سپر میچ کا فیصلہ سپر اوور میں، اعصاب شکن مقابلہ، پاکستان فاتح

7 1,036

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان دوسرا ٹی ٹوئنٹی تاریخ کے سنسنی خیز ترین مقابلے میں تبدیل ہو گیا، جس میں کئی نشیب و فراز کے بعد بالآخر فیصلہ سپر اوور میں ہوا اور پاکستان نے آخری گیند پر ایک رن بنا کر میچ اور سیریز اپنے نام کر لی۔

سپر اوور کی آخری گیند پر فاتحانہ رن کے بعد عمر اکمل کی دیوانہ وار پویلین کی جانب دوڑ (تصویر: AFP)
سپر اوور کی آخری گیند پر فاتحانہ رن کے بعد عمر اکمل کی دیوانہ وار پویلین کی جانب دوڑ (تصویر: AFP)

میچ اپنے مقررہ 20، 20 اوورز کے اختتام تک کئی مرتبہ دونوں ٹیموں کی جانب جھکا اور آخری اوور، جو عبدالرزاق کا میچ کا واحد اوور بھی تھا، کبی پانچویں گیند پر پیٹ کمنز کے چھکے نے تو تقریبا معاملہ ختم ہی کر دیا تھا کیونکہ اس کے نتیجے میں مقابلہ برابر ہو گیا لیکن آخری بال پر وہ گیند کو ہوا میں اچھال بیٹھے اور عمران نذیر کے کیچ کے ساتھ مقابلہ ٹائی ہوا اور معاملہ سپر اوور تک چلا گیا۔

بین الاقوامی کرکٹ میں شاذ و نادر ہی پیش آنے والے اس "سپر اوور" نے میدان میں اک نیا جوش بھر دیا۔ تمام تماشائی اپنے نشستوں پر بیٹھنے کے بجائے کھڑے تھے جب عمر گل نے سپر اوور پھینکنے کے لیے دوڑ لگائی ۔ ان کا سامنا آسٹریلیا کے چھکوں کے ماہرین شین واٹسن اور ڈیوڈ وارنر سے تھا۔ گل نے چوتھی گیند پر وارنر کے ہاتھوں چوکا کھایا اور اگلی ہی گیند وائیڈ پھینک دی۔ میچ ہاتھوں سے پھسلتا دکھائی دیا لیکن خوش قسمتی سے ڈیوڈ وارنر پانچویں گیند پر لانگ آف پر کیچ دے بیٹھے اور آخری گیند پر کپتان جارج بیلے نے دو رنز بنائے۔یوں پاکستان کو ایک اوور میں جیتنے کے لیے 12 رنز کا ہدف ملا، جو کسی حد تک قابل قبول تھا۔

پاکستان نے بجائے روایتی اوپنرز محمد حفیظ اور عمران نذیر یا ناصر جمشید کے اتارنے کے عمر اکمل اور عبد الرزاق کو میدان میں اتارا۔ آسٹریلیا نے نسبتاً کم تجربہ کار کھلاڑی پیٹ کمنز کو گیند تھمائی اور شاید یہی فیصلہ ان کے حق میں ثابت نہ ہوا کیونکہ کمنز نے نہ صرف یہ کہ بہتر لائن پر گیندیں نہ پھینکیں بلکہ عین اس وقت جب پاکستان کو ایک گیند پر دو رنز درکار تھے اور میچ مکمل طور پر پھنسا ہوا تھا، ایک وائیڈ پھینک کر حریف کے لیے معاملہ بالکل آسان کر دیا۔

