپائر نے انہیں بذریعہ فون اس فیصلے سے مطلع کیا تھا اس لیے فیلڈ امپائر نے انہیں ناٹ آؤٹ قرار دیا۔ یہ ایک ایسا قانون تھا جس کے بارے میں میدان میں موجود بیشتر کھلاڑی تک آگاہ نہیں تھے حتی کہ دونوں ٹیموں کے قائد بھی۔

بعد ازاں پریس کانفرنس میں بھارتی قائد مہندر سنگھ دھونی نے اس قانون کو آڑے ہاتھوں لیا اور امپائر کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہاک آئی ٹیکنالوجی ظاہر کر رہی ہے کہ گیند اسٹمپ کو چھو رہی ہے تو کھلاڑی کو آؤٹ دینا چاہیے اس میں فاصلے کو وجہ کے طور پر پیش کرنے کی کوئی منطق نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے خلاف دیے گئے اک فیصلے، جس میں وہ آگے بڑھ کر کھیل رہے تھے اور گیند پیڈ پر لگنے کے باعث ایل بی ڈبلیو دیے گئے تھے، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت یو ڈی آر ایس موجود نہیں تھا، چاہے یہ 2.5 میٹر ہو یا 2.4 یا 2.6، اگر مجھے آؤٹ دیا جا سکتا ہے تو کسی اور کو کیوں نہیں؟ ۔ جو میں نے دیکھا کہ و ہ یہ تھا کہ گیند اسٹمپ کو چھونے جا رہی ہے۔

معاملے کو اس حد تک متنازع ہوتا دیکھ کر بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے یکم مارچ کو این بیل کے حوالے سے دیےگئے اس فیصلے کی وضاحت پیش کی ہے۔ وضاحت میں کہا گیا ہے کہ گیند کے پیڈ سے ٹکرانے اور وکٹوں کے درمیان جتنا زیادہ فاصلہ ہوگا ٹیکنالوجی کے لیے درست نشاندہی کرنا اتنا مشکل ہوگا۔ یہی مسئلہ گیند کے ٹپہ پڑنے اور پیڈ سے ٹکرانے کے درمیان فاصلہ کم ہونے کی صورت میں پیش آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس جگہ این بیل کو گیند پیڈ پر ٹکرائی تھی وہ اسٹمپ سے 250 سینٹی میٹر (یعنی 2.5 میٹر) سے زیادہ تھی جبکہ گیند کے ٹپہ پڑنے کے مقام اور پیڈ پر ٹکرانے کی جگہ کے درمیان فاصلہ بھی 40 سینٹی میٹر سےکم تھا اس لیے ہاک آئی ٹیکنالوجی کی درستگی کی یقین دہانی نہ ہونے کے باعث فیلڈ امپائر کے فیصلے کو درست مانتے ہوئے اسی کو برقرار رکھا گیا۔