[آج کا دن] ”مسٹر 69“، ”زولو“ یا ”لانس شیر دِل“

0 1,218

کرکٹ کی تاریخ کے بہترین عالمی کپ ٹورنامنٹس میں سے ایک، محض 8 مقابلوں میں 17 وکٹیں اور صرف 230 گیندوں پر 281 رنز اور نازک ترین مراحل پر تین فتح گر اننگز، لیکن اتنی جامع کارکردگی ایک معمولی غلطی کی وجہ سے ٹیم کو عالمی کپ نہ جتوا سکی۔ ہم ذکر کر رہے ہیں ایک عظیم آل راؤنڈ لانس کلوزنر کا، جنہوں نے 1999ء میں تن تنہا جنوبی افریقہ کو تقریباً عالمی کپ جتوا ڈالا تھا لیکن آسٹریلیا کے خلاف مشہور زمانہ سیمی فائنل میں ”دوچار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا“ والا معاملہ ہو گیا۔ جنوبی افریقہ بوجھل دل کے ساتھ اور کلوزنر عالمی کپ 99ء کے کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز لیے وطن واپس لوٹے۔ اور ہم پاکستانی شائقین بھلا 41 گیندوں پر 46 رنز کی وہ اننگز کیسے بھول سکتے ہیں، جس کے دوران کلوزنر کی جانب سے شعیب اختر کو لگائے گئے خوبصورت شاٹس کی بدولت پاکستان سپر سکس کے اہم ترین میچ میں جنوبی افریقہ سے شکست کھا گیا تھا۔

لانس کلوزنر کے "بیس بال انداز" کے چھکے مشہور تھے (تصویر: Getty Images)
لانس کلوزنر کے "بیس بال انداز" کے چھکے مشہور تھے (تصویر: Getty Images)

خیر، تو ذکر کریں اس مقابلے کا، جسے دنیا ”تاریخ کے بہترین ون ڈے مقابلوں“ میں شمار کرتی ہے؟ جی ہاں! عالمی کپ 99ء کا دوسرا سیمی فائنل۔ برمنگھم میں ہونے والے اس مقابلے میں آسٹریلیا نے پہلے بلے بازی کی اور جنوبی افریقہ کو 50 اوورز میں 214 رنز کا ہدف دیا لیکن وہ تعاقب میں بری طرح لڑکھڑا گیا اور جب کلوزنر میدان میں آئے تو 45 واں اوور تھا اور جنوبی افریقہ کا اسکور محض 175 پر 6 کھلاڑی آؤٹ تھا لیکن اُن کے آتے ہی مقابلے کا جھکاؤ جنوبی افریقہ کے حق میں ہونے لگا، جیسا کہ ٹورنامنٹ کے گزشتہ مقابلوں میں بھی ہو چکا تھا کہ کلوزنر تن تنہا اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر جنوبی افریقہ کو جتوا چکے تھے۔ پھر معاملہ یہاں تک پہنچا ڈالا کہ جنوبی افریقہ کو آخری اوور میں جیتنے کے لیے محض 9 رنز کی ضرور تھی لیکن ساتھ ساتھ اس کی 9 وکٹیں بھی گرچکی تھیں۔ یعنی صرف ایک گیند جنوبی افریقی پیش قدمی کا خاتمہ کر سکتی تھی۔ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کلوزنر نے ابتدائی دونوں گیندوں پر ڈیمین فلیمنگ کو خوبصورت چوکے رسید کیے اور مقابلہ برابر کر دیا۔ اب پروٹیز کو چار گیندوں پر صرف ایک رن چاہیے تھا اور وہ پاکستان کے خلاف عالمی کپ کا فائنل کھیلتا۔ تیسری گیند ضایع کرنے کے بعد چوتھی گیند کو میدان بدر کرنے کی کوشش ناکام رہی اور گیند مڈ وکٹ پر کھڑے مارک واہ کے ہاتھوں میں گئی۔ کلوزنر اندھادھند دوڑ پڑے لیکن دوسرے اینڈ پر کھڑے ایلن ڈونلڈ کی نظریں بجائے ساتھی کھلاڑی کے گیند پر تھیں، اس لیے انہوں نے دھیان نہیں دیا اور جب دونوں کو حقیقت کا درست ادراک ہوا تو گیند وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھی اور ڈونلڈ رن آؤٹ ہو گئے۔ مقابلہ برابر قرار پایا اور کیونکہ گروپ مقابلے میں آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو ہرایا تھا، اس لیے قوانین کے تحت آسٹریلیا فائنل کا حقدار قرار پایا اور بعد ازاں عالمی چیمپئن بھی بنا جبکہ جنوبی افریقہ منزل کے بہت قریب پہنچ کر بھی نامراد ٹھیرا۔

