دورۂ سری لنکا: نتائج کے لحاظ سے مایوس کن، لیکن مستقبل روشن

2 1,091

تقریباً دو سال کے طویل عرصے تک ٹیسٹ مقابلوں میں عمدہ کارکردگی دکھانے کے بعد بالآخر پاکستان شکست سے دوچار ہوا۔ مسلسل 7 ٹیسٹ سیریز تک ناقابل شکست رہنے کا سلسلہ بالآخر بحر ہند کے جزیرے سری لنکا میں تھما اور پاکستان کا دستہ 1-0 کی مایوس کن ہار کے بعد شکستہ دل وطن واپس آ گیا ہے۔ یہ 2010ء انگلستان کے بدنام زمانہ دورے کے بعد پاکستان کی پہلی ٹیسٹ سیریز شکست تھی۔ جی ہاں، وہی سیریز جس میں اسپاٹ فکسنگ کا اَن مٹ داغ پاکستانی کرکٹ کے چہرے پر لگا اور تینوں کرداروں سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کم از کم 5،5 سال کی پابندی کو بھگت رہے ہیں اور حال ہی میں برطانیہ میں مختلف دورانیے کی قید کی سزائیں کاٹ چکے ہیں۔

اظہر علی نے دو سنچریوں کی مدد سے 300 رنز بنائے اور کرکٹ پنڈتوں سے بھی داد سمیٹی (تصویر: Getty Images)
اظہر علی نے دو سنچریوں کی مدد سے 300 رنز بنائے اور کرکٹ پنڈتوں سے بھی داد سمیٹی (تصویر: Getty Images)

اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کو زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک دیا۔ 2009ء کے اوائل میں سری لنکن ٹیم کے دہشت گردوں پر حملے کے نتیجے میں پاکستان کے میدان طویل عرصے کے لیے ویران ہوئے تھے اور رہی سہی کسر اس اسکینڈل نے پوری کی جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اب ہوم گراؤنڈ پر نہ کھیلنے اور اتنے بڑے اسکینڈل میں پھنس جانے کے بعد پاکستان کرکٹ کبھی دوبارہ سر نہیں اٹھا سکے گی۔ لیکن ……. زوال کی ان گہرائیوں سے پاکستان نے سر اٹھایا اور مصباح الحق کی قیادت میں ٹیسٹ کرکٹ میں ناقابل یقین کارکردگی دکھائی۔

جنوبی افریقہ جیسے سخت حریف کے خلاف حیران کن طور پر اپنے کمزور شعبے بلے بازی کی بدولت سیریز برابر کرنے سے لے کر رواں سال کے اوائل میں عالمی نمبر ایک انگلستان کو 3-0 سے کلین سویپ کر کے تاریخی کارنامہ انجام دینے تک، کامیابیوں کا ایک طویل سلسلہ تھا جس کا پھل پاکستان کو اس صورت میں ملا ہے کہ وہ اس وقت عالمی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر ہے۔

لیکن انگلستان کے خلاف اس تاریخی کامیابی کے فوراً بعد کرکٹ ٹیم کو ’نظر‘ لگ گئی 🙂 اسے نہ صرف انگلش ٹیم کے خلاف ون ڈے سیریز کے چاروں مقابلوں میں شکست ہوئی بلکہ اس کے بعد حالیہ دورۂ سری لنکا میں وہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے دونوں سیریز میں صرف ایک، ایک مقابلہ ہی جیت پایا۔ اول الذکر ‎سیریز تو 1-1 سے برابر ٹھیری لیکن ون ڈے میں پاکستان کو 3-1 کے واضح مارجن سے شکست کھانا پڑی۔ پے در پے شکستوں کے بعد رہی سہی کسر مصباح الحق پر پابندی نے پوری کر دی، جنہیں پانچویں ایک روزہ مقابلے میں ’سست روی سے اوورز پھینکنے‘ کی پاداش میں ایک میچ کی پابندی بھگتنا پڑی اور وہ گال میں سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں کھیلنے کے اہل نہیں رہے۔

گال کے تاریخی شہر میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میں محمد حفیظ کی زیر قیادت پاکستان سخت دباؤ میں میدان میں اترا اور بالآخر 209 رنز کی بدترین شکست کے بعد باہر آیا۔ سیریز کا واحد فیصلہ کن ٹیسٹ وہی تھا جس میں مصباح موجود نہ تھے۔ پاکستان نے اگلے دونوں میچز میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ناقص امپائرنگ اور موسم کی مداخلت اور سری لنکن بلے بازوں کی اچھی مزاحمت نے پاکستان کو دوبارہ سیریز میں واپس آنے کا موقع نہ دیا اور بقیہ دونوں مقابلے بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم ہو گئے۔

