[آج کا دن] پاکستان کا ’ڈبلیو جی گریس‘

4 1,056

کرکٹ کی تاریخ میں دو کھلاڑیوں کو ایسا مقام حاصل ہے کہ کوئی بھی مورخ ان کی عظمت سے انکاری نہیں، ایک آج ہی کے روز پیدا ہونے والے آسٹریلیا کے سر ڈان بریڈمین اور دوسرے انگلستان کے سر ولیم گلبرٹ ”ڈبلیو جی“ گریس ۔ اور ان دونوں کے ساتھ پاکستان کے محمد یوسف کو بڑی نسبت ہے، ڈان بریڈمین کے ساتھ اس طرح کہ وہ بھی ”ڈان“ کی طرح آج ہی کے روز یعنی 27 اگست کو پیدا ہوئے اور سر ڈبلیو جی گریس کے ساتھ اس طرح کہ وہ بھی ان ہی کی طرح ایک لمبی داڑھی رکھتے ہیں۔

یوسف نے 2006ء میں سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا تین دہائی پرانا ریکارڈ توڑا (تصویر: Getty Images)
یوسف نے 2006ء میں سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا تین دہائی پرانا ریکارڈ توڑا (تصویر: Getty Images)

لیکن یہ تو ”اتفاقی“ نسبتیں ہیں لیکن سال 2006ء میں انہوں نے 90 سے زائد کے اوسط سے رنز کے انبار لگا کر اور اپنی داڑھی بڑھا کر ان کھلاڑیوں نے اپنے تعلق کو مزید گہرا کیا۔ یوسف کو جو چیز ایک عظیم کھلاڑی بناتی ہے، وہ یہ ہے کہ اک ایسے عہد میں جب اسٹائلش بلے باز ”قطبی ریچھوں“ کی طرح نایاب ہوتے جا رہے ہیں، انہوں نے بلے بازی کے خوبصورت انداز کی مدد سے اپنا مقام بنایا۔ لاہور کے ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے اس کھلاڑی نے نوجوانی میں رکشہ تک چلایا لیکن مقامی سطح پر کھیلی گئی کرکٹ میں اُن کے خوبصورت شاٹس چند نظروں میں آ چکے تھے۔ اور بالآخر وہ کرکٹ میں ترقی کی منازل طے کرتے کرتے بین الاقوامی کرکٹ تک آ گئے۔

وہ پاکستان کی نمائندگی کرنے والے محض چوتھے کھلاڑی تھے جن کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا۔ گو کہ بعد ازاں انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام بدل کر محمد یوسف رکھ لیا لیکن اُس سے قبل ہی ان کی مذہب سے وابستگی بہت زیادہ تھی۔ ہر نصف سنچری یا سنچری پر وہ سینے پر صلیب کا نشان بناتے تھے یہاں تک کہ 2005ء میں اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے پہلی بار سنچری بنانے پر سجدہ کیا۔

یوسف نے 1998ء سے 2010ء تک پاکستان کی جانب سے 90 ٹیسٹ میچز کھیلے اور ملک کے تیسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز ہیں۔ گو کہ وہ اب بھی ملک کی نمائندگی کے خواہاں ہیں لیکن اب جبکہ پاکستان کرکٹ ٹیم تشکیل نو کے مراحل سے گزر چکی ہے، ان کی جلد واپسی کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔

بہرحال، انہوں نے بحیثیت یوسف یوحنا نے اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز فروری 1998ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف اُس تاریخی ڈربن ٹیسٹ سے آغاز کیا جس میں گو کہ ان کے ناکام رہنے کے باوجود پاکستان نے اظہر محمود کی عمدہ بلے بازی اور شعیب اختر اور مشتاق احمد کی شاندار باؤلنگ کی بدولت یادگار فتح حاصل کی تھی۔ یہ پاکستان کی جنوبی افریقہ کے خلاف پہلی ٹیسٹ جیت بھی تھی، یوں ان کی آمد پاکستان کے لیے نیک شگون ثابت ہوئی۔ اپنے اولین چھ ٹیسٹ میچز میں 4 نصف سنچریاں بنانے کے بعد بالآخر پانچویں میں یوسف تہرے ہندسے کی اننگز کھیلنے میں کامیاب ہو ہی گئے جب انہوں نے اپنے ’ہوم گراؤنڈ‘ لاہور میں زمبابوے کے خلاف سنچری بنائی۔

