100 ویں ٹیسٹ میں سنچری؛ گریم اسمتھ عظیم بلے بازوں میں شامل

13 1,227

اوول میں انگلستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان پہلے ٹیسٹ کا کھیل جاری ہے جو کئی لحاظ سے ایک تاریخی مقابلہ ہے۔ ایک تو یہ دونوں ٹیموں کے درمیان ٹیسٹ درجہ بندی میں سرفہرست پوزیشن حاصل کرنے کا پہلا معرکہ ہے وہیں یہ جنوبی افریقی قائد گریم اسمتھ کیریئر کا 100 واں ٹیسٹ بھی ہے اور انہوں نے پہلی اننگز میں سنچری اسکور کر کے اسے اپنے لیے مزید یادگار بنا دیا ہے۔

گریم اسمتھ نے 100 ویں ٹیسٹ میں 24 ویں سنچری بنائی، انہوں نے جب بھی سنچری اسکور کی جنوبی افریقہ کو شکست نہیں ہوئی (تصویر: Getty Images)
گریم اسمتھ نے 100 ویں ٹیسٹ میں 24 ویں سنچری بنائی، انہوں نے جب بھی سنچری اسکور کی جنوبی افریقہ کو شکست نہیں ہوئی (تصویر: Getty Images)

تہرے ہندسے کی اس اننگز کی بدولت گریم اسمتھ کرکٹ کی تاریخ کے ساتویں بلے باز بن گئے ہیں جنہوں نے 100 ویں ٹیسٹ مقابلے میں سنچری اسکور کی۔ ان سے قبل 6 بلے باز یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں۔ گریم اسمتھ نے حریف انگلستان کے 385 رنز کے جواب میں اس وقت ہاشم آملہ کے ساتھ اننگز سنبھالی جب جنوبی افریقہ 1 رن پر اپنے دوسرے اوپنر الویرو پیٹرسن کو گنوا چکا تھا۔ اس موقع پر اسمتھ اور ہاشم آملہ نے دوسری وکٹ پر 259 رنز کی زبردست شراکت داری قائم کی اور جنوبی افریقہ کو مقابلے میں مکمل طور پر حاوی کر دیا۔

گریم اسمتھ نے 273 گیندوں پر 20 چوکوں کی مدد سے 131 رنز بنائے اور تیسرے روز چائے کے وقفے سے کچھ دیر قبل ٹم بریسنن کی گیند پر بدقسمتی سے بولڈ ہو گئے۔ جب گیند ان کے بلے سے لگنے کے بعد پیڈ سے ٹکرائی اور پھر دونوں ٹانگوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی وکٹوں میں جا لگی۔ بہرحال تب تک وہ تاریخ رقم کر چکے تھے یعنی ’سنچری ٹیسٹ میں سنچری‘ بنانے والے خاص کلب میں پہلے جنوبی افریقی کھلاڑی۔

اگر اس ریکارڈ کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ انوکھا سنگ میل سب سے پہلے انگلستان کے معروف کپتان کولن کاؤڈرے نے جولائی 1968ء میں آسٹریلیا کے خلاف ایجبسٹن ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 104 رنز بنا کر عبور کیا تھا۔انگلستان کے اس عظیم کپتان نے ایشیز 1968ء کے تیسرے ٹیسٹ میں 247 گیندوں پر 104 رنز بنائے تھے۔ وہ اگلے 21 سال تک اس کلب میں واحد کھلاڑی رہے۔

یہاں تک کہ دسمبر 1989ء میں پاکستان کے جاوید میانداد نے بھارت کے خلاف قذافی اسٹیڈیم میں اپنا 100 واں ٹیسٹ مقابلہ کھیلا اور 145 رنز کی شاندار اننگز کھیل کے اس فہرست میں جگہ پانے والے دوسرے بلے باز بن گئے۔ اس اننگز کی خاص بات یہ ہے کہ بھارت پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے سنجے مانجریکر کی ڈبل سنچری کی بدولت 509 رنز کا مجموعہ اکٹھا کر چکا تھا اور جواب میں پاکستان نے بلے بازی میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار کیا اور میانداد کے 145 رنز کے علاوہ شعیب محمد کی ناقابل شکست ڈبل سنچری کی بدولت 699 رنز 5 کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ پانچویں دن کا اختتام کیا۔ ٹیسٹ بغیر کسی نتیجے تک پہنچے تمام ہوا۔