بہرحال، پہلی گیند پر عمر اکمل کی کریز پر بے ہنگم انداز میں آگے آ کر کھیلنے کی کوشش نے پاکستانی شائقین کو تو دہلا ہی دیا کیونکہ انہوں نے اس طرح اندھا دھند بلا گھمایا کہ وہ گیند سے کئی انچ دور ہی سے گزر گیا۔ لیکن عمر نے اگلی شارٹ گیند کو گیند باز اور امپائر کے اوپر سے چوکے کی راہ دکھا کر اپنے ارادے ظاہر کر دیے۔ تیسری گیند پر عمر نے ایک اور شارٹ اور آہستہ پھینکی گئی گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھانے میں ناکامی کھائی اور گیند وکٹ کیپر کے پاس گئی لیکن وہ ایک رن لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اب عبد الرزاق کی باری تھی، جو پورے سیریز میں ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے موجود تھے، سوائے اس کے کہ انہیں اس میچ کا سب سے قیمتی یعنی 20 واں اوور دیا گیا، اور انہوں نے اپنی اہلیت پہلی ہی گیند پر ثابت کر دی اور ایک اور شارٹ گیند کو بہت خوبی سے ڈیپ بیک وارڈ پوائنٹ کی باؤنڈری کی راہ دکھا دی۔ اب پاکستان کو دو گیندوں پر صرف تین رنز کی ضرورت تھی۔ عبد الرزاق پانچویں گیند کو فیصلہ کن نہ بنا سکے، بلکہ خوش قسمت رہے کہ گیند ڈیوڈ ہسی کے ہاتھوں تک نہ پہنچی اور پاکستان کو ایک قیمتی رن مل گیا، ورنہ پاکستان ایک گیند کے ساتھ ساتھ رن سے بھی محروم ہو جاتا۔

آخری گیند پر پاکستان کو دو رنز کی ضرورت تھی۔ دونوں ٹیموں کے میدان میں موجود کھلاڑیوں کے درمیان مختصر مشاورتی اجلاس ہوئے اور بالآخر کمنز گیند کرانے کے لیے دوڑے اور اک ایسی گیند پھینک دی جس کی توقع صرف ایک ناتجربہ کار گیند باز سے کی جا سکتی تھی۔ جی ہاں، انہوں نے باؤنسر پھینکنے کی کوشش کی اور گیند اتنا اوپر سے گئی کہ امپائر سے اسے وائیڈ قرار دے دیا۔ اب مقابلہ بالکل پاکستان کی گرفت میں تھا کہ اسے ایک گیند پر ایک ہی رن چاہیے تھا اور عمر اکمل نے اگلی گیندکو کور کی جانب کھیل کر پھرتی سے رن مکمل کر لیا اور پھر "فاتحانہ دوڑ" کا اختتام میدان سے باہر موجود کھلاڑیوں سے مل کر ہی کیا۔ میدان میں موجود ہزاروں پاکستانی تماشائی دیوانہ وار رقص کر رہے تھے اور یہاں پاکستانی کھلاڑی بھی فتح کے نشے سے سرشار تھے۔ پاکستان نے 3 مقابلوں کی سیریز کے ابتدائی دونوں مقابلے جیت کر سیریز اپنے نام کر لی اور ایک روزہ سیریز میں ناقص کارکردگی کے بعد سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء سے قبل یہ بلاشبہ ایک شاندار فتح ہے۔

پیٹ کمنز جنہوں نے آخری اوور میں عبد الرزاق کو چھکا رسید کر کے پاکستان کو مقابلے سے تقریباً باہر کر دیا تھا، گیند کے ساتھ وہ جادو نہ دکھا پائے اور حقیقت یہ ہے کہ بلے اور گیند دونوں سے وہ فیصلہ کن مواقع پر لڑکھڑا گئے۔ یعنی بلے سے آخری ایک گیند پر ایک رن لینے میں ناکامی اور پھر جب ایک گیند پر پاکستان کو دو رنز درکار تھے تو وائیڈ گیند پھینک کر آسٹریلیا کی فتح کا امکان گل کردینا۔

دوسری جانب 25 ہزار تماشائیوں کو اتنے گرم موسم میں پاک-آسٹریلیا مقابلہ دیکھنے کا صلہ بخوبی مل چکا تھا، اک ایسا مقابلہ جو سالوں میں جا کر کہیں ہوتا ہے اور بلاشبہ آنے والے کئی سالوں تک یاد بھی رکھا جائے گا۔