وہ 2000ء میں ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے والے پاکستانی دستے کا بھی حصہ تھے جہاں انہوں نے پے در پے سنچریاں بنا کر پاکستان کے لیے کیریبین سرزمین پر پہلی بار سیریز جیتنے کا شاندار موقع پیدا کیا لیکن اینٹیگا میں امپائروں نے پاکستان سے یہ موقع چھین لیا۔ اور پاکستان آج تک سرزمین غرب الہند بھی ٹیسٹ سیریز جیتنے سے محروم ہے۔

2003ء کے عالمی کپ میں پاکستان کی بدترین شکست کے بعد ٹیم کی تشکیل نو کے باعث وہ مستقل مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور 2004ء میں انضمام الحق کے زخمی ہونے کی وجہ سے نہ کھیلنے کے باعث انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف ملبورن ٹیسٹ میں پاکستان کی قیادت بھی کی اور یوں پاکستان کے پہلے عیسائی کپتان بنے۔ گو کہ گزشتہ مقابلے کی طرح اس میں بھی پاکستان کو 9 وکٹوں کی شکست سہنا پڑی لیکن پہلی اننگز میں بحیثیت کپتان 111 رنز کی اننگز ان کی چند بہترین باریوں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ یہ تاریخ کے بہترین باؤلرز میں شمار ہونے والے شین وارن اور گلین میک گرا کے خلاف بنائی گئی۔ باکسنگ ڈے یعنی 26 دسمبر کے اس روایتی ٹیسٹ مقابلے کے پہلے روز انہوں نے میدان میں موجود 61 ہزار سے زائد تماشائیوں کو اپنی بلے بازی کے بھرپور جوہر دکھائے اور تماشائی بھی ان کے خوبصورت اسٹروکس سے بہت محظوظ ہوئے۔

پھر جب 2005ء میں ایشیز فتح کرنے کے بعد بلند پرواز انگلستان پاکستان پہنچا تو میزبان ٹیم کے کھلاڑیوں نے پہلی ہی مہم پر اُن کے پر کتر دیے اور سیریز زبردست انداز میں 2-0 سے جیتی۔ ان فتوحات میں محمد یوسف کا کردار بھی کلیدی تھا جنہوں نے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے تیسرے ٹیسٹ میں 223 رنز بنا کر پاکستان کی فتح کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں پاکستان نے یہ مقابلہ ایک اننگز اور 100 رنز سے جیتا۔ وہ سیریز میں انضمام الحق کے بعد پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز رہے جنہوں نے3 میچز میں 68.40 کی اوسط سے 342 رنز بنائے۔

2006ء کا سال یوسف کے لیے بہت ہی یادگار رہا۔ وہ 2005ء میں اسلام قبول کرنے کے بعد ویسے ہی نئی رفتار پکڑ چکے تھے۔ نومبر 2005ء میں لاہور ٹیسٹ میں انہوں نے 223 اور 173 رنز کی زبردست اننگز کھیل کر اپنے ارادوں کو ظاہر کر دیا تھا اور 2006ء کا آغاز فیصل آباد ٹیسٹ میں 126 اور کراچی ٹیسٹ میں 97 رنز کی اننگز کھیل کر شاندار انداز میں کیا۔

