نمبر ون کے شایان شان مقابلہ، جنوبی افریقہ سنسنی خیز مقابلے کے بعد فتح یاب

4 1,072

جب لارڈز میں جنوبی افریقہ اور انگلستان کے مابین آخری ٹیسٹ شروع ہوا تو یہ نہ صرف انگلستان کے لیے سیریز میں شکست سے بچنے بلکہ ایک سال قبل حاصل کردہ ٹیسٹ نمبر ون پوزیشن بچانے کا بھی آخری موقع تھا۔ اور بالآخر پانچ دن بہت زبردست مقابلے کے بعد اس ٹیسٹ کا خاتمہ شایان شان ہوا، اور کیوں نہ ہوتا دنیا ئے کرکٹ کی دو بہترین ٹیمیں ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے نبرد آزما جو تھیں۔ لیکن بالآخر فتح جنوبی افریقہ کے ہاتھ رہی جس نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 51 رنز سے مقابلہ جیت کر نہ صرف سیریز 2-0 سے اپنے نام کی بلکہ دنیائے ٹیسٹ پر انگلستان کی حکمرانی کا بھی خاتمہ کر دیا۔ اب جنوبی افریقہ انگلستان کے علاوہ آسٹریلیا کو بھی پھلانگ کر درجہ بندی میں سرفہرست پوزیشن اور ساتھ میں آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کی خصوصی گرز نما ٹرافی بھی حاصل کر چکا ہے۔

آخری روز جب مقابلے کا آغاز ہوا تو انگلستان بہت ہی خراب پوزیشن میں تھا۔ 345 رنز کے ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں16 رنز 2 کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ آغاز کرنے والے انگلستان سے کسی کو توقع نہ تھی کہ وہ پہلے سیشن میں ابتدا ہی میں مزید دو وکٹیں گنوا کر بھی ہدف کی جانب پیش قدمی جاری رکھے گا۔ چوتھے روز کے آخری لمحات میں ابتدائی اوورز ہی میں اسے ایلسٹر کک اور اینڈریو اسٹراس کی وکٹیں گنوانا پڑیں اور آخری روز اسے پہلے این بیل اور پھر جیمز ٹیلر کی وکٹیں گرنے کی صورت میں دھچکا لگا لیکن جانی بیئرسٹو اور جوناتھن ٹراٹ نے کھانے کے وقفے تک مزید کسی نقصان سے بچائے رکھا۔ جب آخری دن پہلا سیشن مکمل ہوا تو انگلستان کا اسکور 120 رنز 4 کھلاڑی آؤٹ تھا۔

دوسرے سیشن میں کو کہ اسے جوناتھن ٹراٹ جیسی قیمتی وکٹ سمیت تین نقصان اٹھانے پڑے لیکن چائے کے وقفے کے بعد گریم سوان کی اور میٹ پرائیر کی زبردست بلے بازی نے میچ کو دلچسپ مرحلے میں داخل کر دیا۔ ٹراٹ 159 گیندوں پر 63 اور جانی بیئرسٹو 47 گیندوں پر 54 رنز کی اننگز کھیل کر آؤٹ ہوئے۔ ان میں سے بیئرسٹو کی اننگز نے انگلستان کے ارادوں کو ظاہر کیا کہ وہ میچ بچانے کے لیے نہیں بلکہ سیریز اور اپنی نمبر ون پوزیشن بچانے کے لیے کھیل رہا ہے۔

گو کہ ناقابل یقین کو یقینی بنانے کے لیے قسمت نے بھی انگلستان کا بھرپور ساتھ دیا، ایک مرتبہ میٹ پرائیر مورنے مورکل کی نو بال پر کیچ آؤٹ ہوئے تو ایسا لگا انگلستان کچھ کر گزرے گا۔ قبل ازیں اسے آخری سیشن کے 33 اوورز میں صرف 125 رنز درکار تھے۔ کیونکہ اس وقت نئے گیند میں 10 اوورز باقی تھے اس لیے انگلستان کی اپنی پوری قوت چائے کے وقفے کے بعد پہلے 10 اوورز پر مرکوز کرنا تھی اور اس نے گریم سوان کی شاندار بلے بازی کی بدولت جنوبی افریقہ کو سخت پریشانی کا شکار کر دیا۔ کیونکہ 8.4 اوورز میں انگلستان 62 رنز کا اضافہ کر چکا تھا لیکن عمران طاہر کی جانب سے دومنی کی ناقص تھرو کو خوبی سے براہ راست وکٹوں پر پہنچانے کے عمل نے گریم سوان کی اننگز کا خاتمہ کر کے انگلش امیدوں کو زبردست دھچکا پہنچایا۔

