شاہد آفریدی دوبارہ ٹی ٹوئنٹی کپتان بنیں گے؟

2 1,040

سری لنکا کے مایوس کن دورے سے واپسی کے بعد اب پاکستان کی نظریں گو کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی پر مرکوز ہیں لیکن اس سے پہلے اسے ایک اور ہمالیہ سر کرنا ہے: آسٹریلیا کے خلاف متحدہ عرب امارات میں محدود اوورز کی ایک سیریز۔ آسٹریلیا انگلستان کے خلاف حالیہ بدترین شکست کے باوجود ایک روزہ کرکٹ میں نمبر ایک ٹیم ہے اور اس کے خلاف 3 ون ڈے اور 3 ٹی ٹوئنٹی مقابلے پاکستان کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوگا۔ جس کی محدود اوورز کی طرز میں حالیہ کارکردگی بہت شرمناک رہی ہے۔

شاہد آفریدی نے بورڈ میں اثر و رسوخ رکھنے والے ایک اہم بیوروکریٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ بورڈ سے کچھ اس طرح بات کریں کہ میری ناک بھی نیچے نہ ہو اور کپتانی کی ذمہ داری بھی مل جائے (تصویر: Reuters)
شاہد آفریدی نے بورڈ میں اثر و رسوخ رکھنے والے ایک اہم بیوروکریٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ بورڈ سے کچھ اس طرح بات کریں کہ میری ناک بھی نیچے نہ ہو اور کپتانی کی ذمہ داری بھی مل جائے (تصویر: Reuters)

متحدہ عرب امارات کے انہی میدانوں میں اسےسال کے اوائل میں انگلستان کے ہاتھوں 4-0 کی ذلت سہنا پڑی اور اس کے بعد سری لنکا میں 3-1 سے ایک اور سیریز میں اسے شکست ہوئی۔ دونوں سیریز میں اسے ٹی ٹوئنٹی مرحلے میں بھی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ گو کہ انگلستان کے خلاف شکست کے بعد ٹیم میں کچھ ’جوہری تبدیلیاں‘ کرنے کی کوشش کی گئی خصوصاً اک طویل پس پردہ ہنگامہ آرائی کے بعد جس طرح مصباح الحق کو ٹی ٹوئنٹی طرز سے ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا گیا تاکہ وہ باعزت طور پر ’کھڈے لائن‘ لگ جائیں اور محمد حفیظ کو نیا قائد بنایا جا سکے، لیکن یہ سب کچھ بھی پاکستان کی ناکامیوں کا تسلسل نہ روک سکا۔

محمد حفیظ نے ٹی ٹوئنٹی تو ایک طرف، مصباح کی عدم موجودگی میں ایک ٹیسٹ بھی پاکستان کو ہروا دیا جس کی وجہ سے پاکستان سری لنکا کے خلاف سیریز میں شکست سے دوچار ہوا۔ پھر سوائے ایک ٹیسٹ میں 196 رنز بنانے کے حفیظ کی حالیہ فارم پر بہت بڑا سوالیہ نشان عائد ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چند با اثر حلقے ان کی کارکردگی خصوصاً قائد کی حیثیت سے گزارے گئے مختصر عرصے سے بالکل خوش نہیں ہیں۔

تجربہ کار اوپنر کو یہ عہدہ مصباح الحق کی اس طرز میں مبینہ نااہلی اور شاہد آفریدی کے ناز نخروں کی وجہ سے سونپا گیا تھا لیکن اب حالیہ کارکردگی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کا ’تھنک ٹینک‘ ایک مرتبہ پھر آفریدی کی منت سماجت کر رہا ہے کہ وہ قیادت کی ذمہ داری اٹھا لیں اور ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ میں پاکستان کی قیادت کریں۔ ویسے اس امر کے بھی بہت زیادہ امکانات دکھائی دیتے ہیں کہ شاہد آفریدی آسٹریلیا کے خلاف آفریدی ٹی ٹوئنٹی مرحلے میں قومی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کریں۔

شاہد آفریدی کو اس معاملے میں سب سے بڑی حمایت کوچ ڈیو واٹمور کی جانب سے حاصل ہے جو پے در پے شکستوں کے بعد اب اپنی ’نشست‘ بچانا چاہتے ہیں۔ البتہ اس مرحلے پر سب سے بڑی رکاوٹ انتخاب عالم ہیں جو شاہد آفریدی کی راہ میں مستقل رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے چیئرمین کرکٹ بورڈ کو یہ عذر پیش کیا ہے کہ شاہد آفریدی ’غیر سنجیدہ‘ ہیں اور ٹیم کی اندر کی باتیں ذرائع ابلاغ کے سامنے کر دیتے ہیں اس لیے انہیں قیادت جیسے اہم منصب سے دور رکھا جائے۔

دوسری جانب تھنک ٹینک میں شامل دیگر سابق ٹیسٹ کرکٹرز کا کہنا ہے کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سال کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے اور یکے بعد دیگرے شکستوں کے بعد شاہد آفریدی کو قیادت سونپ کر اس سلسلے کو روکا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اس طرز کی کرکٹ کے بہترین کھلاڑی ہیں اور پاکستان کی بہتر انداز میں قیادت کر سکتے ہیں۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی قیادت کس کے ہاتھ دینی چاہیے؟


Loading ... Loading ...

دلچسپ بات یہ ہے کہ شاہد آفریدی جو پہلے قیادت سنبھالنے سے انکار کرتے رہے ہیں، اب اپنے قریبی حلقوں، حتیٰ کہ ایک مرتبہ ذرائع ابلاغ کے سامنے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں قیادت سنبھالنے کو کہا گیا تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں شاہد آفریدی نے کرکٹ بورڈ میں اثر و رسوخ رکھنے والے ایک اہم بیوروکریٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ بورڈ سے کچھ اس طرح بات کریں کہ میری ناک بھی نیچے نہ ہو اور کپتانی کی ذمہ داری بھی مل جائے۔

اس تمام صورتحال سے چیئرمین کرکٹ بورڈ ذکا اشرف خاصے پریشان ہیں اور اس معاملے پر کوئی فیصلہ یا تو آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے قبل کیا جا سکتا ہے یا پھر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے پہلے کوئی اہم تبدیلی آ سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں حفیظ ہی ٹی ٹوئنٹی کپتان رہیں اور پھر اس سیریز کی کارکردگی کی بنیاد پر ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے نئے قائد کا فیصلہ کیا جائے۔

شاہد آفریدی ماضی میں پاکستان کی قیادت کر چکے ہیں اور عالمی کپ 2011ء میں قومی کرکٹ ٹیم انہی کی زیر قیادت سیمی فائنل تک پہنچی۔ بعد ازاں دورۂ ویسٹ انڈیز میں اس وقت کے کوچ وقار یونس سے اختلافات کے باعث انہیں قیادت اور ٹیم میں مقام دونوں سے محروم ہونا پڑا اور سابق چیئرمین اعجاز بٹ کے عہدہ چھوڑنے کے بعد ہی ان کی ٹیم میں واپسی کی سبیل بنی۔