ناقص بلے بازی، گھٹیا منصوبہ بندی، پاکستان پہلا ایک روزہ ہار گیا

5 1,054

بلے بازوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو مایوس کن شکست سے دوچار کر دیا اور باؤلرز کی سر توڑ کوششیں بھی پاکستان کو آسٹریلیا کے خلاف پہلے ایک روزہ میں فتح سے ہمکنار نہ کر سکیں اور شارجہ کے تاریخی میدان میں کھیلا گیا پہلا ایک روزہ مقابلہ آسٹریلیا نے 4 وکٹوں سے جیت لیا۔ یوں آسٹریلیا عالمی درجہ بندی میں اپنی چوتھی پوزیشن بچانے میں کامیاب ہو گیا جبکہ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر ترقی کا موقع گنوا دیا۔

مچل اسٹارک نے کیریئر میں پہلی بار میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا (تصویر: AFP)
مچل اسٹارک نے کیریئر میں پہلی بار میچ میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ انجام دیا (تصویر: AFP)

پاکستان کے لیے سب سے مایوس کن لمحہ یہ تھا کہ اُس کی تاریخ میں کبھی اتنا کمزور پیس اٹیک میدان میں نہیں اترا ہوگا، جتنا شارجہ میں تھا۔ کپتان، کوچ اور مینیجر پر مشتمل ٹور سلیکشن کمیٹی نے اعزاز چیمہ اور سہیل تنویر کو بحیثیت تیز گیند باز کھلانے کا فیصلہ کیا اور اسپن میں سعید اجمل، محمد حفیظ اور شاہد آفریدی نے ذمہ داری سنبھالی۔ یوں اسپن گیند بازی کا شعبہ تو ایک حد تک مضبوط کہا جا سکتا تھا لیکن پاکستان، جو دنیا میں اپنے تیز باؤلرز کی وجہ سے ہمیشہ دہشت کی علامت رہا، کی جانب اتنا کمزور پیس اٹیک لانا سمجھ سے بالاتر اقدام تھا جبکہ پاکستان کو جنید خان جیسے نوجوان و باصلاحیت باؤلر کی خدمات بھی حاصل ہیں لیکن وہ پویلین میں بیٹھے تیز باؤلرز کی درگت بنتے دیکھتے رہے۔

دوسری جانب آسٹریلیا نے اسپنرز کے لیے مددگار پچ کے باوجود جیمز پیٹسن، مچل اسٹارک، مچل جانسن اور ڈینیل کرسچن کی صورت میں چار تیز باؤلرز کھلائے اور مائیکل کلارک، ڈیوڈ ہسی اور گلین میکس ویل نے اسپن کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ یوں گیند بازی اور بلے بازی دونوں میں ایک متوازن ٹیم کی صورت میں کھیلا اور مقابلہ بھی اپنے نام کیا۔

بلے بازی میں پاکستان کی ناکامیوں کا سلسلہ تو ایک آج کل کی کہانی نہیں، یہ دہائیوں سے ہوتا آ رہا ہے۔ کبھی کبھار کوئی ایک دو اچھے بلے باز مل گئے تو پاکستان رنز بنا لیتا ہے ورنہ ابتداہی سے فتوحات کے لیے تمام تر انحصار باؤلرز پر ہوتا ہے۔ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ بھی پاکستان کے حق میں بہتر ثابت نہ ہوا اور بلے بازی کا سب سے افسوسناک پہلو یہ رہا ہے کہ تقریباً تمام ہی کھلاڑیوں نے بہت ناقص شاٹس کھیل کر اپنی وکٹیں گنوائیں۔ محمد حفیظ، اظہر علی، مصباح الحق، کامران اکمل اور شاہد آفریدی تو مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے۔ اگر اسد شفیق اور عمر اکمل درمیان میں 61 رنز کی رفاقت قائم نہ کرتے تو پاکستان کا حال مزید برا ہو جاتا۔

