ہم موہالی کیسے پہنچے

16 1,088

مجھے نہیں معلوم کہ یہ کوارٹر فائنل میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان کی آسان فتح تھی یا عالمی کپ میں بھارت کے خلاف پے در پے شکستوں کا سلسلہ ختم ہوتا دیکھنے کی تمنا جس نے یوم پاکستان پر مجھے یہ خواب دکھایا۔ پاکستان عالمی کپ میں روایتی حریف کے خلاف اُس وقت تک کھیلے گئے چاروں مقابلوں میں شکست سے دوچار ہوا تھا۔

دراصل اُسی روز میں نے پڑھا تھا کہ بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے پاکستانی شائقین کے لیے ویزا کے فوری اجراء کا عہد کیا ہے۔ جیتنے کے بعد میں نے اپنی بہترین دوست، جو کرکٹ جنون میں میری ساتھی بھی ہے، کو فون کیا اور بتایا کہ ہمیں موہالی جانا ہوگا۔ اگر بھارت آسٹریلیا کے ہاتھوں کوارٹر فائنل جیت گیا تو بڑی تعداد میں ٹکٹ دستیاب ہو جائیں گے، اور اگر وہ جیت گئے تو ہم ’عظیم ترین مقابلہ‘ دیکھنے کا موقع ملے گا۔ مجھے یاد نہیں کہ اس کا فوری ردعمل کیا تھا ’تم پاگل تو نہیں ہو؟‘ یا ’بڑی تفریح آئے گی‘۔

ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ پہلا قدم کیا اٹھانا ہے، لیکن ایک لحاظ سے یہ اچھا بھی تھا کیونکہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہماری خواہش کا حقیقت سے کتنا واسطہ ہے، اور اس پر عملدرآمد کس حد تک ممکن ہے۔

ایک ”وائرل ٹوئٹر مہم“ کی وجہ سے ایشیز میں پہنچنے والی ایشلے کریکس سے متاثر ہو کر ہم نے ٹکٹ اور ویزا معلومات کے حصول کے لیے ٹوئٹر پر #getthegirlstomohali ہیش ٹیگ شروع کیا اور ایسی رعایتوں کی توقعات لگا بیٹھے جن کا عقل سے دور پرے کا بھی واسطہ نہ تھا۔ ہمارے پاس ویزا،میچ ٹکٹ حاصل کرنے اور بذریعہ جہاز، ٹرین یا ٹیکسی موہالی پہنچنے کے لیے کل ملا کر سات دن تھے۔ یہ کتنا مشکل ہو سکتا تھا؟۔

اپنی ’کرکٹ یاترا‘ کو ممکن بنانے کے لیے میں نے تمام معلومات– ویزا فارم کے لیے لنک سے لے کر صبح پانچ بجے اسلام آباد میں پرنٹر کی تلاش تک – ٹوئٹر سے حاصل کیں:

  • پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) 500 ڈالرز میں ایک ویزا-ہوٹل-میچ ٹکٹ پیکیج دیتا ہے لیکن بورڈ کی کسی با اثر شخصیت سے جان پہچان ضروری ہے۔
  • اگر آپ ہائی کمیشن میں کسی کو جانتی ہیں تو بھارتی سفارت خانہ ٹکٹوں کے ساتھ ویزا جاری کر رہا ہے (صبح ساڑھے 10 سے دوپہر 3 بجے تک انہوں نے فون نہیں اٹھایا)۔
  • اگر آپ کے پاس ویزا ہے تو ٹکٹ حاصل کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
  • اصل میں ویزا حاصل کرنے کے لیے آپ کے پاس ٹکٹ ہونا ضروری ہے۔ پاکستانی شائقین کے لیے چند ٹکٹ ضرور مختص کیے گئے ہوں گے۔
  • میچ کو کور کرنے والے چند صحافیوں تک کے پاس ابھی تک ویزا نہیں، اس وقت ویزا کے لیے درخواست دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔
  • فوراً سے پیشتر ویزا کی درخواست دیں، میرے خیال میں آپ کو مل جائے گا۔

