وکٹ کیپر کا دیرینہ مسئلہ، کامران اکمل آخری حل؟

6 1,161

سلیم یوسف ابھی پاکستان کے لئے کھیل رہے تھے کہ معین خان منظر عام پر آگئے۔ 1992ء ورلڈکپ سیمی فائنل میں معین خان نے جاوید میانداد کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے نیوزی لینڈ کے خلاف اس جیت میں اہم کردار ادا کیا جس نے پاکستان کو فائنل میں پہنچایا اور بالآخرپاکستان ورلڈ چمپئن بن گیا۔ اسی اننگز نے معین خان کی وکٹ کیپنگ خامیوں پر پردہ ڈالا اور ان کی جگہ ٹیم میں پکی ہو گئی۔ معین خان کے لئے ٹیم میں مستقل مقام حاصل کرنے کی خوشی دیرپا ثابت نہیں ہوئی کیونکہ پاکستان میں راشد لطیف معین خان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیاربیٹھے تھے۔ راشدلطیف کی طرف سے وکٹ کیپنگ پوزیشن کے لئے معین خان کو ’چتاونی‘ ملنے بعد ان دو بہترین کھلاڑیوں کے درمیان ایک مثبت طویل رسہ کشی کا آغاز ہوا۔ اس مقابلے میں اکثرمعین خان بیٹنگ میں معمولی سی بہتری، اور وسیم اکرم اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی اسٹیبلشمنٹ کی ”گڈ بک“ میں ہونے کی بدولت راشدلطیف سے جیت جاتے۔ راشدلطیف کسی بھی لحاظ سے بیٹنگ میں معین خان سے کم نہیں تھے لیکن معین خان نے اپنی بیٹنگ کارکردگی سے کئی بار راشدلطیف پر برتری حاصل کی۔ ورنہ وکٹ کیپنگ میں راشد معین سے بلاشبہ کئی درجےبہترتھے۔ 2004ء میں کامران اکمل نے ٹیم پاکستان کی وکٹ کیپنگ پر اپنی حکمرانی کا دعویٰ کرکے اس طویل جنگ کا خاتمہ کردیا۔ کامران اکمل کی آمدسے جہاں معین خان اور راشد لطیف کےپرستاروں کے درمیان جنگ بندی ہوئی، وہیں سلیکٹرز نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا۔

بیٹنگ کی صلاحیت کامران اکمل کو پاکستان کے تمام وکٹ کیپرز سے ممتاز کرتی ہے (تصویر: Getty Images)
بیٹنگ کی صلاحیت کامران اکمل کو پاکستان کے تمام وکٹ کیپرز سے ممتاز کرتی ہے (تصویر: Getty Images)

معین خان اور راشد لطیف بھی اپنے جانشیں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کامران اکمل کے راستے سے ہٹ گئے۔ کامران اکمل بلاشرکت غیرے ٹیم پاکستان کی وکٹ کیپنگ پوزیشن پر حکمرانی کرنے لگے۔ اس دوران کامران اکمل نے پاکستان کے لئے بحیثیت بلے باز چند ایسی اننگز کھیلیں جن کی بدولت سے پاکستان نے ناقابل یقین مقابلے جیتے بھی اور بچائے بھی۔ مثال کے طور پر بھارت کے خلاف کراچی ٹیسٹ، اور بھارت کے ہی خلاف موہالی ٹیسٹ جو بالترتیب کامران اکمل کی شاندار بیٹنگ کی بدولت پاکستان نے جیتا اور ڈرا کیا۔ بیٹنگ کی شاندار صلاحیت کے ساتھ اپنےکیریئر کی ابتداء میں کامران اکمل کی وکٹ کیپنگ بھی متاثرکن تھی، جس کی تعریف آسٹریلیا کے مایہ ناز وکٹ کیپر این ہیلی نے بھی کی۔

پاکستان ڈومیسٹک کرکٹ میں کامران اکمل کو للکارنے والا دوردور تک دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ پاکستان کی وکٹ کیپنگ کی جاگیر کے تن تنہا وارث بن گئے۔ یہیں سے ان کے زوال کا آغاز ہوا۔ اگر مسابقتی دوڑ نہ ہو تو ایساہی ہوتا ہے، یکے بعد دیگرے ان کی وکٹ کیپنگ میں خامیاں نظر آنے لگیں ، جو اس قدر بڑھتی گئی کہ ایک موقع پر اسپنر دانش کنیریا نے یہ شکایت تک کی کہ اُن کا کیریئر برباد کرنے میں کامران اکمل کی وکٹ کیپنگ بھی شامل ہے۔ اور پھر 2010ء کا سڈنی ٹیسٹ کون کافر بھول سکتا ہے؟ جب کامران اکمل نے چار کیچ اور ایک آسان رن آؤٹ موقع گنوا کو پاکستان کو یقینی فتح سے محروم کر دیا۔ اس ٹیسٹ کے بعد جب ٹیم انتظامیہ نے انہیں باہر بٹھانے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے کے خلاف انہوں نے اپنے بھائی عمر اکمل کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے بغاوت تک کر ڈالی ۔ اپنے غیر پیشہ ورانہ رویے اور خراب کارکردگی کے باوجود بھی کامران اکمل پر کپتان اور سلیکٹرز کا اعتماد قائم رہا۔ لیکن یہ سنہرا موقع ملنے کے باوجود کامران اکمل نے تکنیکی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی اور آسان مواقع ضایع کرنے کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ پاکستان کا ایسا کوئی میچ نہیں ہوتا جس میں کامران کیچ یا اسٹمپ نہ چھوڑتے۔ یہاں تک کہ دورۂ انگلستان میں اسپاٹ فکسنگ معاملہ منظرعام پر آگیا۔ خراب کارکردگی اور فکسنگ معاملے میں مشتبہ ہونے کے باوجود کامران اکمل عالمی کپ 2011ء میں کھیلے اور وہاں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹورنامنٹ کا مہنگا ترین کیچ ضایع کرنے اور پاکستان کی شکست کی وجہ بننے کے بعد بالآخر سیمی فائنل میں پاکستان کے سفر کے خاتمے کے ساتھ ان کی کہانی بھی تمام ہوئی۔