محمد یوسف کی سب سے یادگار اننگز 2006ء کے دورۂ انگلستان میں لارڈز کی ڈبل سنچری اننگز ہے، یہ اس تاریخی میدان سے وابستہ پاکستان کی آخری اچھی یاد تھی کیونکہ اس کے بعد جب اگلی مرتبہ دونوں ٹیمیں ”کرکٹ کے گھر“ میں مدمقابل ہوئیں تو تاریخ کے سب سے بڑے تنازع ”اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل“ نے جنم لیا تھا۔ بہرحال، مذکورہ مقابلے میں انگلستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور ایلسٹر کک اور این بیل کی سنچریوں اور پال کالنگ ووڈ کی تقریباً ڈبل سنچری (186 رنز) کی بدولت 528 رنز کا ہمالیہ جیسا مجموعہ اکٹھا کر ڈالا۔ جواب میں پاکستان 68 رنز پر اپنی چار وکٹیں گنوا بیٹھا تو لگتا تھاکہ میچ کا فیصلہ جلد ہی میزبان ٹیم کے حق میں ہو جائے گا لیکن محمد یوسف اور کپتان انضمام الحق کے درمیان 173 رنز کی رفاقت اور پھر کامران اکمل کے ساتھ ساتویں وکٹ پر 99 رنز کی شراکت نے پاکستان کے لیے حالات کو بہتر بنایا۔ گو کہ انضمام کے 69 اور کامران اکمل کے 58 رنز کے علاوہ کوئی کھلاڑی یوسف کا اچھی طرح ساتھ نہ دے پایا لیکن وہ اپنی 202 رنز کی اننگز کی بدولت اسکور کو 445 تک لےجانے میں کامیاب ہوئے اور میچ کو بچا لیا۔ انگلستان نے اپنی دوسری اننگز 296 رنز 8 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کر کے پاکستان کو کھیلنے کا موقع دیا جس نے بقیہ اوورز میں 4 وکٹوں پر 214 رنز بنائے اور میچ بے نتیجہ مکمل ہوا۔ محمد یوسف نے دوسری اننگز میں 48 رنز بنائے۔ وہ محسن حسن خان کے بعد لارڈز میں ڈبل سنچری بنانے والے پاکستان کے دوسرے بلے باز ہیں۔

انہوں میں بعد ازاں اسی سیریز کے لیڈز ٹیسٹ میں 192 اور اوول ٹیسٹ میں 128 رنز کی اننگز کھیلیں اور انفرادی لحاظ سے تو یوسف کے لیے یادگار ترین سیریز رہی کیونکہ اس میں وہ 90.31 کے ’بریڈمینک‘ اوسط سے بنائے گئے 631 رنز کے ساتھ سب سے کامیاب بلے باز رہے لیکن پاکستان کے لیے یہ سیریز ایک بھیانک خواب تھی۔ 3-0 کی بدترین شکست اور اختتام اوول میں تاریخی تنازع کے ساتھ ہوا۔

سال 2006ء کے دوران انہوں نے کئی دیگر کارنامے بھی انجام دیے جن میں سب سے بڑا کارنامہ میں ایک سال میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا ریکارڈ تھا۔ انہوں نے سال میں 9 سنچریوں کی مدد سے 1788 رنز بنا کر عظیم ویوین رچرڈز کا 30 سال پرانا ریکارڈ توڑا۔ سال میں اتنی زیادہ سنچریاں بنانا بھی بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔

محمد یوسف محسن حسن خان کے بعد لارڈز میں ڈبل سنچری بنانے والے دوسرے پاکستانی بلے باز بنے (تصویر: Getty Images)
محمد یوسف محسن حسن خان کے بعد لارڈز میں ڈبل سنچری بنانے والے دوسرے پاکستانی بلے باز بنے (تصویر: Getty Images)

اسی کارکردگی کی بنیاد پر وزڈن نے 2006ء میں سال کے یوسف کو اپنے پانچ بہترین کرکٹرز میں سے ایک قرار دیا اور بعد ازاں بین الاقوامی کرکٹ کونسل نے انہیں سال کے بہترین ٹیسٹ کھلاڑی کے اعزاز سے بھی نوازا۔ علاوہ ازیں وہ اسی سال نومبر میں ٹیسٹ بلے بازوں کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر تک پہنچے۔ گزشتہ سال یعنی 2011ء میں حکومت پاکستان نے انہیں تمغۂ حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔

البتہ اسی سال محمد یوسف تین مرتبہ 190 رنز بنانے کے بعد ڈبل سنچری سے قبل آؤٹ ہوئے جبکہ وہ کیریئر میں مجموعی طور پر چار مرتبہ 200 کا ہندسہ عبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگر وہ تین مرتبہ بدقسمتی کا شکار نہ ہوتے تو آج ان کی ڈبل سنچریوں کی تعداد 7 ہوتی اور وہ جاوید میانداد کا سب سے زیادہ یعنی 6 ڈبل سنچریوں کا قومی ریکارڈ توڑ دیتے۔

یوسف کی انفرادی مہارت کا سلسلہ جاری رہا اور انہوں نے سال کی آخری مہم یعنی ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز میں ملتان اور کراچی ٹیسٹ میں 191، 102 اور 124 رنز بنا کر ’کلینڈر ایئر‘ میں سب سے زیادہ رنز کا تین دہائی پرانا ریکارڈاپنے نام کر لیااور یہ ریکارڈ آج تک قائم و دائم ہے۔

پاکستان کے تقریباً تمام ہی عظیم کھلاڑیوں کی طرح ان کا کیریئر تنازعات سے پاک نہیں رہا۔ متنازع انڈین کرکٹ لیگ میں کھیلنے کا معاملہ، ناقص کارکردگی اور پھر 2009-10ء کا مایوس کن دورۂ آسٹریلیا، جہاں ان کی قیادت میں پاکستان تمام میچز ہارا، ان پر پابندی اور پھر بین الاقوامی کرکٹ کے خاتمے کا باعث بنی۔

بعد ازاں دورۂ آسٹریلیا میں بدترین کارکردگی کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے مارچ 2010ء میں دیگر کھلاڑیوں سمیت محمد یوسف پر بھی غیر معینہ مدت تک کی پابندی عائد کر دی جس کے بعد یوسف نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ بعدازاں اسی سال اگست میں یوسف سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان پر عائد پابندی ہٹا دی اور انہیں انگلستان میں مشکلات میں گھری پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے طلب کیا گیا تاہم یہ واپسی زیادہ طویل ثابت نہ ہوئی کیونکہ اسی سیریز میں اسپاٹ فکسنگ قضیہ اٹھا اور چند کھلاڑی تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کرکٹ سے محروم ہوئے ہی لیکن محمد یوسف کو بھی لے ڈوبے کیونکہ اتنے بڑے معاملے کے بعد ٹیم کی ازسر نو تشکیل ہوئی جس میں پرانے کھلاڑیوں کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔

یوسف ٹیسٹ کرکٹ کے کئی منفرد ریکارڈز اپنے نام رکھتے ہیں۔ وہ تاریخ میں دوسری تیز ترین نصف سنچری کے ریکارڈ کے حامل ہیں۔ انہوں نے جنوری 2003ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں 27 گیندوں پر نصف سنچری بنائی لیکن مقابلہ اس وقت پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ وہ 620 رنز کے جواب میں پہلی اننگز میں 252 رنز پر ڈھیر ہو جانے کے بعد فالو آن کا سامنا کر رہا تھا اور بالآخر اننگز اور 142 رنز کی بدترین شکست سے دوچار ہوا۔ یوسف نے مجموعی طور پر 29 گیندوں پر 6 چوکوں اور 2 چھکوں کی مدد سے 50 رنز بنائے۔ جن میں انہوں نے نکی بوئے کے ایک ہی اوور میں مسلسل چار چوکے اور آخری گیند پر ایک چھکا بھی لگایا۔

ٹیسٹ کرکٹ میں 52.29 کے شاندار اوسط کے ساتھ 7530 رنز بنانے والے محمد یوسف کی سنچریوں کی تعداد 24 جبکہ نصف سنچریوں کی 33 ہے۔ یوں وہ انضمام الحق کے بعد پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے بلے باز ہیں۔ انضمام الحق نے اپنے 120 ٹیسٹ میچز میں 25 سنچریاں بنائی تھیں۔

ٹیسٹ کیریئر اعداد و شمار

 ٹیسٹ مقابلے اننگز ناقابل شکست رنز بہترین اسکور اوسط اسٹرائیک ریٹ سنچریاں نصف سنچریاں چوکے چھکے کیچز
 90 156 12 7530 223 52.29 52.39 24 33 957 51 65

