[آج کا دن] ’ایشین بریڈمین‘ ظہیر عباس کا جنم دن

4 1,049

کراچی میں پہلا ٹیسٹ کھیلنے کے تقریباً دو سال بعد جب چشمہ لگائے یہ منحنی سا نوجوان برمنگھم کے تاریخی میدان میں اترا تو کرکٹر کم اور پروفیسر زیادہ لگ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کئی لوگوں نے اسے پاکستان کا ایک محض ایک تجربہ جانا ہو، بہرحال پہلی جھلک میں انگلش تماشائیوں کو اس کھلاڑی میں ایسی کوئی خاص بات نظر نہ آئی لیکن جب اس کے بلے نے رنز اگلنا شروع کیے تو ایسے سلسلے کا آغاز ہوا جس نے اگلے 14 سالوں تک دنیا بھر کے گیند بازوں پر اپنی دہشت قائم رکھی۔ اور سب سے زیادہ داد دینے والوں میں یہی انگلش تماشائی تھے جنہوں نے کاؤنٹی کرکٹ کے 100 سے زائد مقابلوں میں اس کھلاڑی کو ایکشن میں دیکھا۔

ظہیر عباس، جو آج 24 جولائی کو اپنی سالگرہ منا رہے ہیں، کرکٹ کی تاریخ کے اک ایسے بلے باز، جن کی بلے بازی اس قدر دلکش تھی، جس کی مثالیں بہت کم ہی ملتی ہیں۔ سیالکوٹ کی زرخیز سرزمین کے اس سپوت کو اپنی انہی صلاحیتوں کی بنیاد پر ’ایشین بریڈمین‘ کہا جاتا تھا۔

کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین بلےباز سر ڈان بریڈمین سے یہ نسبت شاید ہی کرکٹ کی تاریخ میں کسی اور بلے باز کو نصیب ہوئی ہو۔ اور ان کی یہ نسبت اس لیے جوڑی گئی کیونکہ ظہیر بھی بریڈمین کی طرح طویل اننگز کھیلنے کے عادی تھے۔ ان کی 12 میں سے 4 ٹیسٹ سنچریاں ’ڈبل سنچری‘ کے سنگ میل کو عبور کر گئیں۔ جن میں سے ایک مذکورہ بالا اوول ٹیسٹ میں 274 رنز کی یادگار اننگز بھی ہے جو انہوں نے محض اپنے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بنائی۔ 544 منٹ طویل یہ تاریخی اننگز 467 گیندوں پر 38 چوکوں سے مزین تھی اور ساتھ ساتھ دنیائے کرکٹ میں ایک عظیم بلے باز کی آمد کا اعلان بھی۔ وہ حنیف محمد کے بعد ٹرپل سنچری بنانے والے پاکستان کے دوسرے بلے باز بن سکتے تھے لیکن 9 گھنٹے طویل اننگز کے بعد 274 پر آؤٹ ہوتے ہی یہ خواہش ہمیشہ کے لیے تمام ہوئی۔

عقابی آنکھوں اور اسکواش کے کھلاڑیوں جیسی مضبوط کلائیوں کے حامل ظہیر کو دیکھنے کا مزا ہی اور ہوتا تھا۔ جب وہ اچانک اگلے قدموں سے پچھلے قدموں پر جاتے اور گیند کو دو فیلڈرز کے درمیان سے پلک جھپکتے میں باؤنڈری کی راہ دکھاتے تو لوگ داد دیے بغیر نہ رہ پاتے۔ اسی طرح وہ اگلے قدموں پر بھی وکٹ کے دونوں جانب بھرپور قوت سے شاٹس کھیلنے میں ملکہ رکھتے تھے۔ شاذ و نادر ہی ان کا کوئی شاٹ براہ راست فیلڈر کے ہاتھ میں جاتا۔ گو کہ وہ کبھی کبھار دفاعی کھیل بھی کھیلتے تھے لیکن یہ اُن کی سرشت ہی نہ تھی۔ بلے بازی کرتے ہوئے ریکارڈز ٹوٹیں یا باؤلرز کے دل اس سے انہیں کوئی سروکار نہ ہوتا۔ وہ صرف بیٹنگ کرنا چاہتے تھے اور بس!

ظہیر عباس نے اپنی دوسری طویل اننگز کے لیے ایک مرتبہ پھر انگلستان ہی کے میدانوں کا انتخاب کیا اور اس مرتبہ ’نظر کرم‘ اوول کے تاریخی گراؤنڈ پر پڑی۔ جہاں 1974ء کے دورۂ انگلستان میں انہوں نے 240 رنز بنائے اور اسی اننگز کی بدولت سیریز برابر ہو گئی۔ بعد ازاں روایتی حریف بھارت کے خلاف بھی دو ڈبل سنچریاں بنائیں۔ جن میں سے پہلی اکتوبر 1978ء میں لاہور میں 235 رنز کی ناقابل شکست اننگز تھی۔ یہی وہ سیریز تھی جس میں انہوں نے ایک سیریز میں سب سے زیادہ یعنی 583 رنز کا عالمی ریکارڈ بنایا۔ ناقابل شکست ڈبل سنچری کے علاوہ اس میں 176، 96 اور 42 رنز کی اننگز بھی شامل تھی۔

علاوہ ازیں انہوں نے دسمبر 1982ء میں اسی میدان پر بھارت کے خلاف 215 رنز بھی بنائے۔ بدقسمتی سے کراچی ہی میں کھیلے گئے اگلے ٹیسٹ میں وہ 186 پر آؤٹ ہو گئے جبکہ فیصل آباد ٹیسٹ میں بھی وہ ڈبل سنچری مکمل نہ کر سکے 168 رنز بنا کر پویلین سدھارے۔ ورنہ مسلسل تین ٹیسٹ میچز میں ڈبل سنچریوں کے ایک انوکھے ریکارڈ کے حامل بن جاتے۔

