آئی سی سی ایوارڈز اور سعید اجمل کا معاملہ، چشم کشا اعداد و شمار

2 1,037

آئی سی سی کی منتخب جیوری کی مرتب کردہ سال کے بہترین کھلاڑیوں کی نامزد فہرست پر آئی سی سی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے درمیان تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ پی سی بی کا کہنا ہے کہ سعیداجمل کا اس فہرست میں انتخاب ہونا چاہیے تھا۔ آئی سی سی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ 32 ممبران پر مشتمل جیوری کے ووٹ کے ذریعے ایوارڈ کے لیے نامزد فہرست میں تبدیلی کرسکیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ معاملہ ختم ہوگیا ہے لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ذکا اشرف نے کرک انفو سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ احتجاجاً پاکستان کے کھلاڑی آئی سی سی ایوارڈ کی تقریب، جو 15 ستمبر کو کولمبو میں منعقد ہوگی، کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کرسکتے ہیں۔

غیرارادی طور پر ہی سہی لیکن، سعید اجمل کو سال کے بہترین کھلاڑی کے لیے نامزد نہ کرنا آئی سی سی کی بہت بڑی غلطی ہے (تصویر: Getty Images)
غیرارادی طور پر ہی سہی لیکن، سعید اجمل کو سال کے بہترین کھلاڑی کے لیے نامزد نہ کرنا آئی سی سی کی بہت بڑی غلطی ہے (تصویر: Getty Images)

آئی سی سی ایوارڈز کے لیے 4 اگست 2011ء سے 6 اگست 2012ء کے دوران بہترین کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کی ابتدائی فہرست کا انتخاب آئی سی سی کی پانچ رکنی جیوری کرتی ہے جو ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان کلائیو لائیڈ سربراہی میں کام کرتی ہے اور اس کے دیگر اراکین میں انگلستان کی کلیئر کونر، ویسٹ انڈیز کے کارل ہوپر، آسٹریلیا کے ٹام موڈی اور سری لنکا کے مارون اتاپتو پر شامل ہیں۔ اس کمیٹی نے سعید اجمل کا نام ابتدائی فہرست میں شامل کیا تھا۔ بعد ازاں سابق مایہ ناز کرکٹرز، صحافیوں اور کرکٹ ماہرین پر مشتمل ایک 32 رکنی انتخابی اکیڈمی ووٹ کے ذریعے ہر زمرے کے لیے چار حتمی امیدواروں کا انتخاب کرتی ہے۔ اس سال اکیڈمی میں پاکستان کے سابق کپتان عامر سہیل اور صحافی ماجد بھٹی شامل تھے۔

ایوارڈ کےلیے حتمی امیدواران کی تشکیل کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا اس کے بعد سعید اجمل دوسرے راؤنڈ ہی میں باہر ہوگئے۔ جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور کرکٹ شائقین کو سخت اعتراض ہے۔ یہ اعتراض صحیح ہے یا غلط ہم اس بارے میں اپنی ذاتی رائے اس وقت نہیں دیں گے جب تک اعداد و شمار کے ذریعے مکمل تصویر دکھانے کی کوشش نہ کرلیں۔ ہم امید کرتے ہیں اس پہلو کو دیکھنے کے بعد ہم فیصلہ کر پائیں گے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کہیں غیرضروری طور پر تو بین الاقوامی کرکٹ کونسل سے تعلقات خراب نہیں کر رہا؟

سب سے پہلے ہم سال کا بہترین کھلاڑی اور سال کا بہترین ٹیسٹ کھلاڑی کے ایوارڈ کے لیے آخری چار امیدوارکھلاڑیوں کی سال بھر کی کاکردگی کا جائزہ لیں گے۔ جن میں جنوبی افریقہ کے ہاشم آملہ اور ویرنن فلینڈر، آسٹریلیا کے مائیکل کلارک اور سری لنکا کے کمار سنگاکارا شامل ہیں۔

ہاشم آملہ (جنوبی افریقہ)

جنوبی افریقہ کے اس بہترین بلے باز نے 4 اگست 2011ء سے 6 اگست 2012ء کے درمیانی عرصے میں 10 ٹیسٹ میچز کھیلے۔ ان دس مقابلوں کی 16 اننگز میں دو مرتبہ ناقابل شکست رہتے ہوئے انہوں نے 65 اعشاریہ 35 کی اوسط سے 915 رنز اسکور کیے۔ جس میں 3 سنچریاں اور 4 نصف سنچریاں بھی شامل رہیں۔ اس دورانیے میں انہوں نے انگلستان کے خلاف ملکی تاریخ کی پہلی ٹرپل سنچری 311 رنز کی صورت میں بنائی۔ ان 10 مقابلوں میں جنوبی افریقہ کو 5 بار فتح حاصل ہوئی، دو بار شکست اور تین میچز ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔

اسی عرصے دوران ہاشم آملہ نے 8 ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے بھی کھیلے۔ ان 8 مقابلوں کی 8 اننگز میں انہوں نے 52 اعشاریہ 37 کی اوسط سے 419 رنز، بذریعہ ایک سنچری اور 4 نصف سنچری، بنائے۔ ان کا سٹرائیک ریٹ 87 اعشاریہ 30 جو بلاشبہ انتہائی متاثرکن ہے۔ ان میچز میں جنوبی افریقہ کو 6 بار فتح حاصل ہوئی، دو بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس عرصے کے دوران ہاشم آملہ نے 5 ٹی ٹوئنٹی میچز بھی کھیلے، جس میں وہ صرف 62 رنز بناسکے۔

مائیکل کلارک (آسٹریلیا)

آسٹریلیا کے کپتان اور مایہ ناز بلے باز مائیکل کلارک نے 4 اگست 2011ء تا 6 اگست 2012ء کے عرصے کے دوران 14 ٹیسٹ میچز کھیلے۔ ان 14 میچز کی 24 اننگز میں ایک مرتبہ ناقابل شکست رہتے ہوئے انہوں نے 58 اعشاریہ 91 کی اوسط سے 1355 رنز بنائے، جس میں 5 سنچریاں اور 2 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ انہوں نے بھارت کے خلاف 329 رنز کی ناقابل شکست اننگز بھی اسی عرصے میں کھیلی۔ ان 14 میچز میں آسٹریلیا کو 9 بار فتح حاصل ہوئی، دو بار شکست اور تین میچز ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔

اسی عرصے کے دوران مائیکل کلارک نے 18 بین الاقوامی ایک روزہ میچز کھیلے۔ ان 18 میچز کی18 اننگز میں تین بار ناقابل شکست رہتے ہوئےانہوں نے 50 اعشاریہ 60 کی اوسط سے 759 رنز بنائے۔ جس میں ایک سنچری اور 5 نصف سنچریاں شامل تھیں۔ ان کا سب سے زیادہ اسکور 117 اور سٹرائیک ریٹ 79 اعشاریہ 55 رہا۔ ان 8 میچز میں آسٹریلیا کو 8 بار فتح حاصل ہوئی، اور حیران کن طور پر دس بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

کمار سنگاکارا (سری لنکا)

سری لنکا کےاس مایہ ناز وکٹ بلے باز کیپرنے 4 اگست 2011ء تا 6 اگست 2012ء کے عرصے کے دوران 14 ٹیسٹ میچز کھیلے۔ کل 27 اننگز میں تین مرتبہ ناقابل شکست رہتے ہوئے انہوں نے 60 اعشاریہ 16 کی اوسط سے 1444 رنز بنائے۔ انہوں نے 5 سنچریاں اور 5 نصف سنچریاں بھی بنائیں، جس میں پاکستان کے خلاف 211 رنز کی ایک ڈبل سنچری اننگز بھی شامل ہے جبکہ دو مرتبہ وہ 190 رنز بنانے کے بعد ڈبل سنچری کا سنگ میل عبور کرنے سے پہلے دھر لیے گئے۔ بہرحال، 14 مقابلوں میں سری لنکا کو صرف 3 بار فتح حاصل ہوئی اور 5 مرتبہ شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ 6 مقابلے ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔

اس عرصے کے دوران کمار سنگاکارا نے 35 بین الاقوامی ایک روزہ کھیلے۔ ان 35 میچز کی 34 اننگز میں ایک بار ناقابل شکست رہتے ہوئےانہوں نے 43 اعشاریہ 21 کی اوسط سے 1426 رنز بنائے۔ انہوں نے 3 سنچریاں اور 9 نصف سنچریاں بنائیں، جن میں 133 ان کا سب زیادہ انفرادی اسکور رہا۔ ان 35 میچز میں سری لنکا کو 14 بار فتح حاصل ہوئی، اور21 بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

اس عرصے کے دوران کمار سنگاکارا نے 5 ٹی ٹوئنٹی میچز بھی کھیلے، جس میں وہ صرف 90 رنز ہی بناسکے۔

ویرنن فلینڈر (جنوبی افریقہ)