محمد حفیظ، جو گزشتہ سال کلینڈر ایئر میں ایک ہزار رنز بنانے کے بعد ساتویں آسمان پر اڑ رہے تھے، اس سال مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں اور اس مقابلے میں بھی صرف 4 رنز بنانے کے بعد شارٹ ایکسٹرا کور پر ڈیوڈ ہسی کے ہاتھوں میں آسان کیچ تھما کر پویلین سدھار گئے۔ فیصلہ کرنے کی قوت میں کمی نے انہیں ایک اور ناکامی سے دوچار کیا اور پیٹن سن کی ایک باہر جاتی گیند کو کھیلتے ہوئے گومگو کی کیفیت میں وہ خصوصی طور پر کیچ لینے کے لیے کھڑے کیے گئے فیلڈر ہی کو گیند دے بیٹھے۔ بہرحال، اظہر علی، جن سے پاکستان کو بڑی توقعات تھیں، بھی بہت گھٹیا شاٹ کھیل کر مڈ آن پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ وہ جس طرز کے بلے باز ہیں، انہیں اپنا فطری کھیل ہی کھیلنا چاہیے تھا، دوسرے اینڈ ناصر جمشید جارح مزاج کھلاڑی تھے تو اٹھا کر شاٹس کھیلنے کا کام انہی کو کرنے دیتے، بجائے اس کے کہ خود ایک ناقص شاٹ کھیل آؤٹ ہوتے۔ بہرحال 5 رنز کے ساتھ اظہر کی اننگز بھی تمام ہوئی اور یہ وکٹ بھی پیٹن سن ہی نے حاصل کی۔

ابتدائی جھٹکوں کے بعد اب مچل اسٹارک کی باری تھی، جو بلاشبہ آج کی رات کے ہیرو ثابت ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے خطرناک ہوتے ہوئے ناصر جمشید کو ٹھکانے لگایا۔ ایک بہت ہی خوبصورت، تیز اور اٹھتی ہوئی گیند ناصر کے بلے کا کنارہ لیتے ہوئے پیچھے گئی اور وکٹ کیپر میتھیو ویڈ نے بائیں جانب ہوا میں اچھلتے ہوئے 23 کے انفرادی اسکور کے ساتھ ناصر کی اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ پاکستان 40 پر اپنی تین وکٹیں گنوا چکا تھا۔

اس موقع پر اسد شفیق کا ساتھ دینے کپتان مصباح الحق آئے اور دونوں نے اگلے تقریباً 15 اوورز تک آسٹریلین باؤلرز کا ڈٹ کر سامنا کیا۔ خصوصاً اسد شفیق جنہوں نے ذمہ دارانہ رویے کے ساتھ چند بہت خوبصورت شاٹس بھی کھیلے۔ جس میں ایک زبردست چھکا بھی شامل تھا۔ بہرحال، جب اننگز وسط میں پہنچی تو مصباح الحق ایک بہت ہی فضول شاٹ کھیلتے ہوئے ڈینیل کرسچن کی گیند پر بولڈ ہو گئے۔ وکٹوں سے باہر پڑی ہوئی گیند کو کور کی جانب باؤنڈری کی راہ دکھانے کی کوشش انہیں مہنگی پڑ گئی کیونکہ گیند بلے کا کنارہ لے کر سیدھا وکٹوں میں گئی۔ مصباح 48 گیندوں پر 26 رنز بنانے کے بعد پویلین لوٹ گئے۔

اب تمام تر ذمہ داری نوجوان کاندھوں پر تھی، اسد کا ساتھ دینے کے لیے عمر اکمل آئے۔ دونوں نے روایتی جارحانہ انداز اپنایا اور اگلے 10 اوورز میں اسکور میں 61 رنز کا اچھا اضافہ کیا۔