بالآخر تقریباً ڈیڑھ سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف محدود اوورز کی سیریز اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے لئے کامران اکمل کو ایک مرتبہ پھر طلب کیا ہے۔ عدنان اکمل، سرفراز احمد، محمد سلمان اور شکیل انصر حتیٰ کہ عمر اکمل کو بھی بطور وکٹ کیپر محدود اوورز کی کرکٹ میں آزمانےکے ویسے نتائج نہیں ملے جو انتظامیہ کو درکار تھے۔ بلے بازی کی اضافی صلاحیت کامران اکمل کو ان تمام وکٹ کیپرز پر برتری دلاتی ہے اور اگر اس عرصے میں ان کی وکٹ کیپنگ میں بہتری آئی ہے تو گویا ان سے بہتر آپشن پاکستان کے پاس موجود نہیں ہے۔

بہرحال، کامران اکمل کی خراب وکٹ کیپنگ اور اسپاٹ فکسنگ والے معاملے میں ان کی ایمانداری پر شکوک و شبہات اس مسئلے کو بہت پیچیدہ بنادیا ہے۔ کیونکہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلیکٹرز اور پاکستان کرکٹ شائقین کو وکٹ کیپر سے ایک اننگز میں 50 سے زائد رنز چاہئیں، یا وہ چاہتے ہیں وکٹ کیپر رنز بنائے نہ بنائے اس کا کیچ گرانے کا تناسب 1 فیصد سے زیادہ نہ ہو؟ جہاں تک بحیثیت ایک کرکٹ شائق مجھ سے پوچھیں تو میراجواب یہی ہوگا کہ موجودہ حالات جب پاکستان کے پاس باؤلنگ آل راؤنڈر کی کمی ہے تو ساتویں پوزیشن پر پاکستان کو ایک ایسا وکٹ کیپر چاہیے جو بیٹنگ کرسکتا ہو اور جس کی بیٹنگ پر پاکستان انحصار کرسکے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ کامران اکمل نے ماضی میں انتہائی آسان کیچ بھی گرائے ہیں اور حال ہی میں سری لنکا کے خلاف سنگا کارا نے پاکستان کو اچھی طرح سبق سکھا دیا ہے کہ ایک کیچ گرانے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر کامران اکمل بیٹنگ میں کارکردگی دکھائے تو موجودہ پاکستانی ٹیم میں سرفراز احمد، عدنان اکمل کے مقابلے میں کامران اکمل کی جگہ ٹیم میں بنتی ہے۔

جہاں تک سپاٹ فکسنگ میں کامران اکمل کی ملوث ہونے کے بارے میں شکوک وشبہات ہیں تو میرا خیال ہے پاکستان کرکٹ بورڈ اب تک حقیقت جان گیا ہوگا کہ کون کون سے کھلاڑی اس معاملے میں ملوث تھے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ کامران اکمل سلمان بٹ کے بےحد قریب تھے اور اس کے حوالے سے مظہرمجید کو بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ اب کامران اکمل کو سارے معاملے کے بارے میں کس حد تک معلومات تھیں؟ وہ براہ راست تو ملوث نہیں تھے لیکن سارے معاملے کی جان کاری رکھنے کے باوجود وہ کیوں خاموش تھے؟ اس کی پی سی بی نے انکوائری کرائی ہوگی۔ اس کی روشنی میں ہی کامران اکمل کو ٹیم میں شامل کیا گیا ہوگا۔

ایسے میں کامران اکمل کو ایک آخری چانس ملنا جائز ہے اور وقت کا تقاضا ہے۔ ہاں ذولقرنین حیدر یا عدنان اکمل اگر اپنی بیٹنگ میں اچھی خاصی بہتری لے آئیں یا پاکستان پر قسمت مہربان ہوجائے اور ایک ایسا وکٹ کیپر دریافت ہوجائے جو وکٹ کیپنگ کے ساتھ بیٹنگ بھی کرسکتا ہو تو پھر ٹیم پاکستان کے سلیکٹرزکامران اکمل کو ہمیشہ ہمیشہ کے خیرباد کہہ سکتے ہیں لیکن اس وقت نہیں۔ بہرحال اس کا انحصار کامران کی موجودہ وکٹ کیپنگ صلاحیتوں اور قسمت پر ہے، ہو سکتا ہے کہ ٹیم پاکستان کو وہ والا کامران اکمل مل جائے جس کی ایک جھلک کراچی ٹیسٹ اور موہالی ٹیسٹ میں شائقین دیکھ چکے ہیں۔