جنوبی افریقہ نے پہلا میدان مار لیا، انگلش بلے باز مکمل ناکام

0 1,062

سال کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء کے لیے ٹیموں کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ پاکستان اور آسٹریلیا متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں مدمقابل ہیں تو بھارت اور نیوزی لینڈ سرزمین ہند پر برسرپیکار ہیں۔ اسی طرح دفاعی چیمپئن انگلستان بھی عالمی نمبر ایک جنوبی افریقہ کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن سیریز کے پہلے ٹی ٹوئنٹی میں بلے بازوں مایوس کن کارکردگی کے سبب شکست نے اسے سخت پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔

انگلستان کو ایسی مایوس کن کارکردگی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اعزاز کے دفاع میں کامیاب نہیں کر سکتی (تصویر: PA Photos)
انگلستان کو ایسی مایوس کن کارکردگی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اعزاز کے دفاع میں کامیاب نہیں کر سکتی (تصویر: PA Photos)

گزشتہ دو ڈھائی سال سے ہوم گراؤنڈ پر کھیلی جانے والی سیریز میں فتوحات کے مزے لوٹنے والا انگلستان پہلی بار ایک بہت سخت حریف کا سامنا کر رہا ہے اور اس نے منہ کی بھی کھائی ہے۔ ٹیسٹ سیریز میں 2-0 کی کراری شکست کے بعد وہ ایک روزہ سیریز بھی نہ جیت پایا جو 2-2 سے برابر ہوئی جبکہ 3 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں کی سیریز کا پہلا معرکہ بھی 7 وکٹوں سے ہار گیا۔

چیسٹر-لی-اسٹریٹ میں کھیلے گئے پہلے ٹی ٹوئنٹی میں جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر گیند بازی کا فیصلہ کیا اور پہلے اپنے باؤلرز کی عمدہ کارکردگی اور بعد ازاں ژاک کیلس اور ژاں پال دومنی کے درمیان 90 رنز کی ناقابل شکست رفاقت نے میچ کا فیصلہ پروٹیز کے حق میں کر دیا۔

انگلستان کے لیے اس مقابلے سے بہت ساری پریشانیاں سمیٹنے کا مرحلہ آن پہنچا ہے، گو کہ سیریز کے ابھی دو مقابلے باقی ہیں لیکن یہ امر ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بقیہ دو مقابلوں کے بعد اسے براہ راست لنکن سرزمین پر اترنا ہے جہاں 18 ستمبر سے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا باضابطہ آغاز ہوگا۔

بہرحال، پہلے ٹی ٹوئنٹی میں انگلستان کی بلے بازی بری طرح ناکام ہوئی۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف حال ہی میں کھیلی گئی سیریز میں 99 رنز پر آؤٹ ہونے والے ایلکس ہیلز ژاک کیلس کی برق رفتار فیلڈنگ کے باعث محض 11 رنز پر پویلین لوٹ گئے۔ گو کہ چوتھے اوور میں ہیلز کی صورت میں پہلی وکٹ گرنے تک انگلستان 27 رنز کا اضافہ کر چکا تھا لیکن انگلش ٹی ٹوئنٹی کپتان اسٹورٹ براڈ کے روی بوپارا کو نمبر تین پر بھیجنے کے انوکھے فیصلے نے اننگز کو مزید زوال کی جانب دھکیلا۔ بہرحال، ہیلز کے کچھ ہی دیر بعد کریگ کیزویٹر یوہان بوتھا کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہو کر پویلین سدھار گئے۔ انہوں نے 24 گیندوں پر 25رنز بنائے۔ اگلے اوور میں مستقل ناکامیوں کے شکار روی بوپارا کی باری تھی جو برق رفتار ڈیل اسٹین کی گیند پر سیریز میں زیادہ تر مواقع کی طرح اس مرتبہ بھی دوسری سلپ میں کیچ دے بیٹھے۔ اننگز مکمل طور پر پٹری سے اتر گئی۔ اور ایون مورگن جیسا مرد بحران بھی اسے بحال نہ کر پایا۔

مورگن 10، جوس بٹلر 6، جانی بیئرسٹو 15 اور سمیت پٹیل محض 4 رنز بنا کر جنوبی افریقہ کے اگلے شکار تھے۔ آخری لمحات میں اسٹورٹ براڈ اور گریم سوان نے 33 رنز کی ناقابل شکست شراکت داری قائم کی اور اسکور کو تہرے ہندسے میں پہنچایا۔ دونوں 18، 18 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے لیکن انگلستان کی جانب سے دیا گیا 119 رنز کا ہدف ہر گز قابل تعریف نہ تھا۔

جنوبی افریقہ کی جانب سے رابن پیٹرسن اور یوہان بوتھا نے 2،2 جبکہ ڈیل اسٹین اور البے مورکل نے 1،1 وکٹ حاصل کی۔ اس میں سے اسٹین کی گیند بازی اس لحاظ سے سب سے عمدہ رہی کہ انہوں نے اپنے 4 اوورز میں محض 13 رنز دیے اور یہی کارکردگی بعد ازاں انہیں میچ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز دینے کا سبب بنی۔

گو کہ ایک آسان ہدف کا تعاقب ابتدا میں جنوبی افریقہ کے لیے بھی پریشان کن ثابت ہوا کیونکہ اسے دوسرے اور تیسرے ہی اوور میں رچرڈ لیوی اور ہاشم آملہ کی جگہ کھلائے گئے فرانکو دو پلیسے کی وکٹیں گنوانا پڑیں لیکن یہ 29 کے مجموعے پر کپتان ابراہم ڈی ولیئرز کا جیڈ ڈرنباخ کی دوسری وکٹ بننا تھا جس نے پروٹیز کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا۔

ذمہ داری اب ژاک کیلس کے تجربہ کار کاندھوں پر تھی جنہوں نے ژاں پال دومنی کے ساتھ مل کر اسے بخوبی نبھایا اور درکار رن اوسط کے عین مطابق چوتھی وکٹ پر 90 رنز کی رفاقت قائم کر کے انگلش امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

گو کہ دونوں کھلاڑی اپنی نصف سنچریاں مکمل نہ کر پائے، لیکن انہوں نے عالمی کپ سے قبل ایک اہم سیریز آغازفتح کے ذریعے کروا کر جنوبی افریقی خیمے میں اطمینان کی لہر ضرور دوڑائی۔ کیلس 44 گیندوں پر 7 چوکوں کی مدد سے 48 اور دومنی 54 گیندوں پر 4 چوکوں کی مدد سے 47 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔

انگلستان کی جانب سے دو وکٹیں جیڈ ڈرنباخ اور ایک اسٹیون فن کو ملی۔ بلے بازی میں مسلسل ناکامی کے شکار ہونے والے روی بوپارا گیند بازی میں بھی بہت ہی مایوس کن کارکردگی پیش کر پائے۔ ان کے دو اوورز میں حریف بلےبازوں نے 20 رنز لوٹے۔

اب دونوں ٹیمیں 10 ستمبر کو مانچسٹر میں دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں آمنے سامنے ہوں گی، جہاں انگلستان کو لازماً کامیابی حاصل کرنا ہوگی، ورنہ وہ ٹی ٹوئنٹی سیریز سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