اب ذکر کیا جائے اس اننگز کا، جس میں پاکستانی کھلاڑیوں اور شائقین کا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی اور آسٹریلیا کو 152 رنز کا ہدف دیا، جس کے تعاقب کا آغاز ہی بہت ہی طوفانی قسم کا تھا۔ اوپنرز شین واٹسن اور ڈیوڈ وارنر نے ابتدائی اوور میں صورتحال سمجھنے کے بعد اگلے اوور سے اپنے بلوں کا جادو دکھانا شروع کر دیا۔ ڈیوڈ وارنر نے محمد حفیظ کو ایک ہی اوور میں ایک چھکا اور دو چوکے رسید کیے اور پاکستان کو باور کرایا کہ یہ ہدف اتنا مشکل نہیں ہے۔ دوسری جانب سہیل تنویر اگلے اوور میں وارنر کے ایک چھکے سے فیض یاب ہوئے اور پھر عمر گل نے دو چوکے کھائے۔ محض چار اوور میں اسکور 38 تک پہنچ چکا تھا اور پاکستان کو فوری طورپر کوئی حکمت عملی طے کرنا تھی۔ اور وہ حکمت عملی سوائے "جادوگر اسپنر" کے کیا ہو سکتی تھی؟ جی ہاں! سعیداجمل کو میدان میں لایا گیا اور انہوں نے آتے ہی اپنا کام کر دکھایا۔ چوتھی گیند پر ڈیوڈ وارنر کو بولڈ کر کے آسٹریلیا کے بڑھتے قدموں کو روکا۔ وارنر محض 22 گیندوں پر 31 رنز بنانے میں کامیاب رہے اور اس دوران 2 چھکے اور 3 چوکے لگائے۔

وارنر کی روانگی کے ساتھ ہی رن اوسط میں کمی تو واقع ہوئی لیکن کچھ دیر 'سستانے' کے بعد مائیکل ہسی اور واٹسن کے بلے رنز اگلنے لگے۔ واٹسن نے رضا حسن کے پہلے ہی اوور میں چوکے سے ان کا استقبال کیا، جبکہ ہسی نے اگلے اوور میں محمد حفیظ کو لانگ آن باؤنڈری سے کہیں دور اسٹینڈز کی دوسری منزل پر گیند کو پہنچا کر پاکستانی کپتان کو پریشانی میں ڈال دیا۔ جنکے لیے 'عشق کے امتحاں اور بھی تھے'، اگلے اوور میں رضا حسن نے واٹسن کے ہاتھوں چھکا کھایا جبکہ سہیل تنویر کو مائیک ہسی کی جانب سے ایک ہی اوور میں چھکے اور چوکے کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔

مقابلہ پاکستان کے ہاتھوں سے ریت کی طرح نکلتا جا رہا تھا کیونکہ 152 رنز کے تعاقب میں آسٹریلیا 10 اوورز میں 79 رنز بنا چکا تھا اور اس کی صرف ایک وکٹ گری تھی۔ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر کسی معجزے کی ضرورت تھی اور وہ ایک مرتبہ پھر سعید اجمل ہی کر سکتے تھے۔ جنہوں نے اپنے دوسرے اوور میں شین واٹسن کو وکٹوں کے سامنے دھر کر آسٹریلیا کو دوسرا دھچکا پہنچایا۔ وہ 2 چھکوں اور 2 چوکوں کے ساتھ 28 گیندوں پر 33 رنز بنا کر بوجھل دل کے ساتھ لوٹے۔ فارم سے باہر سابق ٹی ٹوئنٹی کپتان کیمرون وائٹ ایک مرتبہ پھر مکمل طور پر ناکام رہے جو اگلے اوور کی پہلی گیند پر عمر اکمل کی براہ راست تھرو کا نشانہ بن گئے۔ یوں مقابلہ دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا۔

