مائیکل ہسی اور میکس ویل نے آسٹریلیا کو سیریز جتا دی

9 1,070

مردِ بحران مائیکل ہسی اور نوجوان گلین میکس ویل کی شاندار بلےبازی نے پاکستان کی جلتی بجھتی امیدوں کےچراغ بالآخر گل کر دیے اور آسٹریلیا نے تیسرے و فیصلہ کن ایک روزہ میں دلچسپ مقابلے کے بعد 3 وکٹوں سے کامیابی حاصل کر کے سیریز 2-1 سے سمیٹ لی۔ ایک تیز گیند باز کےساتھ میدان میں اترنا، اوپنرز کی شاندار سنچری رفاقت کا فائدہ نہ اٹھا پانا، بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی، پاور پلے اور حتمی اوورزمیں رنز نہ بنانا، کیچ اور اسٹمپ چھوڑنا، درست وقت پر امپائر کے فیصلے پر نظرثانی (ریویو) نہ لینا اور سب سے بڑھ کر ٹاس ہارنے کے بعد بادل نخواستہ پہلے بلے بازی نے پاکستان کی شکست پر مہر ثبت کی۔ سیریز میں تمام مقابلے بعد میں بلے بازی کرنے والی ٹیموں نے جیتے اور آخری مقابلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ شارجہ میں رات کو گرنے والی اوس نے پاکستانی گیند بازوں کے لیے خاصی مشکلات کھڑی کیں اور بالآخر بازی آسٹریلیا کے نام رہی۔ یوں پاکستان نے 10 سال کے طویل عرصے کے بعد کسی ون ڈے سیریز میں آسٹریلیا کو ہرانے کا سنہرا موقع گنوا دیا۔

نوجوان گلین میکس ویل نے محض چوتھے بین الاقوامی مقابلے میں اپنی اہمیت ثابت کر دی (تصویر: AP)
نوجوان گلین میکس ویل نے محض چوتھے بین الاقوامی مقابلے میں اپنی اہمیت ثابت کر دی (تصویر: AP)

بلاشبہ میچ کا سب سے فیصلہ کن لمحہ وہ تھا جب مائیکل ہسی صفر کے خلاف سعید اجمل کی گیند پر ایل بی ڈبلیو کی زبردست اپیل امپائر بلی باؤڈن نے رد کر دی اور سعید نے وکٹ کیپر کامران اکمل سے مشورے کے بعد فیصلے پر نظرثانی نہ کروانے کا ارادہ کیا۔ یوں امپائر کے بعد خود پاکستانی کھلاڑی بھی بہت بڑی غلطی کر بیٹھے کیونکہ ری پلے سے صاف ظاہر تھا کہ گیند وکٹوں کولگ رہی ہے۔ اگر سعید اس وقت نظرثانی کا فیصلہ کر لیتے تو پاکستان بہت اہم موقع پر اہم وکٹ سمیٹ لیتا۔ بہرحال، اس کے بعد مائیکل ہسی نے روایتی اندازمیں ایک بحرانی اننگز کھیلی اور 65 رنز بنائے جبکہ ان کے ساتھ فیصلہ کن کردار نوجوان میکس ویل کی 56 رنز کی تباہ کن و ناقابل شکست اننگزنے اداکیا۔ محض 23 سال کے اس ناتجربہ کار نوجوان نے بالکل ہی اجنبی صورتحال میں جیسی شاندار بلے بازی کی، وہ اس کے مضبوط اعصاب اور بلاشبہ روشن مستقبل کو ظاہر کرتی ہے۔

ابوظہبی میں کھیلے گئے دوسرے ایک روزہ میں ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ غلط ثابت ہونے کے بعد خوش قسمتی سے مائيکل کلارک تیسرے مقابلے میں بھی ٹاس جیت گئے اور جس طرح دودھ کا جلا ہوا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، بالکل اسی طرح کلارک نے بھی فوراً سے پیشتر گیند بازی کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو بلے بازی کی دعوت دی۔ اور کیا ہی عمدہ آغاز فراہم کیا دونوں اوپنرز نے۔ محمد حفیظ اور ناصر جمشید نے سست روی سے شروعات کرنے کے بعد آسٹریلوی گیند بازوں کے چھکے چھڑا دیے۔ انہوں نے اننگز کے نصف سے بھی زائد اوورز کھیلے اور 129 رنز کی زبردست شراکت داری قائم کر کے پاکستان کو ایک بڑے ہدف کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کی۔ یہ 1985ء کے بعد پاکستان کی کسی بھی اوپننگ جوڑی کی آسٹریلیا کے خلاف پہلی سنچری رفاقت تھی۔