ان چند ٹویٹس سے اندازہ ہو گیا ہوگا آپ کو۔

بہرحال، ہمیں پہلی کامیابی جمعے کو حاصل ہوئی، جب مہربان سفیر حسین حقانی نے ہمیں ٹوئٹر پر پیغام دیا کہ وہ کوشش کریں گے اور ٹکٹ حاصل کرنے میں مدد دیں گے۔ اب مجھے ٹکٹ ملنے کی ایک معقول امید نظر آنے لگی، میں نے ایک اور دوست کو ساتھ لے لیا۔ ہم نے فوری طور پر ویزا درخواست جمع کرانے کا سوچا، لیکن مشورہ دیا گیا کہ بہتر ہے کہ پیر کی صبح بذاتِ خود جا کر درخواست جمع کرائی جائے، جی ہاں پیر کے دن یعنی میچ سے صرف دو دن پہلے۔ ہم نے ’عظیم ترین مقابلہ‘ دیکھنے کے لیے آپریشن #getthegirlstomohali کا آغاز کراچی سے اسلام آباد اور پھر لاہور جانے کے منصوبے کے ذریعے کیا۔

اگلا قدم بھارتی ویزا درخواست کا فارم بھرنا تھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ عمل اتنا ہی حوصلہ شکن تھا جتنا کہ یہ سوچنا کہ ٹیسٹ کرکٹ محمد عامر سے محروم ہو چکی ہے: ”Go Back“ کا کوئی آپشن نہ تھا اور زیادہ وقت لینے کی صورت میں فارم کا صفحہ ہی معطل ہو جاتا۔

اس کے علاوہ غیر تکنیکی چیلنجز بھی تھے۔ ہم نے پہلی رکاوٹ تو عبور کر لی، بشکریہ دلیپ پرماچندرن، جنہوں نے ہمارا اسپانسر بننے پر رضامندی ظاہر کی لیکن ہمیں ایک جائے قیام کی اب بھی ضرورت تھی اور چندی گڑھ اور قرب و جوار کے تمام ہوٹل بھر چکے تھے۔ ہماری ویزا درخواست کی حتمی تاریخ پیر 28 مارچ صبح ساڑھے 8 بجے تھی، یعنی اتوار کی شام تک ہوٹل حاصل کرنے میں ناکامی کا مطلب تھا کہ ہمیں بھارت میں کسی ایسے شخص کے دعوت نامے کی ضرورت پڑتی جو متعلقہ دستاویز کے ساتھ ہمیں اپنے پاس قیام کے لیے مدعو کرتا۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے اب تک نہ ملنے والےمیچ ٹکٹوں کی فوٹو کاپیاں بھی لگانی تھیں۔

یہ ایک طویل و کٹھن مرحلہ تھا، لیکن اجنبی ’دوستوں‘ کی کرم نوازیاں کام آئیں۔ دہلی کی ایک صحافی نے بظاہر ہماری میزبان ہونے پر رضامندی ظاہر کی، اس سے قبل ایک اور ہوشیار اور انتہائی مہربان اجنبی نے لدھیانہ سے ہمیں ٹویٹ کیا کہ وہ ہمیں ہوٹل بکنگ دے سکتے ہیں۔ موہالی میں ایک اور دوست نے ہمیں میچ کے تین وی آئی پی پاسز کی تصویر بھیجی اور ہم ویزا درخواست کے تمام مطالبات پورے کرنے کے لیے تیار تھے – شکریہ ان تمام ہندوستانیوں کا جن سے ہم کبھی نہ ملے تھے!

پاکستانی ہائی کمیشن کا وہ افسر جو ہماری درخواستوں کو بھارتی ہائی کمیشن کو بھیجنے مامور تھا، ناشتہ کرنے کے لیے بے تاب تھا، لیکن اس نے اپنی بساط سے بڑھ کر ہماری مدد کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ویزا درخواست جو میں نے تین راتوں میں بھری تھی مکمل طور پر غلط کہلائی۔ شکر ہے کہ اب معاملہ ’آف لائن‘ تھا اس لیے ہم نے جلد از جلد فارم کو پر کیا، ویزا فیس ادا کی اور بسم اللہ اور شکریہ کے ساتھ مرحلہ طے پا گیا۔