جب آخری پاور پلے لیا گیا تو پاکستان کے 160 رنز پر چار کھلاڑی آؤٹ تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر پاکستان پاور پلے کا اچھا استعمال کر لے تو وہ ابتدائی نقصان کا ازالہ کر سکتا ہے، لیکن کئی مرتبہ کی طرح اس بار بھی پاور پلے پاکستان کے حق میں نہ گیا۔ اسے پہلے ہی اوور میں اسد شفیق سے محروم ہونا پڑا اور 40 ویں اوور میں یکے بعد دیگرے کامران اکمل اور شاہد آفریدی کی قیمتی وکٹیں بھی گنوانا پڑیں۔ اسد شفیق 77 گیندوں پر 2 چھکوں اور 2 چوکوں کی مدد سے 56 رنز بنانے کے بعد اسٹارک کی تیز اور اندر آتی ہوئی گیند کو 'اِن سائیڈ آؤٹ' ہو کر کھیلنے کی بے وقوفانہ کوشش میں اپنی وکٹ کھو بیٹھے۔ کامران اکمل، جو ڈیڑھ سال کے طویل عرصے کے بعد ٹیم میں واپس آئے تھے اور ان سے بڑی امیدیں بھی وابستہ تھیں، توقعات پر بالکل پورا نہ اترے اور صرف 4 رنز بنانے کے بعد اسٹارک کی ہی گیند کو ہوا میں اچھال بیٹھے اور کپتان مائیکل کلارک نے کیچ لے کر ان کی اننگز کا خاتمہ کر دیا۔ شاہد آفریدی اگلی ہی گیند پر سلپ میں کیچ دے کے صفر کی ہزیمت لیے میدان سے واپس آئے۔

اب صرف عمر اکمل میدان میں بچے، جو عادت سے مجبور ہو کر زیادہ دیر نہ ٹکے اور اسٹارک کے اگلے اوور میں کور پر جارج بیلے کو آسان کیچ دے بیٹھے۔ انہوں نے 55 گیندوں پر 52 رنز بنائے لیکن جس انداز سے اور جس وقت آؤٹ ہوئے ، وہ بالکل غیر پیشہ ورانہ تھا۔ بہرحال، ان کے بعد آخری دو وکٹیں چند اوورز ہی مزاحمت کر سکیں اور 46 ویں اوور کی پہلی گیند پر سعید اجمل کے آؤٹ ہوتے ہی پاکستان کی اننگز 198 رنز پر تمام ہوئی۔ پاکستان نے محض 38 رنز پر اپنی آخری چھ وکٹیں گنوائیں، اور سب سے اہم بات کہ پورے پچاس اوورز بھی نہ کھیل پایا۔

مچل اسٹارک نے بہت زبردست باؤلنگ کروائی اور مقررہ 10 اوورز میں 42 رنز دے کر 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ تین وکٹیں جیمز پیٹن سن نے جبکہ ایک، ایک مچل جانسن اور ڈینیل کرسچن نے حاصل کیں۔

مائیکل کلارک اور دیگر آسٹریلوی بلے بازوں نے اسپنرز خصوصاً سعید اجمل کو بہت سنبھل کر کھیلا اور کمزور پیس اٹیک کو آڑے ہاتھوں لے کر مقابلہ جیت لیا (تصویر: AFP)
مائیکل کلارک اور دیگر آسٹریلوی بلے بازوں نے اسپنرز خصوصاً سعید اجمل کو بہت سنبھل کر کھیلا اور کمزور پیس اٹیک کو آڑے ہاتھوں لے کر مقابلہ جیت لیا (تصویر: AFP)