ناصر جمشید بدقسمتی سے اپنی نصف سنچری مکمل نہ کر سکے اور 48 رنز بنا کر مچل جانسن کی پہلی وکٹ بنے لیکن یہ دوسرے اینڈ پر کھڑے محمد حفیظ تھے جو کافی دنوں کے بعد بہت ہی عمدہ فارم میں نظر آئے۔ بہرحال، میچ کے ایسے مرحلے پر جب اننگز میں ٹھیراؤ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، شاہد آفریدی کو میدان میں بھیج کر پاکستان نے خود کو نفسیاتی دباؤ میں ڈالا کیونکہ وہ مچل جانسن کے اگلے ہی اوور میں پل کرنے کی کوشش میں مڈ وکٹ پر کیچ دے بیٹھے۔ انہوں نے محض 7 رنز بنائے۔ کپتان مصباح الحق کا شاہد آفریدی کو ایسے لمحے پر بھیجنے کا فیصلہ بہرحال سمجھ سے بالاتر تھا لیکن اسکور بورڈ پر 140 رنز کا مجموعہ اور بڑی تعداد میں اوورز کا باقی بچنا پاکستان کے لیے مثبت پہلو تھے، جس کی وجہ سے آفریدی کی روانگی کسی کو بری نہیں لگی۔

خیر، ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پاکستان کو تیسرا اور بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا، اور وہ تھا محمد حفیظ کا جو 97 گیندوں پر 2 خوبصورت چھکوں اور 4 چوکوں کی مدد سے78 رنز بنانے کے بعد حریف کپتان مائیکل کلارک کی گیند پر ایل بی ڈبلیو قرار پائے۔ یوں پاکستان 155 پر تین وکٹوں سے محروم ہو گیا۔

اب جبکہ اننگز کو تیز تر کرنے کی ضرورت تھی، لیکن پاکستان ایسا نہ کر پایا۔ اسد شفیق نے کوشش ضرور کی لیکن مچل اسٹارک کو اندھادھند انداز میں کھیلنے کی کوشش انہیں بہت مہنگی پڑی اور وہ شارٹ فائن لیگ کو آسان کیچ تھما بیٹھے۔ انہوں نے 35 گیندوں پر 27 رنز بنائے اور اس کے بعد اسٹارک کا جادو چل پڑا جنہوں نے اسی اوور کی آخری گیند پر عمر اکمل کو ڈیپ مڈوکٹ پر کیچ آؤٹ کروایا۔عمر اکمل جن کی پاکستان کو بہت ضرورت تھی کیونکہ وہ پاور پلے میں کھیل رہے تھے لیکن انہوں نے اپنے ہاتھوں سے وکٹ ضایع کر کے پاکستان کو اس برتری سے محروم کر دیا جو سنچری اوپننگ شراکت داری سے اسے حاصل ہوئی تھی۔ اب اننگز کے 11 اوورز باقی تھے اور ٹیم کے دو سست ترین بلے باز یعنی مصباح الحق اور اظہر علی کریز پر تھے اور نتیجہ وہی نکلا جن کی ان دونوں سے توقع تھی کہ پاکستان اگلے 11 اوورز میں صرف 59 رنز بنا پایا۔ اسٹارک جو دو قیمتی وکٹیں سمیٹ کر اعتماد بلند کر چکے تھے نے مصباح الحق 25 رنز اور کامران اکمل 2 رنز کو بھی ٹھکانے لگایا اور یوں 51 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کیں۔ اظہر علی 30 گیندوں پر 27 رنز بنا کر ناقابل شکست رہے جبکہ عبد الرحمن نے 12 رنز بنائے۔