ویسٹ انڈیز کے مایہ ناز اوپننگ بلے باز گورڈن گرینج نے انگلستان کے خلاف اپریل 1990ء میں سینٹ جانز، اینٹیگا میں اپنے 100 ویں ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 149 رنز بنا کر یہ انوکھا اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے انگلستان کے 260 رنز کے جواب میں اپنی پہلی اننگز شروع کی اور پہلی ہی وکٹ پر ڈیسمنڈ ہینز کے ساتھ 298 رنز کی شاندار رفاقت قائم کی جس کا اختتام گرینج کے رن آؤٹ کے ساتھ ہوا۔ گرینج کی اننگز 207 گیندوں پر محیط تھی جس میں 3 چھکے اور 18 چوکے شامل تھے۔ وہ 380 منٹ تک کریز پر موجود رہے اور بالآخر رن آؤٹ ہو کر 149 پر پویلین پہنچے۔ شاندار بلے بازی کی بدولت بعد ازاں ویسٹ انڈیز نے یہ ٹیسٹ اننگز اور 32 رنز سے جیتا اور سیریز بھی اپنے نام کی۔

اس فہرست میں چوتھے بلے باز انگلستان کے وکٹ کیپر بیٹسمین ایلک اسٹیورٹ ہیں۔ طویل عرصے تک وکٹوں کے پیچھے انگلستان کے لیے ذمہ داریاں انجام دینے والے اسٹیورٹ نے اپریل 2000ء میں اولڈ ٹریفرڈ، مانچسٹر میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کیریئر کا 100 واں ٹیسٹ کھیلا اور پہلی اننگز میں اس وقت 105 رنز کی میچ بچاؤ اننگز کھیلی جب انگلستان 17 رنز پر اپنے تینوں ابتدائی بلے بازوں سے محروم ہو چکا تھا۔ انہوں نے مارکوس ٹریسکوتھک کے ساتھ مل کر چوتھی وکٹ پر 179 رنز کی شراکت داری کی۔ ان کی اننگز 153 گیندوں پر مشتمل تھی جس کے دوران انہوں نے 13 مرتبہ گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھائی۔

انضمام کی یہ سنچری کون سا پاکستانی بھول سکتا ہے؟ جو بنگلور میں پاکستان کی تاریخی فتح کا نقطۂ آغاز بنی (تصویر: Getty Images)
انضمام کی یہ سنچری کون سا پاکستانی بھول سکتا ہے؟ جو بنگلور میں پاکستان کی تاریخی فتح کا نقطۂ آغاز بنی (تصویر: Getty Images)

اس کے بعد وہ شہرۂ آفاق اننگز آتی ہے جو آج بھی کئی پاکستانیوں کے ذہنوں میں زندہ ہے۔ انضمام الحق کی 184 رنز کی تاریخی اننگز جس کی بدولت پاکستان نے بنگلور کے چناسوامی اسٹیڈیم میں ایک یادگار فتح حاصل کی۔ مارچ 2005ء میں کھیلا گیا بنگلور ٹیسٹ پاک-بھارت سیریز کا تیسرا و آخری معرکہ تھا، اس وقت بھارت کو سیریز میں 1-0 کی ناقابل شکست برتری حاصل تھی۔ پاکستان نے اس میچ میں انضمام الحق اور یونس خان کے درمیان 324 رنز کی یادگار شراکت داری کی بدولت نہ صرف پاکستان کی فتح کی بنیاد رکھی بلکہ انضمام الحق کو اک ایسے اعزاز سے بھی نواز دیا جو اب تک قائم ہے۔ 100 ویں ٹیسٹ میچ میں سب سے طویل اننگز کھیلنے کا ریکارڈ۔ 264 گیندوں پر 25 چوکوں سے مزین 184 رنز کی اننگز 100 ویں ٹیسٹ میں کسی بھی بلے باز کی طویل ترین اننگز ہے۔ اسی مقابلے میں بعد ازاں یونس خان ہندوستانی سرزمین پر ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی بلے باز بنے۔ بہرحال، اس مقابلے کی پوری داستان یہاں ملاحظہ کیجیے۔