ہمیں بتایا گیا کہ آپ کو رات تک حتمی فیصلے کے بارے میں بتا دیا جائے گا، اس لیے ہم گھر پلٹے اور میچ ٹکٹوں کی تلاش شروع کرنے سے پہلے ہی بستر پر ڈھیر ہو گئے۔ بعد ازاں ہم نے اپنی ٹوئٹر مہم کو آگے بڑھایا، تقریباً ہر اُس کزن، اسکول کے زمانے کے دشمن اور سابق رفیق کار کو پیغام بھیجا جس کے بارے میں معلوم تھا کہ انہوں نے پی سی بی میں کام کیا ہے یا ٹورنامنٹ اسپانسر میں کسی کو جانتے ہیں، یہاں تک کہ تمام آن لائن بلیک مارکیٹ ٹکٹ فروخت والوں کو ای میلز تک کر ڈالیں۔ شام تک ہمیں ٹکٹوں کے دو وعدے مل گئے – ایک مہربان سفیر کی جانب سے اور ایک ٹائمز آف انڈیامیں ایک دوست کے دوست کی جانب سے۔ اب صرف ایک ٹکٹ رہ گیا۔۔۔

رات کو 8 بجے کے قریب – میچ سے 42 گھنٹے قبل – ہمیں دفتر خارجہ کی طرف سے کال آئی جس میں بتایا گیا کہ ہمارے ویزے منظور ہو گئے ہیں: 10 دن کے لیے چندی گڑھ، موہالی اور ممبئی کے (گو کہ ہم نے ممبئی کا کہا بھی نہ تھا!) لیکن اُن پر مہر نہیں لگائی گئی، اس لیے ہمیں 11 بجے رات تک انتظار کرنا ہوگا۔ یہ ایک زبردست خبر تھی اور ہمیں اگلی صبح لاہور روانگی کے لیے رات میں ہی یہ ویزے اُٹھانے تھے اور میچ سے قبل موہالی پہنچنا تھا۔ یہ وقت اور ہمارے درمیان دوڑ کا مقابلہ تھا۔

نصف شب تک دفتر خارجہ سے کوئی اطلاع نہیں ملی، پھر ایک کال موصول ہوئی کہ میری دوست کا ویزا آ چکا لیکن میرا ویزا نہیں اور اگلی صبح کم از کم 11 بجے تک آئے گا بھی نہیں۔ یعنی میرا کھیل تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ مجھے یقین نہیں آیا۔ لڑکیوں نے کہا کہ وہ میرے بغیر نہیں جائیں گی۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ بے وقوف نہ بنیں اور ضرور جائیں۔ ہم اتنے تھک چکے تھے کہ بحث کرنے کی ہمت بھی نہ تھی، اس لیے مزید بحث مباحثے کو صبح کے لیے چھوڑ رکھا اور بستر پر ایسے پڑ گئے جیسے کئی دنوں کے جاگے ہوئے ہوں۔

دوپہر تک سوتے رہے۔ یہ میچ سے قبل آخری دن تھا۔ بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے میرے پاسپورٹ کے بارے میں کوئی اطلاع نہ تھی۔ بہرحال ہمیں ہر صورت میں لاہور کے لیے نکلنا تھا، چاہے بھارت جائیں یا نہ جائیں، اس لیے ناشتہ زہر مار کیا، سامان باندھااور پاسپورٹ لینے نکل پڑے، ویزے کی مہر کے ساتھ ہوں یا بغیر۔ دفتر خارجہ جاتے ہوئے راستے میں اطلاع ملی میرا پاسپورٹ واپس آ گیا ہے۔ دوپہر کا ایک بج رہا تھا – یعنی آج کے دن سرحد پار جانے کا وقت نکل چکا تھا۔ اگر ہم اگلی صبح 9 بجے سرحد پار کرتے تو ہم 2 بجے تک اسٹیڈیم پہنچ سکتے ہیں، اور یہی میچ کے باضابطہ آغاز کا وقت تھا۔ اور اس سے قبل بھارت میں مختلف ذرائع سے اپنے ٹکٹ اٹھانا ایک علیحدہ چیلنج تھا، لیکن ہم نے جانے کا فیصلہ کر لیا۔