میچ کو منطقی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت رکھنے والے دونوں آسٹریلوی بلے باز مائیکل ہسی اور کپتان جارج بیلے کریز پر موجود تھے ۔ جن میں سے کسی ایک کا بھی کریز پر قیام پاکستان کےلیے خطرے کی علامت تھا اور ایسا بیلے نے ثابت کر کے دکھایا جنہوں نے رضا حسن کے آخری اوور میں لانگ آن پر ایک چھکا اور آخری گیند کو ریورس سوئپ پر چوکے کی راہ دکھا کر سوائے چند آسٹریلوی تماشائیوں کے پورے میدان کو خاموش کرادیا۔

آسٹریلیا سعیداجمل کو محتاط ہو کر کھیلتا رہا اور ان کے اوور میں کسی بھی خطرے کو مول نہیں لیا لیکن اس کی کسر دوسرے اوورز میں نکالنے کی کوشش کم از کم مائیکل ہسی کو تو مہنگی پڑ ہی گئی جو عمر گل کی ایک شارٹ گیند پر باؤنڈری لگانے کی کوشش میں لانگ آن پر شعیب ملک کو کیچ دے بیٹھے۔ ہسی نے 27 گیندوں پر 23 رنز بنائے اور ان کی روانگی سے پاکستان کو میچ میں واپس آنے کی واضح امید نظر آئی۔سہیل تنویر نے اننگز کے 17 ویں اوور میں نہ صرف ڈیوڈ ہسی کو بولڈ کیا بلکہ پورے اوور میں 5 رنز دے کر پاکستان کی گرفت کو مضبوط کر دیا کیونکہ ابھی سعید اجمل کا ایک اوور بھی باقی تھا جو انہوں نے 5 گیندوں تک تو بہت عمدگی سے کرایا لیکن چھٹی گیند پر جارج بیلےکے بیک فٹ پر لگائے گئے ایک خوبصورت چھکے نے سارا مزا کرکرا کر دیا۔

اب آسٹریلیا کو دو اوورز میں 21 رنز کی ضرورت تھی اور میچ کا سب سے اہم یعنی 19 واں اوور عمر گل کو دیا گیا جو اندرونی کنارے سے لگ کر ملنے والے ایک قسمت کے چوکے اور اگلی ہی فل ٹاس گیند پر چوکے کے ساتھ بہت ہی بری طرح شروع ہوا۔ آسٹریلیا کے کپتان میچ پر ٹیم کی گرفت کو مضبوط کرتے جا رہے تھے۔ گو کہ اس اوور میں متبادل کھلاڑی یاسر عرفات کی تھرڈ مین سے پھینکی گئی براہ راست تھرو سے پاکستان کو میتھیو ویڈ کی وکٹ مل گئی تھی جو حوصلہ افزا ضرور تھا لیکن پاکستان کو دراصل "خطرناک" بیلے کو بہرصورت باہر بھیجنے کی ضرورت تھی۔

ناصر جمشید اور محمد حفیظ کے درمیان دوسری وکٹ پر 76 رنز کی زبردست شراکت قائم ہوئی (تصویر: AFP)
ناصر جمشید اور محمد حفیظ کے درمیان دوسری وکٹ پر 76 رنز کی زبردست شراکت قائم ہوئی (تصویر: AFP)

ساتھ میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ آخری اوور کس کو دیا جائے؟ تمام گیند باز اپنے 4،4 اوور مکمل کر چکے تھے سوائے محمد حفیظ کے جن کے تینوں اوورز میں آسٹریلیا نے جی بھر کر رنز لوٹے تھے اس لیے وہ انہوں نے تجربہ کار عبد الرزاق کو میدان میں لانے کا فیصلہ کیا جنہوں نے پہلی ہی گیند پر مڈوکٹ پر کھڑے یاسر عرفات کو کیچ دے دیا اور یوں میچ کو اپنے حق میں ختم کرنے سے قبل ہی پویلین سدھار گئے۔ بیلے نے اپنی 30 ویں سالگرہ کے دن کیریئر کی یادگار ترین اننگز تراشی تھی، اگر آسٹریلیا فتح یاب ہو جاتا تو، جس میں انہوں نے 2 چھکوں اور 4 چوکوں کی مدد سے محض 27 گیندوں پر 42 رنز بنائے۔