129 رنز پر بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے کھیلنے والا پاکستان 244 پر 7 وکٹوں کے ساتھ اپنی اننگز کے اختتام کو پہنچا۔ آسٹریلیا کو جیتنے کے لیے 245 رنز کا ہدف ملا جو بلاشبہ ابتدا میں نظر آنے والے 280 رنز سے زائد کے ہدف سے کہیں کم تھا اور یہیں سے آسٹریلیا کو مقابلے میں برتری ملی۔

نوجوان مچل اسٹارک، جو ماضی کے عظیم باؤلر وسیم اکرم کے پسندیدہ ہیں، کی 4 وکٹوں کے علاوہ دو وکٹیں مچل جانسن اور ایک وکٹ مائیکل کلارک نے حاصل کی۔

جواب میں آسٹریلیا کا تعاقب پاکستان کے لیے بہت تباہ کن تھا۔ ڈیوڈ وارنر، جو پوری سیریز میں ناکام ہی رہے ہیں، نے پاکستانی گیند بازوں کو آڑے ہاتھوں لیا، جو محض ایک تیز باؤلر کی خدمات کے حامل تھے۔ غالباً اسی لیے آسٹریلیا نے آؤٹ آف فارم میتھیو ویڈ کی جگہ خصوصی ہدایات کے ساتھ ڈیوڈ ہسی کو اوپنر بھیجا اور ان کی بلے بازی نے بھی ثابت کیا کہ آسٹریلیا کے ارادے جلد از جلد بساط لپیٹنے کےہیں۔ دونوں کھلاڑیوں نے پاکستانی باؤلرز کو زبردست چھکے رسید کیے اور ابتدائی اوورز ہی میں دو مرتبہ امپائروں کو نئی گیندیں طلب کرنا پڑیں کیونکہ ان بلے بازوں نے گیند کو میدان سے باہر پھینک دیا تھا۔

صورتحال بہت ہی زیادہ خطرناک ہونے سے قبل ہی عبد الرحمن نے ڈیوڈ وارنر کو ٹھکانے لگا دیا جو 21 رنز بنانے کے بعد ایک پل شاٹ کھیلنے کی کوشش میں کیچ دے بیٹھے۔ لیکن پاکستان کے نصیب میں شاید سکھ کا سانس فی الوقت نہیں تھا۔ مائیکل کلارک ہسی کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں آئے، رنز بنانے کی رفتار تو کم ہوئی ہی کیونکہ سعید اجمل نے گیند بازی کا آغاز کر دیا تھا لیکن پھر بھی آسٹریلیا مطلوبہ رن اوسط سے کہیں آگے تھا۔ اس دوران پاکستان کو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ مائیکل کلارک کا ایک تیز ڈرائیو سیدھا باؤلنگ کرنے والے شاہد آفریدی کے بائیں ہاتھ پر لگا جس سے ان کے انگوٹھے سے خون بھی نکلا اور وہ بمشکل اوور مکمل کرنے کے بعد ابتدائی طبی امداد کے لیے میدان سے باہر گئے۔ یہ چوٹ اس لیے بھی فیصلہ کن ثابت ہوئی کیونکہ اس کے نتیجے میں شاہد آفریدی پورے میچ میں اچھی طرح باؤلنگ نہیں کروا سکے حتیٰ کہ ان کے لیے بائیں ہاتھ سے فیلڈنگ کرنا یا گیند روکنا بھی ممکن نہ رہا تھا۔

