عمران نذیر کے بین الاقوامی کیریئر پر ایک نظر – دوسری قسط

0 1,115

گزشتہ سے پیوستہ

2001ء کے دورۂ نیوزی لینڈ میں 2 اننگز میں 16صرف 32 رنز عمران نذیر کی ناکامی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت تھے۔ ان کے دفاع میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ٹیم سے باہر کر دینے کی ہمہ وقت سر پر لٹکتی تلوار کے باعث ایک نوجوان کھلاڑی سے نیوزی لینڈ کی بلے بازی کے لیے ناسازگار وکٹوں پر کیسے بہتر کارکردگی کی توقع کی جاسکتی ہے؟ لیکن اس وقت تک عمران نذیر کو 31 میچز میں مواقع دیے جا چکے تھے جن سے فائدہ اٹھا کر تو انہیں ٹیم میں اپنی نشست مضبوط پکی کرلینی چاہیے تھی۔

عمران نذیر کے پاس سنہرا موقع ہے کہ وہ ٹیم میں اپنی جگہ یقینی بنائیں (تصویر: AFP)
عمران نذیر کے پاس سنہرا موقع ہے کہ وہ ٹیم میں اپنی جگہ یقینی بنائیں (تصویر: AFP)

بہرحال نیوزی لینڈ سے واپسی پر بھی عمران نذیر کو باہر نہیں کیا گیا بلکہ شارجہ میں اے آر وائی گولڈ کپ سہ فریقی ٹورمنٹ میں انہیں جگہ دی گئی۔ پاکستان کے علاوہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کی ٹیمیں اس ٹورنامنٹ میں کھیل رہی تھیں اور پاکستان نے پہلے میچ میں عمران فرحت کو عمران نذیر پر ترجیح دی۔ یہ عمران نذیر کی خوش قسمتی، اور پاکستان کی بدقسمتی، تھی کہ عمران فرحت بھی ناکام اوپنر ثابت ہوئے اور یوں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک مرتبہ پھر انہیں موقع دیا گیا اور بلے بازی کے لیے ایک انتہائی سازگار وکٹ پر جہاں شاہد آفریدی نے 43 گیندوں پر 70، سعید انور نے 75 گیندوں پر 81 اور انضمام الحق نے 90 گیندوں پر 71 رنز بنائے، عمران نذیر ناکام ثابت ہوئے۔ حتی کہ اگلے تین میچز میں ملنے والے مواقع سے بھی وہ فائدہ نہ اٹھا پائے اور 4 میچز میں 12.25 کی اوسط سے صرف 49 رنز بنا کر سلیکٹرز کو مجبور کیا کہ انہیں ٹیم سے باہر کر دیں۔

یہی وجہ ہے کہ عمران نذیر کو پہلے دورۂ انگلستان اور پھر پورے ایک سال کے لیے ٹیم سے باہر بیٹھنا پڑا۔ لیکن پاکستان کا مسئلہ حل نہ ہونا تھا، نہ ہوا۔ اس پورے عرصے میں سلیم الٰہی، نئے ابھرتے ہوئے نوجوان افتتاحی بلےباز توفیق عمراور نوید لطیف کے علاوہ انضمام الحق تک کو اوپننگ پوزیشن پر آزمایا گیا لیکن ایک طرف شاہد آفریدی کبھی ہیرو تو کبھی زیرو کا جلوہ دکھا رہے تھے دوسری طرف سعید انور کی کرکٹ سے روز افزوں دوری کی وجہ سے پاکستان ٹیم کی افتتاحی بلے بازوں جوڑی کی ضرورت دن بدن بڑتی جارہی تھی۔ ایسے میں سلیکٹرز نے بادل نخواستہ پھر عمران نذیر کی طرف رجوع کیا اور انہیں ’شارجہ کپ‘ کے لیے ٹیم میں شامل کیا گیا اور انہوں نے نسبتا بہتر کارکردگی پیش کرتے ہوئے 47، 34، 57 اور 63 رنز کی بہتر اننگز کھیلیں لیکن ان کی بلے بازی یوسف یوحنا (موجودہ محمد یوسف)، وسیم اکرم، وقار یونس اور شعیب اختر کی شاندار کارکردگی کے سامنے گہنا گئی جنہوں نے پاکستان کو شارجہ کپ جتوایا تاہم 45.20 کی اوسط سے 226 رنز عمران نذیر کے لیے بذات خود کسی اعزاز سے کم نہ تھے۔ نہ صرف انہوں نے بلکہ سلیکٹرز نے بھی سکھ کا سانس لیا ہوگا۔

نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے لیے عمران نذیر کو حتمی الیون میں شامل کیا گیا لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم کے عمومی رحجان کی طرح وہ ایک مرتبہ پھر غیر مستقل مزاج رہے اور ابتدائی دونوں میچز میں بری طرح ناکام ہونے کی پاداش میں تیسرے مقابلے سے باہر کر دیے گئے۔ اس کے باوجود حیران کن طور پر انہیں دورۂ آسٹریلیا کے لیے منتخب کیا گیا جہاں انہوں نے بہت عمدہ کارکردگی دکھائی خصوصا تیسرے مقابلے میں 73 گیندوں پر 66 رنز کی اننگز نے آسٹریلیا کے خلاف سیریز جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عمران 55.50 کے زبردست اوسط کے ساتھ سیریز میں 111 رنز بنانے میں کامیاب رہے اور مراکش کے شہر طنجہ میں کھیلے گئے مراکو کپ نامی سہ فریقی ٹورنامنٹ میں بھی جگہ پانے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن پھر وہی ناکامیوں کا منہ۔۔۔۔ پہلے مراکش، پھر کینیا میں بدترین کارکردگی نے عمران نذیر پر موجود معمولی اعتماد کا بھی خاتمہ کر دیا۔

گو کہ انہیں سری لنکا میں کھیلی گئی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2002ء کے لیے طلب کیا گیا لیکن انہیں اہم میچز میں کھیلنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اور نیدرلینڈز کے خلاف بالکل غیر اہم میچ میں شامل کیا گیا جبکہ پاکستان پہلے ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہو چکا تھا۔ غیر اہم میچز میں کھلانے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ٹیم انتظامیہ کا عمران نذیر پر اعتماد ختم ہو چکا اور اس کا حقیقی اظہار بعد ازاں ہو بھی گیا۔

انتظامیہ کے عدم اعتماد کے نتیجے میں سلیکٹرز نے بھی عمران نذیر کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔ وہ دورۂ زمبابوے، جنوبی افریقہ اور پھر عالمی کپ 2003ء کے لیے ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے اور پھر طویل عرصے کے لیے غائب ہو گئے۔

پاکستانی سیلیکٹرز نے افتتاحی بلے بازوں کی تلاش جاری رکھی۔ دوران سعید انور کے ساتھ ایک مرتبہ پھر سلیم الٰہی اور توفیق عمر کے علاوہ محمد حفیظ، فیصل اقبال، فیصل اطہر اورنئے ابھرتے ہوئے وکٹ کیپر بلےباز آل راؤنڈر کامران اکمل کو آزمایا گیا۔ اب اسے سلیکٹرز کی غلط حکمت عملی کہا جائے یا پاکستان کی بدقسمتی کہ آج تک پاکستان مستند افتتاحی بلے بازوں کی تلاش میں سرگرداں ہے اور اب بھی یہ قومی کرکٹ کا سب سے پیچیدہ مسئلہ ہے۔

بہرحال، عمران نذیر کو اب سال کے اہم ترین ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے لیے منتخب کیا گیا ہے اور وہ یوں اپنا ہدف بھی حاصل کر چکے ہیں، اور ہمارے خیال میں یہ ان کو ملنے والا ممکنہ طور پر آخری بلکہ ایک لحاظ سے سنہرا موقع بھی ہے۔ محدود اوورز میں پاکستانی ٹیم اس وقت تعمیری مراحل سے گزر رہی ہے۔ محمد حفیظ کی قیادت میں ٹیم کو ابھی کافی منازل طے کرنی ہے اور عالمی کپ سے قبل اسے آسٹریلیا جیسے سخت حریف کا سامنا بھی ہوگا اور یہاں سے پاکستان خصوصا عمران نذیر وہ اعتماد حاصل کر سکتے ہیں جس کے وہ متلاشی ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ عمران نذیر واقعی اپنے تئیں سلجھے ہوئے بلے باز بن چکے ہیں یا پھر ہمیں ایک مرتبہ پھر اسی کھلنڈرے عمران نذیر کا سامنا ہوگا جو وکٹ پر ٹھیرنے سے زیادہ گنوانے پر یقین رکھتا تھا۔