بہرحال، عالمی کپ کی شاندار کارکردگی کی بدولت نہ صرف معروف جریدے وزڈن نے 2000ء میں کلوزنر کو سال کا بہترین کھلاڑی قرار دیا ، بلکہ وہ ایک روزہ بلے بازوں کی عالمی درجہ بندی میں نمبر ایک پوزیشن پر پہنچا دیا، جو کسی بھی آل راؤنڈر کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

لانس کلوزنر 4 ستمبر 1971ء کو ڈربن میں پیدا ہوئے، یعنی آج ان کی 41 ویں سالگرہ ہے۔ کلوزنر ایک کارآمد آل راؤنڈر تھے جنہوں نے 1999ء کے عالمی کپ سےعالمگیر شہرت حاصل کی اور پھر ترقی کی منازل طے کرتے گئے یہاں تک کہ ہر بڑے کھلاڑی کی طرح وہ ’باغی‘ اور ’نظم و ضبط سے عاری‘ قرار پائے اور ہمیشہ کے لیے ٹیم سے باہر کر دیے گئے۔

بحیثیت سپاہی فوج میں تین سال خدمات انجام دینے والے لانس فوجی ذہنیت ہی کے حقیقی علمبردار لگتے تھے یعنی جارح مزاجی۔ ہیلمٹ کے نیچے فوجی کٹ بالوں کا حامل کلوزنر صرف ایک بات جانتا تھا، وہ یہ کہ جب بلے بازی کے لیے آنا ہے تو حریف ٹیم کے ہاتھوں سے میچ چھین لینا ہے اورجب بال پھینکنی ہے تو اگر گیند وکٹ پر نہ لگے تو مقابل بلے باز کی کھوپڑی پر لگنی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کھلاڑی کی پہچان آسٹریلیا-جنوبی افریقہ یہی سیمی فائنل بن گیا، کیونکہ یہ بہت بڑا مقابلہ تھا شاید اس لیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کلوزنر کے کیریئر میں متعدد ایسے مقابلے ہیں، جن سےان کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ سب سے پہلے ان کے اولین ٹیسٹ کا ذکر کر لیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ ایک روزہ کرکٹ کے کھلاڑی تھے حالانکہ انہوں نے 49 ٹیسٹ مقابلوں میں بھی جنوبی افریقہ کی نمائندگی کی تھی اور 32.86 کے اوسط سے 1906 رنز اور 37.91 کے اوسط سے 80 وکٹیں اپنے نام کیں۔

کلوزنر کی شہرت کا آغاز پہلے ٹیسٹ سے ہی ہوا جب دسمبر 1996ء میں کولکتہ کے تاریخی میدان ایڈن گارڈنز میں ہونے والے ٹیسٹ مقابلے میں انہیں عظیم گیند باز ایلن ڈونلڈ کے ساتھ بحیثیت اسٹرائیک باؤلر شامل کیا گیا اور پہلی اننگز میں وہ ’بلے بازوں کی جنت‘ پر بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن اپ کے سامنے مکمل بے بس پائے گئے۔ پھینکے گئے 14 اوورز میں انہیں 5.35 کے بھاری اوسط سے 75 رنز پڑے اور کوئی وکٹ بھی نہ ملی۔ اس میں مسلسل پانچ گیندوں پر محمد اظہر الدین کی جانب سے مارے گئے پانچ چوکے بھی شامل تھے۔ لیکن دوسری اننگز میں جب بھارت 467 رنز کے ہدف کے تعاقب میں تھا، یہ کلوزنر ہی تھے جن کی تباہ کن باؤلنگ نے بھارت کو 137 رنز پر ڈھیر کر دیا۔ انہوں نے کوئی دو، تین یا چار نہیں بلکہ پوری 8 وکٹیں حاصل کیں جن میں سارو گانگلی، وی وی ایس لکشمن اور محمد اظہر الدین جیسے جانے مانے بلے باز بھی شامل تھے۔ یہ اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے کا اُن کے ٹیسٹ کیریئر کا واحد کارنامہ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے چوتھے ہی ٹیسٹ میں اُس وقت کی تیز ترین سنچری کا قومی ریکارڈ اپنے نام کیا ۔