بہرحال، پاکستان کو اگلی وکٹ کے لیے تقریباً 8 اوورز کا انتظار کرنا پڑا جب سعید اجمل ہی کی ایک گیند بجائے پڑ کر سیدھا نکلنے کے آف اسپن ہوئی اور آگے بڑھ کر کھیلنے کی کوشش کرنے والے کپتان مائیکل کلارک وکٹوں کے پیچھے کامران اکمل کے ہاتھوں اسٹمپ ہو گئے۔ انہوں نے 34 گیندوں پر 32 رنز بنائے۔ اُسی اوور میں سعید اجمل کی گیند پر مائیکل ہسی ایل بی ڈبلیو ہوئے لیکن پاکستان نے امپائر کے فیصلے کو ہی مقدم جانا اور نظرثانی نہ کروائی لیکن اگر وہاں ریویو لے لیا جاتا تو شاید اب میچ کا نتیجہ مختلف ہوتا۔ البہ اس معاملے میں امپائر کی غلطی زیادہ اہم ہے بجائے اس کے کہ نظرثانی کے معاملے پر ’لکیر پیٹی جائے‘ امپائر کو دوش دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ خیر، سعید اجمل نے اس کے بعد جارج بیلے کو وکٹوں کے پیچھے کامران اکمل سے کیچ کروایا۔ پاکستان میچ میں واپس آ چکا تھا، آسٹریلیا جو ابھی نصف تک بھی نہ پہنچا تھا اپنے 4 اہم بلے بازوں سے محروم ہو گیا تھا۔

آسٹریلیا کا 10 سال سے پاکستان کے خلاف سیریز نہ ہارنے کا ریکارڈ برقرار رہا (تصویر: AFP)
آسٹریلیا کا 10 سال سے پاکستان کے خلاف سیریز نہ ہارنے کا ریکارڈ برقرار رہا (تصویر: AFP)

اس موقع پر مصباح الحق نے سعید اجمل کو ہٹا کر دیگر گیند بازوں سے اوورز کروانے کی ٹھانی اور نتیجہ کریز پر موجود مائیکل ہسی اور میتھیو ویڈ کو ملنے والے سکون کی صورت میں نکلا۔ انہوں نے پانچویں وکٹ پر 51 رنز کا اضافہ کیا۔ ویڈ عبد الرحمن کا دوسرا شکار بنے جب گیند بلے اور پیڈ کے درمیان خلا سے نکلتی ہوئی براہ راست وکٹوں پر جا لگی۔ انہوں نے 46 گیندوں پر 22 رنز بنائے اور ہسی کا بھرپور ساتھ دیا۔

اب وہ بلے باز میدان میں موجود تھے، جنہوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ 23 سالہ میکس ویل، جو محض اپنا چوتھا ایک روزہ کھیل رہے تھے، نے کمال کی بلے بازی کی۔ انہوں نے خود پر موجود دباؤ کو سرے سے محسوس ہی نہ کیا اور مائیکل کلارک کے شاہد آفریدی کو لگائے ہوئے گھاؤ مزید گہرا کر دیا، یعنی اُن کے ایک اوور میں 16 رنز لوٹ لیے۔ گو کہ آسٹریلیا کو مائیک ہسی اور ڈین کرسچن کی صورت میں جنید خان کے ہاتھوں دو وکٹیں گنوانا پڑیں لیکن مقابلہ ہاتھوں سے نکل چکا تھا۔ دوسرے اینڈ پر کھڑے میکس ویل کو روکنا پاکستان کے کسی باؤلر کے بس میں نہ لگتا تھا اور پاکستان نے موقع بھی ضایع کیا۔ 44 ویں اوور کی پہلی گیند پر میکس ویل کو اس وقت زندگی ملی جب ڈیپ مڈوکٹ پر اظہر علی نے ان کا ایک کیچ چھوڑا اور پاکستان کی شکست پر مہر ثبت کر دی۔

میکس ویل سعید اجمل کے اگلے اوور میں مسلسل دو گیندوں پر چھکا اور چوکا رسید کر کے پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکا اور اگلے اوور میں ایک اینڈ سے وکٹ گرنے کے بعد انہوں نے ایک پھر چوکے اور چھکے کی صورت میں دو مرتبہ گیند کو باؤنڈری کی سیر کرائی اور میچ کا خاتمہ کر دیا۔ میکس ویل محض 38 گیندوں پر 3 چھکوں اور 4 چوکوں کی مدد سے مختصر کیریئر کے بہترین 56 رنز بناکر ناقابل شکست رہے اور بلاشبہ یہ اننگز انہیں اپنے پورے کیریئر میں یاد رہے گی۔ یوں آسٹریلیا سیریز تو جیتا ہی لیکن انہیں میکس ویل کی صورت میں اک ایسا نوجوان کھلاڑی بھی میسر آ گیا جو عرصہ تک اُن کے لیےخدمات انجام دے سکتا ہے۔