بعد ازاں عمران طاہر کی گیند پر ابراہم ڈی ولیئرز نے میٹ پرائیر کو اسٹمپ کرنے کا چانس بھی گنوایا لیکن جیسے ہی جنوبی افریقہ نے نیا گیند لیا، میچ کا پانسہ یکدم اس کے حق میں پلٹ گیا اور ویرنن فلینڈر نے مسلسل دو گیندوں پر پرائیر اور اسٹیون فن کو وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ کروا کر جنوبی افریقہ کو تاریخی فتح سے ہمکنار کر دیا۔

فلینڈر نے میچ کی فیصلہ کن کارکردگی دکھائی اور پانچ وکٹیں حاصل کیں جبکہ ایک، ایک وکٹ ڈیل اسٹین، ژاک کیلس اور عمران طاہر کو ملی۔

قبل ازیں جنوبی افریقہ نے ہاشم آملہ کی سنچری کی بدولت دوسری اننگز میں 351 رنز کا مجموعہ اکٹھاکر کے انگلستان کو 346 رنز کا ہدف دیا۔ ہاشم جو پہلی اننگز میں ناکام ہو گئے تھے، دوسری اننگز میں اس وقت جنوبی افریقی اننگز کو سنبھالا دیا جب محض 50 رنز پر اپنے دونوں اوپنرز کھو بیٹھا تھا۔ انہوں نے 205 گیندوں پر 121 رنز بنائے۔ اس دوران انہوں نے ژاک کیلس کے ساتھ تیسری وکٹ پر 81 اور بعد ازاں پانچویں وکٹ پر ابراہم ڈی ولیئرز کے ساتھ 95 رنز کا اضافہ کر کے جنوبی افریقہ کو سخت مشکل میں گرنے سے بچایا۔ انہوں نے چوتھے روز کا آغاز 57 رنز کے ساتھ کیا تھا اور اسی دن سیریز میں اپنے رنز کی تعداد کو 482 رنز تک پہنچا دیا۔ یہ تین یا اس سے کم ٹیسٹ مقابلوں کی سیریز میں کسی بھی جنوبی افریقی بلے باز کی جانب سے بنائے گئے تیسرے سب سے زیادہ رنز ہیں۔

ہاشم آملہ کی یہی سنچری تھی جس نے میچ کا پانسہ جنوبی افریقہ کے حق میں پلٹا اور اس کا سب سے بڑا غم وکٹ کیپرمیٹ پرائیر کو ہوگا کیونکہ انہوں نے اس وقت ہاشم کا کیچ چھوڑا تھا جب وہ محض دو رنز پر کھیل رہے تھے۔ انہوں نے اسٹورٹ براڈ کی لیگ سائیڈ کی جانب جاتی ہوئی ایک گیند کو گلانس کیا، تو وہ اچھل کر وکٹ کیپر کے بائیں جانب سے نکلی اور پرائیر کے دستانوں میں آ کر نکل گئی۔ اگر وہ کیچ لے لیاجاتا تو عین ممکن ہے کہ میچ کی داستان اس وقت مختلف ہوتی۔

گیند بازی کے شعبے میں انگلستان کی جانب سے اسٹیون فن نے بھرپور کوشش کی کہ میچ کو گرفت سے نکلنے نہ دیا جائے۔ انہوں نے ہاشم آملہ اور ڈی ولیئرز کی قیمتی ترین وکٹیں حاصل کیں۔ ڈی ولیئرز 43 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ لیکن آٹھویں وکٹ پر ژاں پال دومنی اور ویرنن فلینڈر کی 54 رنز کی قیمتی شراکت داری نے انگلستان کے لیے چوتھی اننگز کے مرحلے کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا۔ فلینڈر نے 35 رنز بنائے جبکہ دومنی 26 رنز پر ناقابل شکست رہے۔

جنوبی افریقہ نےاپنی دوسری اننگز کا اختتام 351 رنز کے ساتھ کیا اور انگلستان کو فتح کے لیے 346 رنز کا ریکارڈ ہدف دیا جسے آج تک لارڈز میں کوئی ٹیم حاصل نہیں کر پائی تھی۔

اسٹیون فن نے سب سے زیادہ 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو، دو وکٹیں جمی اینڈرسن، اسٹورٹ براڈ اور گریم سوان کو بھی ملیں۔