بعد ازاں 1999ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف نیپئر میں ہونے والے ایک روزہ مقابلے میں انہوں نے وہ کارنامہ انجام دیا، جو تاریخ میں بہت ہی کم دیکھا گیا ہے۔ اگر پاکستانی زبان میں کہا جائے کہ ”شارجہ والی صورتحال“ پیدا ہو گئی تھی تو بے جا نہ ہوگا۔ شارجہ کے تاریخی پاک-بھارت مقابلے کی طرح یہاں میک لین پارک نیپئر میں لانس کلوزنر کو آخری گیند پر میچ جیتنے کےلیے 4 رنز درکار تھے جبکہ ڈیون ناش گیند پھینک رہے تھے۔ ناش نے بھی چیتن شرماہی کی طرح یارکر پھینکنے کی کوشش کی، جو غلطی سے فل ٹاس ہو گئی اور پھر گیند فضائی سفر کرتی ہوئی میدان سے باہر جا گری اور کلوزنر نے نہ صرف میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کیا بلکہ اس چھکے کی بدولت جنوبی افریقہ نے سیریز بھی برابر کر ڈالی۔

ایک روزہ کرکٹ میں اعداد و شمار ہی اُن کی عظمت کے گواہ ہیں۔ 171 ایک روزہ مقابلوں کے وسیع کیریئر میں انہوں نے 41.10 کی اوسط سے 3576 رنز بنائے، جس میں ان کا اسٹرائیک ریٹ 89.91 تھا۔ کیریئرمیں دو سنچریاں اور 19 نصف سنچریاں بنانے کے علاوہ انہوں نے 29.95 کے معقول اوسط کے ساتھ 192 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ ان کی بہترین کارکردگی 49 رنز دے کر 6 وکٹیں حاصل کرنا رہا۔ ایک روزہ کرکٹ میں اتنی جامع کارکردگی تاریخ میں بہت کم آل راؤنڈرز کی جانب سے دکھائی گئی ہے۔

فوج میں تین سال خدمات بھی انجام دینے والے کلوزنر اب کل وقتی کوچ ہیں
فوج میں تین سال خدمات بھی انجام دینے والے کلوزنر اب کل وقتی کوچ ہیں

لانس کلوزنر کے بارے میں یہ بات بہت زیادہ مشہور تھی کہ نظم و ضبط کے معاملے میں ان کا رویہ دنیائے کرکٹ کے چند ”عظیم کھلاڑیوں“ جیسا ہی تھا اور وہ اس معاملے میں بالکل لاپروا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی افریقہ کی قیادت سنبھالتے ہی گریم اسمتھ نے سب سے پہلے کلوزنر کو نکیل ڈالنے کی ٹھانی۔ اس حوالے سے اسمتھ کا یہ بیان تک سامنے آیا کہ نوجوان کھلاڑیوں کے لیے کلوزنر ایک ”انتشار پھیلانے والی قوت“ ہے۔2003ء میں قیادت سنبھالتے ہی ان کے ابتدائی بیانات میں انہوں نے یہ تک کہا کہ اپنی تمام تر غیر معمولی حیثیت کے باوجود وہ کسی بھی ٹیم کو تباہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ بحیثیت کھلاڑی ان کی صلاحیتوں سے انکار نہیں لیکن بحیثیت ایک ٹیم ممبر وہ اچھے نہیں۔

قبل ازیں ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے دوروں میں ناکامی کے بعد ٹیم سے اخراج اور بعد ازاں آبائی وطن میں کھیلےگئے 2003ء کے عالمی کپ میں غیر متاثر کن واپسی بھی ان کے کیریئر کا احیاء نہ کر سکی اور گریم اسمتھ کے ساتھ مصالحت کے بعد چند ناکام دورے ضرور ان کے کیریئر کا حصہ بنے لیکن بالآخر انہوں نے بین الاقوامی کرکٹ ہی چھوڑ دی۔

اپنی شرٹ کے نمبر ”69“ کی مناسبت سے ”مسٹر 69“ اور ”لانس شیر دِل“ کہلانے والے کلوزنر کی مشہور ترین عرفیت ”زولو“ تھی۔ حالانکہ ان کا تعلق زولو قبائل سے نہیں تھا، جو جنوبی افریقہ کے مشہور سیاہ فام جنگجو قبیلے کے افراد ہیں، لیکن اپنے والدین کے گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والے زولو لڑکوں کے ساتھ رہ کر انہوں نے زولو زبان سیکھ لی تھی اور اس میں مہارت ہی کی وجہ سے کلوزنر اپنے ساتھیوں میں زولو کے نام سے معروف تھے۔

کلوزنر اِس وقت جنوبی افریقہ میں مقامی کرکٹ میں کوچنگ کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور معروف ٹیم ڈولفنز کے کوچ ہیں۔ انہوں نے یہ عہدہ گراہم فورڈ کے چھوڑنے کے بعد سنبھالاہے جو اِس وقت سری لنکا کے کوچ ہیں اور حال ہی میں کہہ چکے ہیں کہ انہیں سری لنکا کے نو آموز کھلاڑی تھیسارا پیریرا میں لانس کلوزنر کی جھلک نظر آتی ہے۔