جنوبی افریقہ کےاس چھپے رستم تیز گیندباز نے 4 اگست 2011ء تا 6 اگست 2012ء کے عرصے کے دوران 9 ٹیسٹ میچز کھیلے۔ ان 9 میچز کی 18 اننگز میں 309.4 اوورز پھینکے، جس میں 16 اعشاریہ 57 رنز کی اوسط سے 928 رنز دے کر 57 وکٹیں حاصل کیں۔ جس میں دو مرتبہ میچ میں 10 وکٹیں اور 6 مرتبہ اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنا شامل ہے۔ ان کا سٹرائیک ریٹ 33 اعشاریہ 1رہا۔ اننگز میں ان کی بہترین گیند بازی 44 رنز کے عوض 6 وکٹیں رہی، جبکہ میچ میں بہترین باؤلنگ 102 رنز کے عوض 10 وکٹیں رہا۔ ان 9 میچز میں جنوبی افریقہ کو 5 بار فتح حاصل ہوئی، اور صرف1 بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ 3 میچز ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔

وہ اس اعزاز کےلیے نامزد ہونے والے واحد گیند باز ہیں۔

ویرنن فلینڈر نے اس عرصے کے دوران صرف ایک ون ڈے کھیلا جس میں ان کی کارکردگی قابل ذکر نہیں رہی۔ اور انہوں نے کوئی ٹی ٹوئنٹی میچ بھی نہیں کھیلا ۔

اب آئیےسال کا بہترین ایک روزہ کھلاڑی کے ایوارڈ کے لیے چار حتمی امیدوار کھلاڑیوں کی سال بھر کی کاکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ جن میں بھارت کے مہندر سنگھ دھونی اور ویراٹ کوہلی اور سری لنکا کے لاستھ مالنگا اور کمار سنگاکارا شامل ہیں۔ سری لنکا کے کمار سنگاکارا کے بین الاقوامی ایک روزہ میچز میں کارکردگی کا جائزہ اوپر پیش کیا جاچکا ہے، جبکہ بقیہ کھلاڑیوں کی کارکردگی کچھ یوں رہی۔

مہندرسنگھ دھونی (بھارت)

بھارت کے اس باصلاحیت کپتان نے 4 اگست 2011ء تا 6 اگست 2012ء کے عرصے کے دوران 25 بین الاقوامی ایک روزہ میچز کھیلے، جن کی 22 اننگز میں 11 بار ناقابل شکست رہتے ہوئے(جوان کی اوسط حد سے زیادہ متاثرکن دکھا رہا ہے) انہوں نے 78 اعشاریہ 09 کی اوسط سے 859 رنز بنائے۔ جس میں 8 نصف سنچریاں شامل رہیں اور 87 رنز کی سب بڑی انفرادی اننگز تھی اور انتہائی متاثر کن سٹرائیک ریٹ 95 اعشاریہ 23 رہا۔ ان 24 میچز میں بھارت کو 14 بار فتح حاصل ہوئی، اور8 بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ دو میچز برابری پر ختم ہوئے اور ایک میچ کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔

ویراٹ کوہلی (بھارت)

بھارت کی عظیم بلے باز پیدا کرنے کی روایت کے امین اس نوجوان انتہائی باصلاحیت بلےبازنے 4 اگست 2011ء تا 6 اگست 2012ء کے عرصے میں 31 بین الاقوامی ایک روزہ میچز کھیلے، جن کی 31 اننگز میں 5 بار ناقابل شکست رہتے ہوئے انہوں نے حیران کن طور پر 8 سنچریوں اور 6 نصف سنچریوں کی مدد سے 66 اعشاریہ 65 کی اوسط سے 1733 رنز بنائے۔ جس میں پاکستان کے خلاف 183 رنز کی سب بڑی شاندار انفرادی اننگز بھی شامل ہے۔ ان کا سٹرائیک ریٹ 92 اعشاریہ 77 رہا اور یوں یہ نوجوان کو اس ایوارڈ کے لیے ایک انتہائی مضبوط امیدوار ہے۔ ویسے ان 31 مقابلوں میں بھارت کو 18 بار فتح حاصل ہوئی، اور10 بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ دو میچز برابری پر ختم ہوئے اور ایک میچ کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔

لاستھ مالنگا (سری لنکا)