انگلستان کے خلاف تاریخی ڈبل سنچریوں کے علاوہ 1976-77ء میں ڈینس للی جیسے باؤلرز کے خلاف برسبین میں 101 اور 85 رنز کی اننگز کھیلیں اور ورلڈ کپ 1979ء کے فائنل میں ویسٹ انڈیز کے 93 رنز کی اننگز ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ جی ہاں، ویسٹ انڈیز کے خلاف یہ اننگز مائیکل ہولڈنگ، اینڈی رابرٹس، کولن کرافٹ اور جوئیل گارنر جیسے گیند بازوں کے خلاف کھیلی گئی جنہیں ’Fearsome Foursome‘ کہا جاتا ہے۔

دوسری جانب ظہیر عباس ایک روزہ کرکٹ کے بھی بہت خاص بلے باز سمجھے جاتے تھے۔ دفاع پر زیادہ زور نہ دینے کی وجہ سے وہ فطری طور پر مختصر طرز کی کرکٹ کے ہی کھلاڑی تھے۔ انہوں نے اس وقت اپنے بین الاقوامی کیريئر کا آغاز کیا جب ون ڈے کرکٹ عہد طفولیت میں تھی۔ اس لیے انہیں کیریئر میں ٹیسٹ سے بھی کم ون ڈے مقابلے کھیلنے کا موقع ملا۔ ظہیر نے 78 ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی لیکن ان کے ون ڈے میچز کی تعداد صرف 62 ہے لیکن اس میں 47.62 کا اوسط اور 2572 رنز ان کی اہمیت کے غماز ہیں۔ ظہیر نے ون ڈے میں 7 سنچریاں اور 13 نصف سنچریاں بنائیں۔

ون ڈے میں ان کی یادگار کارکردگی دسمبر 1981ء میں ورلڈ سیریز کے ایک مقابلے میں آسٹریلیا کے خلاف رہی جہاں ان کی 108 رنز کی اننگز کی بدولت پاکستان نے آسٹریلیا کو 6 وکٹوں سے شکست دی۔ اس کے علاوہ بھارت کے خلاف دسمبر 1982ء اور جنوری 1983ء میں کھیلے گئے تین ایک روزہ میچز میں مسلسل تین سنچریاں داغ کر انہوں نے ایک اور عالمی ریکارڈ اپنے نام کیا۔ ملتان میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے میں انہوں نے 118، لاہور ون ڈے میں 105 اور کراچی ون ڈے میں 113 رنز کی اننگز کھیلیں۔ یہ ریکارڈ آج تک دنیا کا کوئی کرکٹر نہیں توڑ پایا۔ صرف ہم وطن سعید انور اور جنوبی افریقہ کے ہرشل گبز اسے برابر کر پائے ہیں۔

78 ٹیسٹ میچز میں 44.79 کے اوسط کے ساتھ 5062 رنز بنانے والے ظہیر عباس کا فرسٹ کلاس کیریئر تو گویا انگوٹھی میں جڑا ہوا نگینہ ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک محیر العقول کارنامے ہیں۔ سب سے بڑا کارنامہ فرسٹ کلاس میں سنچریوں کی سنچری ہے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے اب تک کے واحد ایشیائی کھلاڑی ہیں۔ 459 فرسٹ کلاس میچز پر محیط اپنے کیریئر میں انہوں نے 108 سنچریوں اور 158 نصف سنچریوں کی مدد اور 51.54 کے شاندار اوسط سے کل 34 ہزار 843 رنز بنائے۔

اس کے علاوہ وہ فرسٹ کلاس میں ایک ہی میچ میں ڈبل سنچری اور سنچری بنانے کا کارنامہ چار مرتبہ اور میچ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنانے کا کارنامہ 8 بار انجام دینے والےواحد کھلاڑی رہے ہیں۔

یہ تمام کارہائے نمایاں انہوں نے انگلش کاؤنٹی کرکٹ میں گلوسسٹرشائر کی جانب سے انجام دیے، وہی کاؤنٹی جس کی نمائندگی دو عظیم انگلش کھلاڑی ’بابائے کرکٹ‘ ڈبلیو جی گریس اور والی ہیمنڈ بھی کر چکے تھے لیکن ایسے ریکارڈز میں وہ بھی ظہیر عباس سے پیچھے ہیں۔

اندازہ لگائیے، 1976ء میں کینٹ کے خلاف 230 اور 104 رنز اور سرے کے خلاف 216 اور 156 رنز کی ناقابل شکست اننگز کے علاوہ انہوں نے 7 دیگر چیمپئن شپ سنچریاں بھی بنائیں اور 75 کے اوسط سے 2554 رنز بنا کر تمام بلے بازوں میں سرفہرست رہے۔ 1981ء میں انہوں نے سمرسیٹ کے خلاف 215 اور 150 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیلیں۔ گلوسسٹر شائر کی جانب سے 206 مقابلوں میں انہوں نے کل 16 ہزار سے زائد رنز بنائے۔

پاکستان جسے ’گیند بازوں کی جنم بھومی‘ سمجھا جاتا ہے، سے بہت کم بلے باز عظمت کے رتبے پر پہنچے ہیں جن میں ایک ظہیر عباس ہیں، جن پر ہمیشہ سرزمین پاک کو فخر رہے گا۔