دوسری جانب اُن کا ایک روزہ کیریئر بھی اتنا ہی عمدہ ہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر 288 ایک روزہ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 41.71 کے عمدہ اوسط سے 9720 رنز بنائے۔ تنازعات کے باعث وہ 300 ویں ایک روزہ اور 10 ہزار ویں رنز سے تاحال محروم ہیں اور اگر اُنہیں ایک اور موقع دیا جائے تو شاید وہ انضمام الحق کے بعد 10 ہزار کا سنگ میل عبور کرنے والے پاکستان کے دوسرے بلے باز بن جائیں۔ ایک روزہ کیریئر میں انہوں نے 15 سنچریاں اور 64 نصف سنچریاں بنائی ہیں۔ یوں وہ سعید انور (20 سنچریاں) کے بعد پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ سنچریاں بنانے والے بلے باز ہیں۔ نصف سنچریوں میں بھی وہ انضمام الحق کی 83 نصف سنچریوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔

انہوں نے اپنے ایک روزہ کیریئر کا آغاز مارچ 1998ء کو ہرارے میں زمبابوے کے خلاف کیا اور 59 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر پاکستان کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مختصر طرز میں اپنی پہلی سنچری اسی سال نومبر میں آسٹریلیا کے خلاف بنائی لیکن آسٹریلیا نے 316 رنز کا ہدف حاصل کر لیا اور یوں پہلی بڑی اننگز ضایع گئی۔

وہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بہترین ایک روزہ ٹیم قرار دیے جانے والے عالمی کپ 1999ء کے دستے میں بھی شامل تھے اور ٹورنامنٹ میں ان کا سفر بہت عمدگی سے جاری تھا۔ 53.66 کی اوسط سے 161 رنز بنانے کے بعد وہ ہمسٹرنگ انجری کی وجہ سے لارڈز میں آسٹریلیا کے خلاف فائنل نہ کھیل پائے جہاں پاکستان کو عالمی کپ تاریخ کے فائنل مقابلوں کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

عالمی کپ کی مایوس کن شکست کے بعد اگلے سال انہوں نے ڈھاکہ میں بھارت کے خلاف ایشیا کپ کے ایک میچ میں یادگار سنچری بنائی، جس میں انہوں نے اولین 50 رنز 90 گیندوں پر اگلے 50 محض 23 گیندوں پر بنائے اور اننگز کی آخری گیند پر چھکا رسید کر کے اپنی سنچری مکمل کی۔ ان کی اسی اننگز کی بدولت بھارت شکست سے دوچار ہوا اور ٹورنامنٹ سے بھی باہر ہو گیا۔

اس کے علاوہ ایک روزہ کرکٹ میں ان کی چند یادگار اننگز میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2004ء میں بھارت کے خلاف 81 رنز کی ناقابل شکست اننگز بھی ضرور شامل کی جائے گی جس کی بدولت پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد محض 3 وکٹوں سے فتح حاصل کی۔

انہوں نے آخری مرتبہ نومبر 2010ء میں جنوبی افریقہ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی سیریز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس سیریز میں سخت مقابلے کے بعد جنوبی افریقہ 3-2 سے فتح یاب ٹھیرا تھا اور پھر وہ دوبارہ کبھی ٹیم میں واپس نہ آ سکے۔

ایک روزہ  کیریئر اعداد و شمار

 ایک روزہ مقابلے اننگز ناقابل شکست رنز بہترین اسکور اوسط اسٹرائیک ریٹ سنچریاں نصف سنچریاں چوکے چھکے کیچز
 288 273 40 9720 141* 41.71 75.10 15 64 785 90 58

گو کہ محمد یوسف نے ابھی تک بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان نہیں کیا اور چند ماہ قبل کرک نامہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے ملک کے لیے کھیلنےکی خواہش کا بھرپور اظہار بھی کیا اور کہا کہ جب تک فٹ ہوں ملک کے لیے کھیلنا چاہتا ہوں اس لیے ضروری ہے کہ کم از کم چند انفرادی سنگ میل عبور کرنے کے لیے انہیں ایک مرتبہ پھر ٹیم میں طلب کیا جائے۔