سرحد پار کرتے ہوئے
سرحد پار کرتے ہوئے

ہماری قسمت ایک مرتبہ پھر پلٹا کھا چکی تھی۔ ہمارے ہوٹل ریزرویشن والے بندے، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے اور ہم اس کا نام سپرمین تصور کر لیتے ہیں – کے ذریعے تیسرا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش میں ہمیں ایک پاس مل گیا۔ ہم نے لاہور کی بس پکڑی اور ان پہلوؤں کے بارے میں بھی منصوبہ بندی شروع کر دی جس کے بارے میں ہم نے پہلے سوچا ہی نہیں تھا، جیسا کہ ہم میچ میں ہرے کرتے پہنیں گے یا ٹیم جرسی۔ ہمیں جھنڈوں اور ہرے پراندوں، چوڑیوں، چہرے پر پینٹ، اسٹیکرز، سبز glitter اور wigs کی بھی ضرورت تھی۔ موٹر وے پر سفر کے دوران ایک دکان پر جھنڈے یا دیگر سبز رنگ کا درکار سامان تو نہ ملا، لیکن اُس کے پاس ہمیں شاہد آفریدی کو دو بڑے پوسٹرز ضرور مل گئے (جو دراصل کھڑکی پر چپکے ہوئے موبائل کمپنی کے ایک اشتہارات تھے)۔ ہم نے اسے رضامند کیا کہ وہ ایک ہمیں دے دے۔ لاہور پہنچے اور سامان کو اس ایک دستی بیگ میں گھسیڑا جو ہمیں اسٹیڈیم میں لے جانا تھا۔ نیند ایک مرتبہ پھر حرام!

سپرمین نے ہمیں بتایا تھا کہ سرحد صبح سویرے ساڑھے چھ بجے کھلتی ہے، اور اگر ہم 7 بجے عبور کر لیں تو ہم پانچ گھنٹے کی ڈرائیو کے باوجود اسٹیڈیم پہنچ جائیں گے۔ ہم صبح پونے سات بجے سرحد پر پہنچے اور چند لڑکوں کو قومی ٹیم کی جرسیوں میں دیکھا، جو انتظار کر رہے تھے۔ ایک محافظ نے ہمیں بتایا کہ امیگریشن کا عملہ صبح 9 بجے سے پہلے نہیں آئے گا، لیکن ایک دوست نے کمالِ مہربانی سے ہمارے نام سرحد پر چند عہدیداروں کو دیے، ہم نے اُن سے درخواست کی کہ وہ ریکارڈ چیک کریں اور انہوں نے ہمیں جانے کی اجازت دے دی۔ سرحد کے پاکستانی طرف امیگریشن اور کسٹمز ایک دم پھرتیلی تھی۔ ہم نے پیسے بھی ایکسچینج کروائے – بھورے رنگ کی شلوار قمیص پہنے ایک لڑکے سے جس نے ساری کرنسی اپنی شلوار کی جیب میں رکھی ہوئی تھی۔ شیخ رشید ہم سے آگے قطار میں لگے تھے ۔

ہم دوڑتے ہوئے بھارت میں داخل ہوگئے۔ یہ ایک خوابناک منظر تھا۔ سرحد پر بھارتی محافظ کے چہروں پر مسکراہٹ تو نہ تھی لیکن وہ پھرتیلے ضرور تھے۔ رجسٹریشن پر موجود باتونی عملے نے ہمیں بتایا کہ ہمارے پاس موہالی پہنچنے کے لیے کافی وقت ہے اور ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کروائی کہ بارش نہیں ہوگی۔ دوڑتے ہوئے کسٹمز پہنچے، جہاں، سپرمین کی مہربانی سے، ہمارے نام ’اچھے لوگوں کی فہرست‘ میں درج تھے۔ ایک اور فارم بھرا، قطار میں لگے، دیگر پاکستانی شائقین سے اپنے چہروں کے لیے سبز رنگ لیا اور جب تک ہمارے پاسپورٹ اسکین اور کاپی کے مرحلے سے گزرتے ہم نےاپنے چہروں کو سبز رنگ دے دیا۔ 15 منٹوں کے ”طویل انتظار“ کے بعد کسٹمز مرحلے کو عبور کر لیا، عملہ بہت مددگار تھا۔ انہوں نے ہمارا آفریدی والا فضول ’پوسٹر‘ بھی پسند کیا۔