پہلے روز جنوبی افریقی کپتان گریم اسمتھ نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا تو میچ کے پہلے ہی سیشن میں 54 رنز پر ابتدائی چاروں بلے بازوں کے فن اور اینڈرسن کے ہتھے چڑھ جانے کے بعد یہ فیصلہ بہت غلط لگا لیکن جنوبی افریقہ کا نچلے بلے بازوں نے میچ کو ہاتھوں سے نکلنے نہ دیا۔ جنوبی افریقہ اپنے تمام بلے باز 163 کے مجموعے پر گنوا چکا تھا جب ژاک روڈلف 42 رنز بنانے کے بعد گریم سوان کی گیند پر بولڈ ہوئے لیکن اس کے بعد ژاں پال دومنی اور ویرنن فلینڈر ن ےکمال کر دکھایا۔دونوں نے ساتویں وکٹ پر 72 قیمتی رنز کا اضافہ کیا۔ دومنی نے 158 گیندوں پر 61 رنز بنائے جبکہ فلینڈر نے اپنے بلے بازی کے جوہر بھی دکھائے اور 93 گیندوں پر اتنے ہی رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہونے والے آخری کھلاڑی بنے۔ انہوں نے آٹھویں وکٹ پر ڈیل اسٹین کے ساتھ 35 اور نویں وکٹ پر مورنے مورکل کے ساتھ 37 رنز کا اضافہ کر کے مجموعے کے 300 کی نفسیاتی حد عبور کرنے میں مدد دی۔ جب وہ گریم سوان کی گیند پر میٹ پرائیر کے ہاتھوں اسٹمپ ہوئے تو جنوبی افریقہ کا اسکور 309 رنز بن چکا تھا۔

پہلی اننگز میں بھی اسٹیون فن ہی انگلستان کے سب سے کامیاب باؤلر رہے جنہوں نے 75 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ 3 وکٹیں جمی اینڈرسن کو، دو گریم سوان کو اور ایک اسٹورٹ براڈ کو ملی۔

پہلی اننگز میں انگلستان کا آغاز بھی کچھ خاص نہ تھا اور 54 رنز پر کپتان اسٹراس، کک، ٹراٹ اور ٹیلر سے محروم ہو گیا تھا۔ البتہ پانچویں وکٹ پر این بیل اور جانی بیئرسٹوکےدرمیان 124 رنز کی شراکت نے میچ کو توازن میں ڈال دیا۔ انہوں نے دوسرے روز میچ کو جنوبی افریقہ کے پلڑے میں جھکنے سے بچایا اور جب اس دن کا اختتام ہوا تو 309 رنز کے جواب میں انگلستان 208 رنز پانچ کھلاڑی آؤٹ کے ساتھ بہترین پوزیشن میں تھا۔ بیئرسٹو 72 رنز کے ساتھ اپنی سنچری کی جانب رواں تھے جبکہ ان کا ساتھ مرد بحران میٹ پرائیر دے رہے تھے۔این بیل ایک عمدہ رفاقت کے بعد 58 کے انفرادی اسکور پر فلینڈر کا شکار بنے۔

تیسرے روز انگلستان کے لیے سب سے اتنا خوشگوار ثابت نہ ہوا، میٹ پرائیر اپنے گزشتہ روز کے اسکور میں صرف 5 رنز کا اضافہ کر پائے جبکہ بعد ازاں بیئرسٹو بھی نروس نائنٹیز کا شکار ہوئے۔ وہ 95 رنز بنانے کے بعد مورنے مورکل کی گیند پر بولڈ ہو گئے اور اپنے ٹیسٹ کیریئر کی پہلی سنچری سے محروم رہ گئے۔ البتہ انگلستان کی آخری دو وکٹوں نے جنوبی افریقہ کی برتری کا خاتمہ کر دیا جنہوں نے 51 قیمتی رنز بنائے۔ گریم سوان 37 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔

مورنے مورکل اور ڈیل اسٹین نے 4،4 جبکہ فلینڈر نے 2 وکٹیں حاصل کیں۔

انگلستان کے لیے یہ سیریز اس لحاظ سے بھی مایوس کن رہی کہ گزشتہ سال ایک شاندار کارکردگی اور تاریخی حیثیت حاصل کرنے کے بعد وہ رواں سال پہلے پاکستان کے ہاتھوں کلین سویپ سے دوچار ہوا اور اپنے ہوم گراؤنڈ پر جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست نے اسے 'دو دن کی بادشاہت' سے محروم کر دیا ہے۔

فلینڈر کو دوسری اننگز میں فیصلہ کن کارکردگی یعنی 5 وکٹیں لینے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جبکہ ہاشم آملہ اور میٹ پرائیر سیریز کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔

اب دونوں ٹیمیں 24 اگست سے ایک روزہ مقابلوں کی سیریز کھیلیں گی جس کا پہلا معرکہ ویلز کے دارالحکومت کارڈف میں ہوگا۔