[انٹرویو] ایشیا کپ سنگ میل تھا، اصل منزل انڈر 19 ورلڈ کپ ہے: سمیع اسلم

10 1,102

جس طرح کسی بھی جنگ میں ہراول دستے کی بہت اہمیت ہوتی ہے، اسی طرح دنیائے کرکٹ میں بھی صفِ اول کے کھلاڑیوں، یعنی اوپننگ بلے بازوں اور ابتدائی اوور پھینکنے والے گیند بازوں، کو یہ مقام حاصل ہے کیونکہ وہی اپنی ابتدائی باؤلنگ یا بلے بازی سے میچ کا رُخ متعین کرتے ہیں اور حریف ٹیم پر بالادستی کو ممکن بناتے ہیں۔ اگر پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو اسے دنیائے کرکٹ میں حقیقی تیز باؤلرز کی سرزمین کہا جاتا ہے اور کہاں بھی کیوں نہ جائے؟ کیونکہ یہی سرزمین فضل محمود سے لے کر شعیب اختر تک جیسے تیز باؤلرز کی ایک طویل قطار کی پہچان بنی۔ البتہ پاکستان کو بلے بازی میں اوپننگ کے شعبے میں چند مسائل کا سامنا رہا ہے، جو تاحال جاری ہے۔ 90ء کی دہائی میں سعید انور اور عامر سہیل جیسے مستعد و مستند بلے بازوں نے پاکستان کا اس کمزوری کو کافی حد تک ختم کیا لیکن ان کے جاتے ہی ایک مرتبہ پھر قحط الرجال دکھائی دیتا ہے۔ اوپننگ میں بے پناہ تجربات کے باوجود نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہے۔ لیکن حال ہی میں ملائیشیا میں ہونے والے جونیئر ایشیا کپ میں سمیع اسلم کی صورت میں پاکستان کو اک ایسے بلے باز کی جھلک دکھائی دی ہے جو مستقبل میں پاکستان کے اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔ سمیع نے نہ صرف ٹورنامنٹ میں 451 رنز بناکر بہترین بلے باز کا اعزاز جیتا بلکہ پاکستان او اولین جونیئر ایشیا کپ کا ٹائٹل بھی جتوایا۔

سمیع اسلم نے انڈر 19 ایشیا کپ میں دو سنچریوں کی مدد سے 451 رنز بنائے اور ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: ACC)
سمیع اسلم نے انڈر 19 ایشیا کپ میں دو سنچریوں کی مدد سے 451 رنز بنائے اور ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے (تصویر: ACC)

لاہور سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کھلاڑی نے جونیئر ایشیا کپ کے پانچ میچوں میں دو سنچریاں اور اتنی ہی نصف سنچریاں بنائیں، جس کے بعد کرکٹ کے پنڈت اس نوجوان کی جلد ہی قومی کرکٹ ٹیم شمولیت کو دیکھ رہے ہیں۔ قومی انڈر 19 ٹیم چند روز قبل ہی وطن واپس پہنچی ہے اور کرک نامہ نے اپنے قارئین کے لیے ’مین آف دی ٹورنامنٹ‘ سمیع اسلم سے خصوصی گفتگو کی ۔ جس میں نوجوان بلے باز کا کہنا تھا کہ جب ایشیا کپ کی تیاریوں کے لیے کوچ صبیح اظہر کی نگرانی میں ٹریننگ کیمپ لگا تو اس وقت ہم نے بہت زیادہ سخت محنت کی تھی، کوچ صبیح اظہر، جن کا ٹریک ریکارڈ سب کے سامنے ہے، کھلاڑیوں کی فزیکل فٹنس پر بھی خاصی توجہ دیتے تھے جبکہ نیٹ پریکٹس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمیں میچ پریکٹس کے مواقع بھی دیئے جس سے ہمیں اپنی خامیوں کا پتہ چلا اور ہم نے اس تربیتی کیمپ میں ہی ان خامیوں کو دور کیا۔ یوں انڈر 19 دستہ ایک متوازن ٹیم اور بھرپور تیاریوں کے ایشیا کپ میں شرکت کے لیے ملائیشیا کے شہر کوالالمپور روانہ ہوا۔ جب ہماری ٹیم اس میگا ایونٹ میں شرکت کے لیے روانہ ہورہی تھی تو ہم سب کا عزم تھا کہ جس طرح ہماری قومی کرکٹ ٹیم ایشین کرکٹ کی بادشاہ ہے اسی طرح ہم بھی ایشیا کی کرکٹ کا تاج اپنے سر پر سجائیں اور اس میں اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں کامیاب بھی کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ملائیشیا کی وکٹیں کچھ زیادہ آسان نہیں تھیں، بلکہ وہاں سیمرز کے لیے کافی مددگار کنڈیشنز تھیں لیکن ہماری ٹیم نے جنوبی افریقہ کی وکٹوں پر اپنی صلاحیتیں دکھائی تھیں، اس لیے ہمیں ملائیشیا میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ مجھے یاد ہے کہ ٹیم میٹنگ میں کوچ صبیح اظہر ، کپتان بابر اعظم اور دیگر کہتے تھے کہ تمہیں سب سے زیادہ ذمہ داری دکھانی ہوگی اور وکٹ پر زیادہ دیر ٹھہرنا ہوگا، چاہے معاملہ اچھا مجموعہ اکٹھا کرنے کا ہو یا ہدف حاصل کرنے کا۔ میرا قدرتی اسٹائل جارحانہ ہے، لیکن اس کے باوجود میں ہمیشہ انفرادی اننگز کھیلنے کے بجائے ٹیم کے لیے کھیلنے کی سوچ لے کر میدان میں اترتا ہوں اور پہلے میچ میں سنچری بنانے کے بعد حریف ٹیموں پر میری دھاک سی بیٹھ گئی۔ اس کارکردگی سے میرے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا، تو میں نے خود سے عزم کیا کہ مجھے ایسی ہی کارکردگی تمام میچز میں دکھانی ہے۔ میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ میں نے پاکستان کے لیے تمام ہی اننگز میں اچھا اسکور کیا۔ بھارت سے میچ میں پاکستان پر تھوڑا دباؤ ہوتا ہے کیونکہ وہ صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ اعصاب کی جنگ بھی ہوتی ہے اس لیے اس پر بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ میں نے بھارت کے خلاف بھی اچھی کارکردگی دکھائی خاص طور پر فائنل میں میری سنچری کی بدولت پاکستان ایک اچھا ہدف دینے میں کامیاب رہا۔