گو کہ یہ سیریز بڑی مایوس کن رہی لیکن یہ تین سال قبل اسی سرزمین پر پاکستان کی شکست سے کہیں زیادہ حوصلہ افزا بھی ہے کیونکہ اس کے مثبت پہلو کہیں زیادہ ہیں۔ سب سے بڑا مثبت پہلو یہ ہے کہ اک ایسی ٹیم میں جہاں تمام سینئر کھلاڑی اپنے کیریئر کے بالکل آخری مراحل میں ہے، میں نوجوان کھلاڑی کارکردگی میں سب سے آگے رہے۔ گیند بازی میں جنید خان ہوں یا بیٹنگ میں اظہر علی، اسد شفیق یا وکٹوں کےپیچھے عدنان اکمل، تمام نوجوان کھلاڑیوں نے بہت عمدہ کارکردگی دکھائی اور اہمیت ثابت کی۔

اسد شفیق اور اظہر علی جنہوں نے انگلستان کے خلاف تاریخی سیریز میں اپنی کارکردگی کے ذریعے دنیا کے کئی کرکٹ پنڈتوں کی نظر میں قدر و منزلت حاصل کی تھی ، اس مرتبہ منجھے ہوئے بلے بازوں کی صورت میں نظر آئے۔

اسد شفیق نے مشکل وقت میں سنچری داغ کر آخری ٹیسٹ بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا  (تصویر: AFP)
اسد شفیق نے مشکل وقت میں سنچری داغ کر آخری ٹیسٹ بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا (تصویر: AFP)

تجربہ کار سعید اجمل 15 وکٹوں کے ساتھ سب سے نمایاں گیند باز رہے لیکن یہ جنید خان تھے جنہوں نے ایسی پچوں پر اپنی باؤلنگ کے جوہر دکھائے، جن میں تیز باؤلرز کے لیے کوئی زندگی نہ تھی اور حریف بلے بازوں کی 14 وکٹیں حاصل کیں جن میں دو مرتبہ اننگز میں 5، 5 وکٹیں حاصل کرنے کے کارنامے بھی شامل ہیں۔ سیریز کے تمام گیند بازوں میں سب سے عمدہ اوسط 21.78 کے حامل رہے۔

بلے بازی میں محمد حفیظ نے ایک تقریباً ڈبل سنچری کی مدد سے سب سے زیادہ 315 رنز بنائے البتہ مستقل مزاجی اور مشکل صورتحال میں کھیلنے کے معاملے میں وہ اظہر علی اور اسد شفیق کے برابر نہیں تھے۔ اظہر علی نے 2 سنچریوں کی مدد سے 300 رنز بنائے جبکہ اسد شفیق نے دو نصف سنچریوں اور ایک سنچری کے ساتھ 257 رنز بنائے۔ ان میں سے ایک سنچری تیسرے و آخری ٹیسٹ میں اس وقت بنائی گئی جب میچ سری لنکا کے پلڑے میں جھکا ہوا تھا اور ان کی اسی سنچری نے پاکستان کو تیسرے ٹیسٹ میں شکست سے بچایا۔

یہی وجہ ہے کہ کپتان مصباح الحق نتائج پر مایوس ہونے کے باوجود مستقبل سے ناامید نہیں۔ وطن واپسی کے بعد لاہور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”ہم ایک روزہ سیریز ضرور جیت جاتے، لیکن آخری دو مقابلوں میں ناقص فیلڈنگ کی وجہ سے یہ موقع ہم نے گنوا دیا۔ البتہ ٹیسٹ سیریز میں اظہر علی، اسد شفیق اور جنید خان کی عمدہ کارکردگی نے ایک اچھے مستقبل کی نوید سنائی ہے۔ انتہائی مشکل صورتحال میں ان کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور پالی کیلے میں آخری ٹیسٹ کے دوران ٹوٹے ہوئے انگوٹھے کے ساتھ جس طرح عدنان اکمل نے جرات مندانہ بیٹنگ کی وہ ایک نیک شگون تھا۔“

بہرحال، حقیقت یہی ہے کہ انفرادی سطح پر چند اچھی کارکردگیوں کے باوجود پاکستان کے لیے یہ دورہ بہت مایوس کن رہا اور انگلستان کے خلاف محدود اوورز کی سیریز میں ناکامی کا تسلسل سری لنکا میں بھی جاری رہا۔ پاکستان کے پاس سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سےقبل آخری موقع ہے کہ وہ آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں طے شدہ محدود اوورز کی سیریز میں اچھی کارکردگی دکھائے۔ بصورت دیگر وہ دل شکستہ حال ہی میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کھیلنے سری لنکا پہنچے گا اور یوں وہاں ایک مرتبہ پھر اعزاز اپنے نام کرنے میں ناکام ہوگا۔