محمد عامر پر عائد پابندی میں کمی کی جائے: باسط علی کا مطالبہ

2 1,044

ایک زمانہ تھا کہ پاکستان اپنے تیز گیند بازوں کے ذریعے دنیا بھر کے بلے بازوں کے لیے تشویش کا باعث تھا لیکن اب ایسا قحط الرجال آیا ہے کہ پاکستان کو حریفوں کو زیر کرنے کے لیے اسپنرز پر بھروسہ کرنا پڑ رہا ہے۔ حقیقی تیز باؤلرز کی عدم موجودگی اس صورتحال کے پیدا ہونے کی ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے ٹیم اب سعید اجمل، شاہد آفریدی،محمد حفیظ اور عبد الرحمن پر بھروسہ کر رہی ہے۔ لیکن اگست 2010ء تک یہ صورتحال ہر گز نہ تھی، جب اک نوجوان دنیا جہاں کے اخبارات و ابلاغی اداروں کی سرخیوں کا حصہ تھا۔ محمد عامر، جنہیں محمد آصف کی صورت میں اک تجربہ کار گیند باز کا ساتھ حاصل تھا، اور دونوں اگلے چند سالوں تک اس شعبے میں پاکستان کی قیادت کر سکتے تھے۔لیکن یہ محمد عامر تھے، جن کے بارے میں دنیا کے کئی عظیم گیند بازوں اور تجزیہ کاروں کا بھی ماننا تھاکہ وہ مستقبل کا وسیم اکرم بن سکتے ہیں۔

عامر اب تک تبدیل شدہ شخصیت کا حامل ہے، اپنے کیے کی کافی سزا پا چکا ہے (تصویر: Getty Images)
عامر اب تک تبدیل شدہ شخصیت کا حامل ہے، اپنے کیے کی کافی سزا پا چکا ہے (تصویر: Getty Images)

لیکن 29 اگست 2010ء کو برطانیہ کے اخبار ’نیوز آف دی ورلڈ‘ نے ممکنہ سنہری دور کا خاتمہ کر دیا۔ تین پاکستانی کھلاڑی، اُس وقت کے کپتان سلمان بٹ اور مذکورہ دونوں باؤلر، اسپاٹ فکسنگ میں دھر لیے گئے اور بعد ازاں بین الاقوامی کرکٹ کونسل کی جانب سے کم از کم 5، 5 سال کی پابندی کا نشانہ بھی بنے اور برطانیہ میں قید کی سزائیں بھی انہیں بھگتنا پڑی۔

محمد عامر نے مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ساتھی کھلاڑیوں سے مختلف رویہ اپنایا اور نہ صرف یہ اقبالِ جرم کیا بلکہ پابندی کے فیصلےکے خلاف بین الاقوامی ثالثی عدالت برائے کھیل میں بھی اپیل دائر نہ کی اور عوام سے اپنی غلطی کی معافی بھی طلب کی۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے عوامی سطح پر بھی اور خود چند کھلاڑیوں میں بھی اُن کے لیے ہمدردی کے جذبات جاگے، جو اب عامر کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

انہی میں کراچی سے تعلق رکھنے والے صاف گو باسط علی بھی شامل ہیں، جنہوں نے معروف کرکٹ ویب سائٹ پاک پیشن کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں 20 سالہ عامر کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ وہ اب ایک تبدیل شدہ فرد ہے اور ایک اور موقع کا حقدار ہے، بین الاقوامی کرکٹ کونسل کو عائد کردہ پابندی کو کم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

”میں نے حال ہی میں عامر سے بات کی ہے اور اب وہ ایک بالکل تبدیل شدہ شخصیت کا حامل ہے۔ اس نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہے اور قید اور کرکٹ سے دوری کی صورت میں ان کی سزا بھی پائی ہے ۔اس لیے میں آئی سی سی سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے پر نظر ثانی کرے اور اس پر عائد پابندی میں کمی کرے۔ میرے خیال میں اسے بلے بازوں کی طرح ’شک کی گنجائش‘ دینی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بالآخر پاکستان کے لیے کھیلے گا بلکہ کہیں سے زیادہ بہتر باؤلر اور شخص کی حیثیت سے واپس آئے گا۔“

19 ٹیسٹ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے باسط علی، جو اب ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں عمدہ تیز باؤلرز کی گھٹتی ہوئی تعداد سے بہت پریشان ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ضروری ہے کہ وہ محمد عامر کی پابندی کم کروانے کے لیے ضروری تمام دروازے کھٹکھٹائے۔

”ہر شخص اپنی زندگی میں غلطیاں کرتا ہے اور عامر بھی ایک انسان ہی ہے۔ میرے لیے جو چیز خوش آئند ہے وہ یہ ہے کہ عامر نے سمجھ لیا ہے کہ اس نے غلطی کی اور اس پر متعدد بار معافی بھی طلب کی ہے۔ میں چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکا اشرف پر زور دیا گا کہ وہ اس معاملے کو بین الاقوامی کرکٹ کونسل میں لے جائیں اور عائد پابندی میں کمی کروا کر نوجوان باؤلر کی مدد کریں۔“ باسط علی نے کہا کہ ”ذکا اشرف نے پاکستانی کرکٹ کے لیے کافی سارے اچھے کام کیے ہیں اور اگر وہ، جلد یا بدیر، محمد عامر کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کے لیے واپس لے آئے تو یہ ملک کے حق میں بہت بڑا کام ہوگا۔“