اور یوں ہم بھارت میں تھے۔ درجن بھر ٹیکسی والوں نے ہمیں گھیر لیا، جن میں سے ہر کسی کی گاڑی پر ”پاکستان کے لیے خصوصی اجازت کا حامل“ کے نشان چسپاں تھے، ہر کسی کا اصرار تھا کہ ہم اس کے ساتھ جائیں۔ ہم نے ایک ٹیکسی والے کے فون سے اپنے ٹیکسی والے کو فون کیا – وہ کافی دور تھا لیکن پھر بھی اس کا کہنا تھا کہ وہ دو منٹ میں پہنچتا ہے اور ہم وہاں موجود ٹیکسی والوں کے دھوکے میں نہ آئیں۔ ہم نے 20 منٹ انتظار کیا ، جو وہاں کھڑے ٹیکسی والوں سے اس بحث میں گزارے گئے کہ وہ اپنے نرخ (8 ہزار روپے) کو ہمارے پہلے سے طے شدہ ٹیکسی والے کے نرخ (3200 روپے) تک لائیں۔ اسی دوران ہمیں سرحد پار کرتے دو ’انکل‘ دکھائی دیے جو ٹیم جرسی میں ملبوس تھے اور ایسے سیاہ چشمے لگائے ہوئے تھے جو 90ء کی دہائی میں وقار یونس لگاتے تھے۔ ہم فوراً دوڑے اور کہا کہ کیا وہ میچ میں جانے کے لیے سواری ہمارے ساتھ شیئر کریں گے۔ اور وہ رضامند ہو گئے۔

15 منٹ کے سفر کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ اُن کے پاس تین اضافی ٹکٹ ہیں جس کے لیے وہ موہالی ميں رہنے والے اپنے ایک گالفر ساتھی کو آمادہ کر رہے تھے۔ ہر گزرتے منٹ اور لدھیانہ، چندی گڑھ اور موہالی میں ٹکٹ کے لیے اپنے ذرائع کو ہر کال کے ساتھ ہمیں یہ محسوس ہوتا رہا کہ ہمارے لیے اِن ٹکٹوں کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی: یہ ایک ہی اسٹینڈ کے تھے اور ایک ہی گاڑی میں موجود تھے۔ ہمیں برا تو بہت محسوس ہو رہا تھا کہ وہ پاسز استعمال نہ کریں جو ہمارے دوستوں نے بہت محنت کے بعد ہمارے لیے رکھے تھے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس اُنہیں اٹھانے کا وقت نہ تھا۔ اس لیے ہم نے اگلے چار گھنٹے اپنے ان لاہوری دوستوں کو اس بات پر قائل کرنے میں گزارے کہ ہم ان ٹکٹوں کے ’اصلی تے وڈے‘ حقدار ہیں، اُس شخص سے زیادہ جو ایک پاک-بھارت میچ والے دن بھی گالف کھیل رہا ہے۔ اُنہیں یقین نہ آیا کہ ہم بغیر ٹکٹوں کے سرحد عبور کر چکے ہیں۔ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کوئی میچ دیکھنے کے لیے اتنا دیوانہ بھی ہو سکتا ہے: ان میں سے (گالفر) نے سوچ رکھا تھا کہ وہ ویزا ملتے ہی سیدھا ممبئی جائے گا اور دوسرے کو یہ ٹکٹ گھر بیٹھے ملے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مذاکرات کیسے کامیاب ہوئے لیکن ہم نے اُن سے ٹکٹ نکلوا ہی لیے۔ (شاید ”ہم کراچی سے طویل سفر کر کے پہنچے ہیں اور چار راتوں سے نہیں سوئے“ اور ۔۔۔ ”اچھا مجھ سے کرکٹ کے بارے میں کچھ بھی پوچھیں!“ جیسے دلائل استعمال کر کے)

موہالی میں خوشی سے دمکتے چہرے
موہالی میں خوشی سے دمکتے چہرے

ہم کچھ اوورز تاخیر سے میدان میں پہنچے اور کچھ دیر اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد بالآخر ایسی جگہ مل گئی جہاں وہاب ریاض اور اکمل برادران کے اہل خانہ بیٹھے ہوئے تھے۔ وریندر سہواگ ہمارے بہترین باؤلر کی درگت بنا رہا تھا، لیکن ہم خوشی سے چہک رہے تھے: کیونکہ ہم موہالی پہنچ چکے تھے!