وہ مشہورمحاورہ ہے نا کہ ”ہمتِ مرداں، مددِ خدا“ تو ہمت آسٹریلیا کے کھلاڑیوں نے دکھائی تو خدا نے ان کی مدد بھی کی جبکہ پاکستان نے بلے بازی میں ”کارنامے“ انجام دینے کے بعد بھی کیچ اور اسٹمپ ضایع کر کے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری۔ فیصلہ کن اننگز کھیلنے پر مائیکل ہسی کو میچ اور تینوں مقابلوں میں عمدہ گیند بازی پر مچل اسٹارک کو سیریز کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔

اب دونوں ٹیمیں تین ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں آمنے سامنے ہوں گی۔ ان مقابلوں کی اہمیت اس لیے ہے یہ کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء سے قبل دونوں ٹیموں کے آخری بین الاقوامی مقابلے ہیں۔ سال کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ 18 ستمبر سے سری لنکا میں شروع ہو رہا ہے۔

پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا

تیسرا ایک روزہ بین الاقوامی مقابلہ

3 و 4 ستمبر 2012ء

بمقام: شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم، شارجہ، متحدہ عرب امارات

نتیجہ: آسٹریلیا 3 وکٹوں سے فتح یاب

سیریز نتیجہ: آسٹریلیا 2-1 پاکستان

میچ کے بہترین کھلاڑی: مائیکل ہسی (آسٹریلیا)

سیریز کے بہترین کھلاڑی: مچل اسٹارک (آسٹریلیا)

پاکستان رنز گیندیں چوکے چھکے
محمد حفیظ ایل بی ڈبلیو ب کلارک 78 97 4 2
ناصر جمشید ک ویڈ ب جانسن 48 75 6 0
شاہد آفریدی ک میکس ویل ب جانسن 7 6 1 0
اسد شفیق ک بیلے ب اسٹارک 27 35 1 0
مصباح الحق ک وارنر ب اسٹارک 25 39 0 0
عمر اکمل ک ڈیوڈ ہسی ب اسٹارک 0 2 0 0
اظہر علی ناٹ آؤٹ 27 30 2 0
کامران اکمل ب اسٹارک 2 3 0 0
عبد الرحمن ناٹ آؤٹ 12 13 1 0
فاضل رنز ب 4، ل ب 1، و 13 18
مجموعہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 244

 

آسٹریلیا (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
جیمز پیٹن سن 10 1 50 0
مچل اسٹارک 10 0 51 4
مچل جانسن 9 0 33 2
گلین میکس ویل 7 0 33 0
ڈینیل کرسچن 10 0 55 0
ڈیوڈ ہسی 2 0 14 0
مائیکل کلارک 2 0 3 1

 

آسٹریلیاہدف: 245 رنز رنز گیندیں چوکے چھکے
ڈیوڈ وارنر ک متبادل (شعیب ملک) ب عبد الرحمن 21 33 3 1
ڈیوڈ ہسی ک عبد الرحمن ب سعید اجمل 43 45 0 3
مائیکل کلارک اسٹمپ کامران اکمل ب سعید اجمل 32 34 4 0
مائیکل ہسی ب جنید خان 65 72 7 1
جارج بیلے ک کامران اکمل ب سعید اجمل 1 6 0 0
میتھیو ویڈ ب عبد الرحمن 22 46 1 0
گلین میکس ویل ناٹ آؤٹ 56 38 4 3
ڈینیل کرسچن ک متبادل (عمران فرحت) ب جنید خان 2 7 0 0
مچل جانسن ناٹ آؤٹ 1 1 0 0
فاضل رنز ل ب 4، و 3 7
مجموعہ 47 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 250

 

پاکستان (گیند بازی) اوورز میڈن رنز وکٹیں
جنید خان 6 0 42 2
محمد حفیظ 10 0 49 0
عبد الرحمن 9 0 41 2
شاہد آفریدی 10 0 62 0
سعید اجمل 9 1 37 3
اظہر علی 3 0 15 0