اس کے بعد 21 ویں صدی کی پہلی دہائی کے ایک اور عظیم کپتان رکی پونٹنگ کا نمبر آتا ہے جنہوں نے ایک بہت ہی انوکھا کارنامہ انجام دیا۔ انہوں نے جنوری 2006ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف سڈنی ٹیسٹ میں اپنے کیریئر کا 100 واں مقابلہ کھیلا اور دونوں ہی اننگز میں سنچری اسکور کر کے اپنا نام تاریخ میں امر کر لیا۔ رکی نے جنوبی افریقہ کے 451 رنز کے جواب میں کھیلی گئی آسٹریلین اننگز میں 120 رنز کی اہم ترین اننگز کھیلی۔ 174 گیندوں پر 12 چوکوں اور ایک چھکے سے مزین یہ اننگز اس لیے بھی بہت قیمتی تھی کیونکہ اسی کی بدولت آسٹریلیا کا اسکور 54 رنز 3 کھلاڑی آؤٹ سے 222 رنز تک پہنچا، جب رکی پونٹنگ پویلین سدھارے۔ رکی پونٹنگ کی دوسری اننگز میں داغی گئی سنچری اس سے بھی کہیں زیادہ اہم تھی کیونکہ اس میں آسٹریلیا اک ایسے ہدف کا تعاقب کر رہا تھا جو بظاہر کافی مشکل دکھائی دیتا تھا۔ جنوبی افریقہ نے آخری روز کھانے کے وقفے سے قبل اپنی دوسری اننگز 194 رنز 6 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کر دی اور دن کے بقیہ اوورز میں آسٹریلیا کو جیتنے کے لیے 287 رنز کا ہدف دیا۔ 30 رنز پر پہلی وکٹ گرنے کے بعد جب رکی پونٹنگ میدان میں آئے تو منظرنامہ ہی تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے نہ صرف خود برق رفتار بلے باز کی بلکہ اپنے ساتھ میٹ ہیڈن کی نظریں بھی ہدف پر ٹکا دیں۔ دونوں بلے بازوں نے دوسری وکٹ پر تقریباً run-a-ball 182 رنز جوڑے اور جنوبی افریقہ کو مقابلے اور سیریز سے محروم کر دیا۔ یہ سیریز کا تیسرا و آخری ٹیسٹ تھا جہاں جنوبی افریقہ کو سیریز برابر کرنے کے لیے لازماً فتح درکار تھی لیکن رکی کی اس ناقابل شکست 143 رنز کی اننگز نے اسے 2-0 کی مایوس کن شکست سے دوچار کیا۔ رکی نے 143 رنز محض 159 گیندوں پر 16 چوکوں کی مدد سے بنائے اور آسٹریلیا نے ہدف 61 ویں اوورز میں جا لیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ کاؤڈرے ، انضمام الحق اور رکی پونٹنگ کے بعد گریم اسمتھ نے بھی یہ اعزاز بحیثیت کپتان حاصل کیا یعنی 7 میں سے 4 بلے باز ایسے ہیں جنہوں نے قائد کی حیثیت سے یہ کارنامہ انجام دیا۔

ویسے گریم اسمتھ کو یہ انوکھا اعزاز بھی حاصل ہے کہ جس مقابلے میں بھی انہوں نے سنچری اسکور کی ہے جنوبی افریقہ کو شکست نہیں ہوئی۔ انہوں نے اوول ٹیسٹ سے قبل 23 سنچریاں بنا رکھی تھیں جن میں سے 16 میں جنوبی افریقہ کو فتح نصیب ہوئی جبکہ بقیہ مقابلے بغیر کسی نتیجے تک پہنچے ختم ہوئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اوول کے میدان میں یہی تاریخ دہرائی جائے گی یا انگلستان اپنے عالمی نمبر ایک ہونے کا بھرم قائم رکھتے ہوئے ناقابل یقین واپسی کرے گا۔ کیونکہ تیسرے روز کے اختتام پر جنوبی افریقہ نے صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر 403 رنز بنا کر انگلستان کے 385 رنز پر 17 رنز کی برتری حاصل کر لی ہے۔ اس لیے اگر جنوبی افریقہ کے برق رفتار گیند باز دوسری اننگز میں انگلستان کو محدود کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ مقابلہ جیت سکتا ہے۔

ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے اس ریکارڈ کو ایک جدول کی صورت میں بھی پیش کر رہے ہیں:

کیریئر کے 100 ویں ٹیسٹ میں سنچریاں بنانے والے بلے باز

کھلاڑی رنز ملک بمقابلہ مقام تاریخ
کولن کاؤڈرے 104 انگلستان آسٹریلیا برمنگھم 1968ء جولائی
جاوید میانداد 145 پاکستان بھارت لاہور 1989ء دسمبر
گورڈن گرینج 149 ویسٹ انڈیز انگلستان سینٹ جانز 1990ء اپریل
ایلک اسٹیورٹ 105 انگلستان ویسٹ انڈیز مانچسٹر 2000ء اگست
انضمام الحق 184 پاکستان بھارت بنگلور 2005ء مارچ
رکی پونٹنگ 120 آسٹریلیا جنوبی افریقہ سڈنی 2006ء جنوری
رکی پونٹنگ 143* آسٹریلیا جنوبی افریقہ سڈنی 2006ء جنوری
گریم اسمتھ 131 جنوبی افریقہ انگلستان اوول، لندن 2012ء جولائی