اب آسٹریلیا کے دونوں اینڈز پر باؤلرز کھڑے تھے اور پاکستان کے جیتنے کی امید زیادہ تھی کیونکہ آسٹریلیا کو 5 گیندوں پر 10 رنز درکار تھے۔ تین گیندوں پر ایک، ایک رنز بنانے کے بعد کمنز نے فیصلہ کن ضرب لگانے کا فیصلہ کیا اور پانچویں گیند کو ایک بلند و بالا چھکے میں بدل دیا۔ آسٹریلوی کیمپ خوشی سے جھوم اٹھا۔ کوچ اور تمام کھلاڑی یقینی فتح کے نشے میں سرشار تھے کہ آخری گیند پر کمنز فل ٹاس کو لیگ سائیڈ پر کھیل کر فاتحانہ رن لینے کے لیے دوڑنا چاہتے تھے کہ گیند بلے کا اوپری کنارہ لیتی ہوئی مڈ آف پر کھڑے عمران نذیر کے ہاتھوں میں جا ٹھیری۔ مقابلہ برابر ہو گیا، جس کا مطلب تھا کہ اب فیصلہ سپر اوور میں ہوگا جس میں دونوں ٹیموں کو ایک، ایک اوور کھیلنے کے لیے دیا جاتا ہے اور زیادہ رن بنانے والی ٹیم فتح یاب ٹھیرتی ہے۔

پاکستان کی جانب سے سعید اجمل اور عبد الرزاق نے 2،2 جبکہ سہیل تنویر اور عمر گل نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

پاکستان کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ اس نے فیلڈنگ بہت ہی عمدہ کی۔ براہ راست تھرو کے ذریعے دو رن آؤٹ بھی کیے اور کیچ بھی کوئی نہیں گرایا جبکہ گیند بازی میں اس نے حیران کن طور پر کوئی فاضل رن نہ دیا بلکہ پاکستانی گیند بازوں کی طرف سے دیا گیا واحد فاضل رن وائیڈ گیندکی صورت میں سپر اوور میں دیا گیا۔

قبل ازیں کپتان محمد حفیظ اور ان فارم ناصر جمشید کے عمدہ آغاز اور آخر میں کامران اکمل کی برق رفتار اننگز کی بدولت پاکستان نے 151 رنز کا مجموعہ اکٹھا کیا۔

ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ گو کہ چار اسپنرز کی موجودگی میں انوکھا لگ رہا تھا لیکن بلے بازوں کو زیادہ سے زیادہ رنز جوڑنے تھے، تاکہ آسٹریلیا اس کے دباؤ میں آئے اور محمد حفیظ نےابتدائی اوور میں3 چوکے رسید کر کے پاکستان کے ارادوں سے آگاہ بھی کر دیا۔ عمران نذیر کی صورت میں پاکستان کو ابتدا ہی میں نقصان اٹھانا پڑا جو پہلا ٹی ٹوئنٹی کھیلنے والے مچل اسٹارک کی ایک انتہائی خوبصورت گیند پر اپنا مڈل اسٹمپ کھو بیٹھے۔ بائیں ہاتھ سے گیند کرانے والے اسٹارک نے اوور دی وکٹ گیند پھینکا جو ٹپہ پڑنے کے بعد اندر کی جانب آیا اور عمران نذیر اس کے لیے تیار نہ تھے، اس لیے گیند ان کی وکٹیں بکھیرتی ہوئی نکل گئی۔ عمران نذیر کا سفر بغیر آغاز کے تمام ہو گیا۔