بھارت کے ساتھ مشترکہ چیمپئن قرار دیئے جانے کے حوالے سے سمیع اسلم کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر زیادہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ ایشین کرکٹ کونسل کے قوانین کے مطابق ہوا۔ البتہ اس ایونٹ میں ہم ناقابل شکست رہے تھے جبکہ پول میچ میں بھی ہم نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد بھارت کو شکست دی تھی اور فائنل میں بھی ایک موقع پر جب میچ میں بھارت حاوی ہوچکا تھا، ہمارے گیند بازوں نے اچھی باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میچ کو ٹائی کیا۔ بہرحال، اب ہم ایشیا کے جونیئر چیمپئن ہیں۔

انڈر 19 ایشیا کپ میں جہاں دنیائے کرکٹ سمیع اسلم کی صلاحیتوں کی معترف ہوئی، وہیں پاکستان کی روایتی حریف بھارتی ٹیم کے کپتان انمکٹ چند بھی سمیع کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے اور انہیں کہا کہ جونیئر ورلڈکپ کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں بھی تمہارے ساتھ ملاقات ہوتی رہے گی اور تمہارا بیٹنگ کا انداز بتاتا ہے کہ تم بڑے ریکارڈ بناؤ گے۔

آسٹریلیا میں ہونے والے انڈر 19 ورلڈکپ کے حوالے سے سمیع اسلم کا کہنا تھا کہ ہم جانتے تھے کہ ایشیا کپ پر ہماری کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ یہ تو اصلی امتحان کی ایک تیاری کا موقع تھا، جس میں ہم کامیاب رہے، ہمارا اصل امتحان تو کینگروز کے دیس میں ہونے والا جونیئر ورلڈکپ ہے۔ جس طرح ہماری ٹیم متوازن ہے اس کے بعد ہمیں اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے کہ ہم ورلڈکپ کی ٹرافی پاکستان لے آئیں گے۔ سمیع اسلم کا کہنا تھا کہ اس ایونٹ میں بھارت، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ سخت حریف ثابت ہوں گے۔ بھارت سے ایشیا کپ اور جنوبی افریقہ سے ان کے دیس میں ہم نے میچز کھیلے ہیں اور آسٹریلیا میں ہونے والے ورلڈکپ سے قبل ہمیں میزبان ٹیم کے خلاف تین میچز کی سیریز بھی کھیلنی ہے جس سے ہمیں وہاں کی کنڈیشنڈ اور میزبان ٹیم کی قوت کا اندازہ ہو جائے گا اور اس کی بدولت ہمیں ان تینوں سخت حریفوں کے خلاف اپنی حکمت عملی ترتیب دینے میں مدد ملے گی۔

سمیع اسلم کا کہنا ہے کہ وہ آسٹریلیا کی وکٹوں پر بھی اپنا روایتی کھیل پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ سمیع نے ایشیا کپ کے دوران اپنی وکٹ پر موجودگی کے دوران پاکستان کا رن ریٹ ایک مرتبہ پھر 6 کے اوسط نہیں آنے دیا جبکہ ریجنل کرکٹ میں بھی 1300 رنز بنانے کے بعد بہترین بلے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ پاکستان ورلڈکپ جیت کر لوٹے گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بلے بازی کے انداز میں کسی کو نقل کرنے کی کوشش نہیں کرتے البتہ موجودہ کرکٹ کے کھلاڑیوں میں سریش رینا کا بیٹنگ انداز انہیں کافی لبھاتا ہے، تاہم ان کی خواہش ہے کہ وہ پاکستان کے نامور اوپنر سابق ٹیسٹ کرکٹر سعید انور کے ساتھ کچھ عرصہ کام کریں تاکہ ان کی بیٹنگ مزید نکھر جائے اور وہ بھی سعید انور کی طرح پاکستان کے لیے کئی عالمی ریکارڈز بناسکیں۔ سمیع اسلم کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں جنوبی افریقی فاسٹ باؤلر ڈیل اسٹین کو کھیلنا بھی اُن کے لیے ایک خواب ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کی تعبیر جلد ملے۔

اس سوال کے جواب میں کہ ان کی پاکستان ٹیم میں شمولیت کی باتیں ہورہی ہیں سمیع اسلم کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں فی الحال نہیں جانتے لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اگر اتنی بڑی ذمہ داری کے لیے ان پر اعتماد کیا گیا تو وہ سلیکٹرز سمیت قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے والدین، کوچز، اقبال قاسم، ڈاکٹر جمیل اور دیگر کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کی قدم قدم پر رہنمائی کی۔