جواب میں گو کہ آسٹریلیا کا آغاز بھی کچھ ایسا حوصلہ کن نہ تھا لیکن مائیکل کلارک اور جارج بیلے نے جس ذمہ داری کے ساتھ مشکل حالات میں اننگز کو سنبھالا، اس نے یہ بات ثابت کر دی کہ گزشتہ دو دہائیوں کی کمزور ترین آسٹریلوی ٹیم ہونے کے باوجود اس میں پاکستان سے زیادہ اعصابی قوت ہے۔ پاکستان نے بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے خلاف خاص مہارت رکھنے والے محمد حفیظ کی بدولت خطرناک ڈیوڈ وارنر کو تو ابتداء ہی میں باہر کر دیا جبکہ شاہد آفریدی نے پہلے ہی اوور میں میتھیو ویڈ کو آؤٹ کیا لیکن یہ سعید اجمل کا مسلسل دو اوورز میں ہسی برادران کو آؤٹ کرنا تھا جس نے پاکستان کو میچ میں حقیقی امید دلائی۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2010ء میں جس مائیکل ہسی نے سعید اجمل کے چھکے چھڑا دیے تھے، آج ان کا سامنا کرتے ہوئے پہلی ہی گیند پر ڈھیر ہو گئے اور آسٹریلیا کا ایک ریویو بھی ضایع کرا گئے۔ اگلے اوور میں انہوں نے ڈیوڈ ہسی کو خوبصورت 'دوسرا' پر ان کے بھائی ڈیوڈ ہسی کو سلپ میں کیچ آؤٹ کرا دیا۔

اس موقع پر کلارک اور بیلے نے سخت ترین مشکلات کے باوجود کریز پر جمنے کا حوصلہ پیدا کیا خصوصاً سعید اجمل کے خلاف انہوں نے جس قدر جم کر بلے بازی کی، وہ پاکستانی بلے بازوں کے لیے ایک مثال تھی۔ انہوں نے 16 اوورز میں صرف 54 رنز بنائے لیکن سعید کے اوورز ضرور گزار دیے۔ کلارک 96 گیندوں پر 5 چوکوں کی مدد سے66 رنز بنانے کے بعد محمد حفیظ کے ہاتھوں ایل بی ڈبلیو ہوئے لیکن میچ اس وقت تک اچھا خاصا آسٹریلیا کے ہاتھ میں آ چکا تھا۔ اس موقع پر گلین میکس ویل نے جارج بیلے کا بھرپور ساتھ دیا اور دونوں نے اہم ترین مرحلے پر 63 رنز کی شراکت داری قائم کی اور پاکستان کے امکانات کا خاتمہ کر دیا۔

میکس ویل 38 گیندوں پر اتنے ہی رنز بنانے کے بعد اس وقت آؤٹ ہوئے جب آسٹریلیا کو فتح کے لیے صرف 15 رنز درکار تھے۔ اور 46 ویں اوور میں آسٹریلیا نے ہدف کو جا لیا۔ جارج بیلے 57 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔ انہوں نے 88 گیندیں کھیلیں اور ایک چھکا اور ایک چوکا مارا۔

پاکستان کی جانب سے سعید اجمل نے بہت عمدہ باؤلنگ کی اور 10 اوورز میں محض 30 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں جبکہ محمد حفیظ نے صرف 29 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ایک وکٹ شاہد آفریدی کو ملی۔ کھلائے گئے دونوں "تیز باؤلر" مکمل طور پر ناکام رہے۔ سہیل تنویر نے 8 اوورز میں 47 جبکہ اعزاز چیمہ نے 7.2 میں 38 رنز دیے اور نامراد رہے۔

اس طرح آسٹریلیا نے سیریز میں 1-0 کی برتری حاصل کر لی، اور اپنی عالمی درجہ بندی میں چوتھی پوزیشن بچا لی ہے۔

مچل اسٹارک کو شاندار باؤلنگ پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب دونوں ٹیمیں 31 اگست کو ابوظہبی میں دوسرے ایک روزہ میں مدمقابل ہوں گی، جہاں پاکستان کو سیریز کو زندہ رکھنے کے لیے لازماً فتح حاصل کرنا ہوگی۔