اس موقع پر ایک روزہ میں اوپننگ کرنے والی جوڑی محمد حفیظ اور ناصر جمشید نے میدان سنبھالا اور دوسری وکٹ پر 76 رنز کی زبردست رفاقت قائم کی۔ دونوں نے کسی بھی لمحے رنز بنانے کی رفتار کو 6 رنز فی اوور کی اوسط سے نیچے نہیں آنے دیا۔ بدقسمتی سے ناصر جمشید مڈ آف کے اوپر سے گیند کو چوکے کی راہ دکھانے کی کوشش میں ڈینیل کرسچن کے ایک ناقابل یقین کیچ کا شکار ہو گئے۔ ناصر نے پیٹ کمنز کی ایک گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھانے اور نصف سنچری کا سفر جلد از جلد پورا کرنے کی کوشش کی لیکن کرسچن نے الٹا دوڑنے کے بعد ہوا میں تیرتے ہوئے بائیں ہاتھ سے عرصے تک یاد رہنے والا کیچ تھاما۔ ناصر جمشید 36 گیندوں پر ایک چھکے اور 4 چوکوں کی مدد سے 45 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انہیں 12 کے انفرادی اسکور پر اس وقت ایک زندگی بھی ملی تھی جب مائیکل ہسی نے ان ایک آسان کیچ چھوڑ دیا تھا۔

محمد حفیظ کو بھی ایک زندگی ملی لیکن وہ اس کا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکےاور 45 رنز بنا کر ہی شین واٹسن کی گیند پر ڈیوڈ وارنر کو کیچ دے بیٹھے۔ یکے بعد دیگرے دو سیٹ بلے بازوں کی وکٹ گر جانے کے بعد ذمہ داری اب اکمل برادران کے کاندھوں پر تھی، جن میں سے کامران اکمل نے تو بہت خوبی سے اسے نبھایا۔ ان کی شعلہ فشاں بیٹنگ ہی کی بدولت پاکستان کے رنز بننے کی رفتار نیچے نہ آئی۔ دونوں حتمی لمحات میں پانچ اوورز میں 46 رنز کا اضافہ کیا اور زیادہ تر رنز کامران اکمل نے بنائے، جو 20 اوورز کے اختتام پر 26 گیندوں پر 43 رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔ انہوں نے آسٹریلوی باؤلرز کی فل ٹاس گیندوں کا بخوبی فائدہ اٹھایا اور 6 مرتبہ گیند کو باؤنڈری کی راہ دکھائی۔ عمر اکمل آخری اوور میں 13 رنز بنا کر ایک مرتبہ پھر مایوس چہرے کے ساتھ میدان سے واپس آئے۔

پاکستان نے کل 151 رنز بنائے اور صرف چار وکٹیں گنوائیں۔ آسٹریلیا کی جانب سے مچل اسٹارک، پیٹ کمنز، شین واٹسن اور ڈینیل کرسچن نے ایک، ایک وکٹ حاصل کی۔

سعید اجمل کو شاندار گیند بازی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا جنہوں نے اک ایسے موقع پر آسٹریلیا کے رنز اگلتے بلوں کے آگے بند باندھا جب وہ برق رفتاری سے ہدف کی جانب گامزن تھے اور اپنے مقررہ 4 اوورز میں صرف 20 رنز دے کر ڈیوڈ وارنر اور شین واٹسن کی قیمتی وکٹیں حاصل کیں۔ اگر وہ اپنے آخری اوور کی آخری گیند پر حریف کپتان جارج بیلے کے ہاتھوں چھکا نہ کھاتے تو ان کے اوورز میں پڑنے والے رنز کی تعداد محض 14 ہوتی۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس سیریز میں اگر سعید اجمل کو قومی ٹیم سے نکال دیا جائے تو اس کی قوت صرف آدھی رہ جائے گی۔

اب دونوں ٹیمیں 10 ستمبر کو اسی میدان پر تیسرے و آخری ٹی ٹوئنٹی میں آمنے سامنے ہوں گی۔