اس انوکھے باؤلنگ ایکشن والے حامل سری لنکا کے انتہائی خطرناک تیز گیندباز نے 4 اگست 2011ء تا 6 اگست 2012ء کے عرصے کے دوران 37 ایک روزہ میچز کھیلے، جن میں انہوں نے 316.5اوورز میں 5.40 رنز کے اوسط سے 1711 رنز دیتے ہوئے 52 وکٹیں حاصل کیں۔ یوں ان کا ہر وکٹ کے لیے اوسط 27 اعشاریہ 59 رنز رہا۔ انہوں نے ایک مرتبہ میچ میں چار وکٹیں اور 2 مرتبہ میچ میں 5 وکٹیں حاصل کیں۔ ان کا سٹرائیک ریٹ 30 اعشاریہ 6اور میچ میں بہترین باؤلنگ 28 رنز کے عوض 5 کھلاڑیوں کا شکار رہی۔ ان 37 میچز میں سری لنکا کو 14 بار فتح حاصل ہوئی، اور21 بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ ایک مقابلہ برابری پر ختم ہوا اور ایک کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔

اب آخر میں آئیے پاکستان کے سعید اجمل کااسی عرصے یعنی 4 اگست 2011ء تا 6 اگست 2012ء ٹیسٹ، بین الاقوامی ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میچز میں کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں۔

سعید اجمل (پاکستان)

ٹیسٹ

"دوسرا" گیند کو نئی جدت دینے معصوم و بھولی صورت کے سعید اجمل نے مذکورہ دورانیے میں 12 ٹیسٹ میچز کھیلے اور 672.2 اوورز میں 24.29 رنزکی اوسط سے1749 رنز دے کر 72 وکٹیں حاصل کیں۔ جس میں ایک مرتبہ میچ میں دس وکٹیں اور 3 مرتبہ اننگز میں 5 وکٹیں شامل ہیں۔ ان کا سٹرائیک ریٹ 56 اور اننگز میں بہترین باؤلنگ 55 رنز کے عوض 7 وکٹیں اور میچ میں بہترین باؤلنگ 97 رنز کے عوض 10 وکٹیں رہا۔ ان 12 میچز میں پاکستان کو 7 بار فتح حاصل ہوئی، اور صرف ایک بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ 4 میچز ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوئے۔

ایک روزہ میچز

اس عرصے کے دوران سعید اجمل نے 22 ایک روزہ میچز کھیلے جن میں 200 سے زائد اوورز پھینکے اور 16 میڈن اوورز کے ساتھ ہر اوور میں 4 اعشاریہ 16 رنز دیے اور 22.56 رنزکی اوسط سے 856 رنز دے کر 37 وکٹیں حاصل کیں۔ جس میں ایک دفعہ میچ میں 5 وکٹیں حاصل کرنا شامل ہے۔ میچ میں بہترین باؤلنگ 43 رنز کے عوض 5 کھلاڑیوں کا شکار رہی۔ ان 22 مقابلوں میں پاکستان کو 14 بار فتح حاصل ہوئی، اور8 بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

ٹی ٹوئنٹی میچز

مذکورہ عرصے میں سعید اجمل نے 9 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے، جن کی 9 اننگز میں ہر اوور میں 5 اعشاریہ 32 رنز کی انتہائی متاثر کن اکانومی ریٹ سے ساتھ 34 اوورز پھینکے اور ہر وکٹ کے لیے 16 اعشاریہ 45 رنز دیتے ہوئے 181 رنز دے کر 11 وکٹیں حاصل کیں۔ جس میں ایک مرتبہ میچ میں 4 وکٹیں حاصل کرنا بھی شامل ہے۔ ان کا سٹرائیک ریٹ 18 اعشاریہ 5اور میچ میں بہترین باؤلنگ 23 رنز کے عوض 4 وکٹیں حاصل کرنا رہا۔ ان 9 میچز میں پاکستان کو 6 بار فتح حاصل ہوئی، اور3 بار شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

اس سارے تجزیے کو مرتب کرتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ ہرچند کہ اس سال ٹیسٹ کرکٹ میں جنوبی افریقہ کے ویرنن فلینڈرکی کارکردگی مثالی رہی لیکن میرا خیال ہے کہ سال کے بہترین ٹیسٹ کھلاڑی کے لیے ان کے انتخاب کے بعد بھی سال کے بہترین کھلاڑی کے زمرے میں انہیں سعید اجمل پر فوقیت دینا، غیرارادی طور پر ہی سہی لیکن، آئی سی سی کے اکیڈمی ووٹرز کی بہت بڑی غلطی ہے۔

آخری بات پی سی بی کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہاشم آملہ، مائیکل کلارک اور ویراٹ کوہلی جیسے مضبوط امیدواروں کے سامنے اس سال سعید اجمل کا کوئی بھی ایوارڈ جیتنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ تو ایسے میں صرف نامزدگی فہرست میں سعید اجمل کی شمولیت پر اتنا زیادہ سخت موقف اپنانے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اس وقت پاکستان کرکٹ کو غیرضروری دشمن بنانے کے بجائے دوستوں کی ضرورت ہے۔